پرانی چال نہیں چلے گی
جمہوریت اک حوالے سے سنبھلی ہے اور ایک حوالے سے نہیں۔
سیاسی منظرنامہ 2017 کے آخری سورج تک بہت گہرے رنگوں میں اپنے آپ کو اوڑھ کر وضح آنے لگا ہے کہ 2018 میں کیا رنگ جمے گا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کو نہ جانے کیا ہوا۔ اور میاں صاحب نہ جانے کدھر رہ گئے۔ زرداری صاحب بالآخر اس پٹری پر آگئے جہاں پیر صاحب پگارا ٹھہرتے تھے۔ ان کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی اور ہو رہی ہے کہ بلاول بھٹو مسلم لیگ میں شامل ہوں گے۔ جب کہ زرداری کے لیے ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ پرانے مسلم لیگی ہیں۔ سب کچھ تھیلے سے باہر ہے۔
اب کی بار دھرنا لاہور میں ہوگا۔ بے نظیر کے لانگ مارچ کے بعد جو انھوں نے جنرل آصف نواز کے زمانوں میں نواز شریف کی پہلے حکومت کے خلاف کیا تھا، یہ پہلی مرتبہ ہے، بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی میدان میں آہی گئی۔ یعنی طاہرالقادری ایک طرف ہوں گے اور آصف زرداری دوسری طرف ہوں گے عمران خان۔ میاں صاحب کی حکومت کا جو بچا ہے وہ نیلام ہوجائے گا۔ مارچ تک نہیں نکال پائیں گے۔ اگر مارچ گیا تو سینیٹ گئی اور اگر سینیٹ گئی تو آئین میں ترمیم لانے کا خواب گیا، خیال گیا اور اب تو نیند گئی آرام گیا۔
آج بیان میری نظر سے گزرا وہ جنرل باجوہ کا نوجوانوں کو کوئٹہ میں خطاب کے حوالے سے تھا۔ وہ کہتے ہیں حکومت کرنا فوج کا کام نہیں۔ اور سب سے بڑی بات جو انھوں نے کہی کہ وہ جمہوریت پسند ہیں اور ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے جو جرأت کی کہنے میں اور اس حقیقت سے کوئی انکار بھی نہیں کہ اسکول کم ہورہے ہیں اور مدرسے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے مدارس کو دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دینا ہوگی۔
خیر اس بات کی حقیقت میں تو نہیں جاتے کہ فوج کیا کر رہی ہے اور کیا کرنا چاہیے، یا کورٹ کیا کر رہی ہے اور کیا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کیا کرنا چاہتے تھے اور کیا ہوگیا ہے۔ یوں کہیے کہ جمہوریت کو جمہوریت نے ڈس لیا۔ میاں صاحب جمہوریت کے شاہد آفریدی ہیں، لگانے چھکا گئے تھے اور صفر پر آؤٹ ہوگئے ہیں۔
زرداری کا اسلام آباد میں یوم تاسیس سب کے لیے حیران کن تھا۔ ان کا جلسہ خان صاحب کے بڑے بڑے جلسوں سے باتیں کر رہا تھا۔ ان کا چھپ کر بوتل سے پانی پینا بہت سوں پر ناگوار گزرا ہوگا، تو بہت سے محظوظ بھی ہوئے ہوں گے۔ کل پنڈی میں خادم رضوی کا ڈیرہ تھا، وہ جو جذبات کے اتنے بے دریغ استعمال سے خوش نہ تھے، وہ زرداری کے بھنگڑا ناچ سے بہت خوش ہوئے۔ پنجاب کیا جانے کہ سندھ میں زرداری کی حکمرانی کیا جوہر دکھا رہی ہے۔ ان کے پاس یہ پیمانہ ہے، پنجاب میں جس تیزی سے مذہبی بیانیہ بیچ میدان پر آیا ہے اس سے پہلے ایسے کبھی نہ تھا، اور اس پریشانی میں زرداری باد صبا کی مانند ہے۔
