سب چاہتے ہیں فوج آجائے۔ فوج چاہتی ہے جمہوریت

آج فوج کی قیادت کسی ٹیک اوور کے موڈ میں نہیں ہے۔

msuherwardy@gmail.com

پاکستان میں سیاسی طور پر اس وقت صورتحال عجیب ہوگئی ہے۔ پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں شدید کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح پاکستان میں جمہوریت کا بستر گول ہو جائے دوسری طرف فوج اس کوشش میں ہے کہ کسی بھی طرح جمہوریت کی یہ گاڑی چلتی رہے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے جمہوریت کے محافظ بنے بیٹھے ہیں اور جمہوریت کے محافظ جمہوریت کے قتل کے خواہاں ہیں۔

مجھے تو دکھ اس بات پر بھی ہے کہ پیپلزپارٹی بھی جمہوریت کی گاڑی کو چلانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔ ورنہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالہ سے ایسے تاخیری حربے استعمال نہ کیے جاتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بروقت انتخابات کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ نظرآرہی ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہی ہے۔ خیر یہ بات تو آصف زرادی ہی بہتر جانتے ہونگے کہ انتخابات میں تاخیر سے انھیں کیا فائدہ ہو گا۔ لیکن یہ اشارے واضح ہیں کہ پیپلزپارٹی فی الحال بروقت انتخابات کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔

کہا