زرداری و بلاول ماڈریٹ ہونے میں اپنی جان پہچان رکھتے ہیں۔ جس مذہبی رہنما نے ہمارے مجموعی قومی بیانیہ کو مسخ کیا اور اس کے مقابلے میں جو کیپٹن صفدر نے کیا، تو پھر ان میں سے مقابلہ ہے ہمارے عمران خان کا۔ لیکن زرداری کا ووٹ اور ووٹر کا مزاج مختلف ہے۔ انھیں مولانا سمیع الحق سیکولر فورس کہتے ہیں اور عمران خان مولانا کو اپنی اور پارٹی کے نظریات کے قریب دیکھتے ہیں۔ جب کہ مولانا فضل الرحمان اب زیادہ دیر میاں صاحب کے ساتھ نہیں رہ سکتے، ان کے ساتھ زیادہ رہنا گھاٹے کا سودا ہے۔ وہ آئے تو قریب تھے، اس لیے کہ اس کا عمراں خان کے ساتھ خیبرپختونخوا میں تضاد بہت گہرا اور گھنا ہے۔ خان صاحب وہاں حکومتی اتحاد بنا کر آئے ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس سادہ اکثریت نہ تھی۔
اسلام آباد کا یوم تاسیس وہ Space بھرنے کی کوشش تھی جو خود پیپلز پارٹی نے پیدا کیا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے لیے 2013 کے الیکشن میں موزوں حالات نہ تھے، دہشت گردوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ خواتین اور سیکولر ووٹ نہ دیں تو بہتر ہے، لیکن اب کی بار اس طرح نہیں ہے۔ لگ بھگ تیں سال لگے پیپلز پارٹی کو یہ سمجھنے میں کہ جو میاں صاحب کی شکل میں جمہوریت ہے ان کے خلاف محاذ نہ بنا کر خود عمران خان کے لیے انھوں نے Space پیدا کیا۔
میاں صاحب جو عمران خان کے پہلے دھرنے سے بچ کر نکلے تو اعتماد کی فضا ان کی اتنی بلند تھی کہ زمیں پر پاؤں پڑتے نہ تھے اور اب کی بار زمیں جو ان کے پیروں سے کھسکی ہے ان کی بھی ان کو صحیح خبر اب تک نہیں ہے۔
یہ مان بھی لیا جائے کہ میاں صاحب کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، تو یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس پر کھیلے بھی آداب سے باہر ہیں، جو بھی مروج طریقہ تھا، جس طرح بے نظیر کھیلتی تھی یا جس طرح زرداری میمو گیٹ کے زمانے میں کھیلے تھے، یہ اس سے بھی بہت زیادہ آگے جا کر کھیلے۔
2018 اب کی بار پاکستان میں میاں صاحب کے بغیر ابھرے گا، وہ اس طرح کہ جنرل باجوہ، جنرل مشرف کی طرح آمریت نہیں لارہے کہ پھر ان کو کسی PML-Q کی ضرورت ہو اور پھر سارے کوٹے اقتدار کی خاطر اک طرف یہاں حسب سابق پابند سلاسل یا جلاوطن اور پھر تین سال کے بعد ساری جمہوری قوتیں اتحاد بنائیں اور پھر آمریت کے خلاف اگر وکلا تحریک نہ سہی تو کوئی اور تحریک سہی۔
بھلا کہیں جنرل مشرف کو یا برا، مگر زرداری کی طرح ان کو بھی ناچ گانا اچھا لگتا تھا۔ عورتوں کی آزادی پر یقین رکھتے تھے اور ان کی نشستیں بھی زیادہ رکھیں تو اقلیتوں کو دو ووٹ کا حق بھی دیا۔ یہ اور بات ہے کہ حافظ سعید کے بغیر ان کی زندگی ادھوری ہے۔ یہ وہ حساس جگہ ہے جہاں سے پھر ہم مار کھا جاتے ہیں۔ خیر آج کل امریکا پر یہ پاگل پن سوار ہے، اس کے اور بہت مسائل ہیں، وہ ہم پر اتنی توجہ نہیں رکھ پائیں گے۔
2018 پاکستان میں تیسرا مسلسل بیلٹ باکس کی طرف سال ہے۔ جمہوریت اک حوالے سے سنبھلی ہے اور ایک حوالے سے نہیں۔ آمریت براہ راست تو ماضی ہوئی، بالواسطہ نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی سوچ کا معیار ابھی بہتر نہیں ہوا۔ اب بھی ووٹ سرداروں، وڈیروں اور نوابوں کو ملتا ہے، اور جو بیانیہ کے اثر میں ووٹ ہے، اس کا بھی اس حوالے سے معیار بہتر نہیں ہوا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ ایسے جمہوری لیڈر کو مکمل واک اور دے دیں تو پھر ایسا مقرر پھر آمر بن جاتا ہے۔ میاں صاحب کے پاس جب بھی اقتدار آیا، انھوں نے ہمیشہ پنگا لیا۔ اب کی بار پنگا جن سے لیتے ہیں، وہ ہوشیار ہوگئے ہیں، ان کی چال میں اب نہیں آنے والے۔
اب کی بار دھرنا لاہور میں ہوگا۔ بے نظیر کے لانگ مارچ کے بعد جو انھوں نے جنرل آصف نواز کے زمانوں میں نواز شریف کی پہلے حکومت کے خلاف کیا تھا، یہ پہلی مرتبہ ہے، بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی میدان میں آہی گئی۔ یعنی طاہرالقادری ایک طرف ہوں گے اور آصف زرداری دوسری طرف ہوں گے عمران خان۔ میاں صاحب کی حکومت کا جو بچا ہے وہ نیلام ہوجائے گا۔ مارچ تک نہیں نکال پائیں گے۔ اگر مارچ گیا تو سینیٹ گئی اور اگر سینیٹ گئی تو آئین میں ترمیم لانے کا خواب گیا، خیال گیا اور اب تو نیند گئی آرام گیا۔
آج بیان میری نظر سے گزرا وہ جنرل باجوہ کا نوجوانوں کو کوئٹہ میں خطاب کے حوالے سے تھا۔ وہ کہتے ہیں حکومت کرنا فوج کا کام نہیں۔ اور سب سے بڑی بات جو انھوں نے کہی کہ وہ جمہوریت پسند ہیں اور ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے جو جرأت کی کہنے میں اور اس حقیقت سے کوئی انکار بھی نہیں کہ اسکول کم ہورہے ہیں اور مدرسے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے مدارس کو دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دینا ہوگی۔
خیر اس بات کی حقیقت میں تو نہیں جاتے کہ فوج کیا کر رہی ہے اور کیا کرنا چاہیے، یا کورٹ کیا کر رہی ہے اور کیا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کیا کرنا چاہتے تھے اور کیا ہوگیا ہے۔ یوں کہیے کہ جمہوریت کو جمہوریت نے ڈس لیا۔ میاں صاحب جمہوریت کے شاہد آفریدی ہیں، لگانے چھکا گئے تھے اور صفر پر آؤٹ ہوگئے ہیں۔
زرداری کا اسلام آباد میں یوم تاسیس سب کے لیے حیران کن تھا۔ ان کا جلسہ خان صاحب کے بڑے بڑے جلسوں سے باتیں کر رہا تھا۔ ان کا چھپ کر بوتل سے پانی پینا بہت سوں پر ناگوار گزرا ہوگا، تو بہت سے محظوظ بھی ہوئے ہوں گے۔ کل پنڈی میں خادم رضوی کا ڈیرہ تھا، وہ جو جذبات کے اتنے بے دریغ استعمال سے خوش نہ تھے، وہ زرداری کے بھنگڑا ناچ سے بہت خوش ہوئے۔ پنجاب کیا جانے کہ سندھ میں زرداری کی حکمرانی کیا جوہر دکھا رہی ہے۔ ان کے پاس یہ پیمانہ ہے، پنجاب میں جس تیزی سے مذہبی بیانیہ بیچ میدان پر آیا ہے اس سے پہلے ایسے کبھی نہ تھا، اور اس پریشانی میں زرداری باد صبا کی مانند ہے۔
زرداری و بلاول ماڈریٹ ہونے میں اپنی جان پہچان رکھتے ہیں۔ جس مذہبی رہنما نے ہمارے مجموعی قومی بیانیہ کو مسخ کیا اور اس کے مقابلے میں جو کیپٹن صفدر نے کیا، تو پھر ان میں سے مقابلہ ہے ہمارے عمران خان کا۔ لیکن زرداری کا ووٹ اور ووٹر کا مزاج مختلف ہے۔ انھیں مولانا سمیع الحق سیکولر فورس کہتے ہیں اور عمران خان مولانا کو اپنی اور پارٹی کے نظریات کے قریب دیکھتے ہیں۔ جب کہ مولانا فضل الرحمان اب زیادہ دیر میاں صاحب کے ساتھ نہیں رہ سکتے، ان کے ساتھ زیادہ رہنا گھاٹے کا سودا ہے۔ وہ آئے تو قریب تھے، اس لیے کہ اس کا عمراں خان کے ساتھ خیبرپختونخوا میں تضاد بہت گہرا اور گھنا ہے۔ خان صاحب وہاں حکومتی اتحاد بنا کر آئے ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس سادہ اکثریت نہ تھی۔
اسلام آباد کا یوم تاسیس وہ Space بھرنے کی کوشش تھی جو خود پیپلز پارٹی نے پیدا کیا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے لیے 2013 کے الیکشن میں موزوں حالات نہ تھے، دہشت گردوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ خواتین اور سیکولر ووٹ نہ دیں تو بہتر ہے، لیکن اب کی بار اس طرح نہیں ہے۔ لگ بھگ تیں سال لگے پیپلز پارٹی کو یہ سمجھنے میں کہ جو میاں صاحب کی شکل میں جمہوریت ہے ان کے خلاف محاذ نہ بنا کر خود عمران خان کے لیے انھوں نے Space پیدا کیا۔
میاں صاحب جو عمران خان کے پہلے دھرنے سے بچ کر نکلے تو اعتماد کی فضا ان کی اتنی بلند تھی کہ زمیں پر پاؤں پڑتے نہ تھے اور اب کی بار زمیں جو ان کے پیروں سے کھسکی ہے ان کی بھی ان کو صحیح خبر اب تک نہیں ہے۔
یہ مان بھی لیا جائے کہ میاں صاحب کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، تو یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس پر کھیلے بھی آداب سے باہر ہیں، جو بھی مروج طریقہ تھا، جس طرح بے نظیر کھیلتی تھی یا جس طرح زرداری میمو گیٹ کے زمانے میں کھیلے تھے، یہ اس سے بھی بہت زیادہ آگے جا کر کھیلے۔
2018 اب کی بار پاکستان میں میاں صاحب کے بغیر ابھرے گا، وہ اس طرح کہ جنرل باجوہ، جنرل مشرف کی طرح آمریت نہیں لارہے کہ پھر ان کو کسی PML-Q کی ضرورت ہو اور پھر سارے کوٹے اقتدار کی خاطر اک طرف یہاں حسب سابق پابند سلاسل یا جلاوطن اور پھر تین سال کے بعد ساری جمہوری قوتیں اتحاد بنائیں اور پھر آمریت کے خلاف اگر وکلا تحریک نہ سہی تو کوئی اور تحریک سہی۔
بھلا کہیں جنرل مشرف کو یا برا، مگر زرداری کی طرح ان کو بھی ناچ گانا اچھا لگتا تھا۔ عورتوں کی آزادی پر یقین رکھتے تھے اور ان کی نشستیں بھی زیادہ رکھیں تو اقلیتوں کو دو ووٹ کا حق بھی دیا۔ یہ اور بات ہے کہ حافظ سعید کے بغیر ان کی زندگی ادھوری ہے۔ یہ وہ حساس جگہ ہے جہاں سے پھر ہم مار کھا جاتے ہیں۔ خیر آج کل امریکا پر یہ پاگل پن سوار ہے، اس کے اور بہت مسائل ہیں، وہ ہم پر اتنی توجہ نہیں رکھ پائیں گے۔
2018 پاکستان میں تیسرا مسلسل بیلٹ باکس کی طرف سال ہے۔ جمہوریت اک حوالے سے سنبھلی ہے اور ایک حوالے سے نہیں۔ آمریت براہ راست تو ماضی ہوئی، بالواسطہ نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی سوچ کا معیار ابھی بہتر نہیں ہوا۔ اب بھی ووٹ سرداروں، وڈیروں اور نوابوں کو ملتا ہے، اور جو بیانیہ کے اثر میں ووٹ ہے، اس کا بھی اس حوالے سے معیار بہتر نہیں ہوا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ ایسے جمہوری لیڈر کو مکمل واک اور دے دیں تو پھر ایسا مقرر پھر آمر بن جاتا ہے۔ میاں صاحب کے پاس جب بھی اقتدار آیا، انھوں نے ہمیشہ پنگا لیا۔ اب کی بار پنگا جن سے لیتے ہیں، وہ ہوشیار ہوگئے ہیں، ان کی چال میں اب نہیں آنے والے۔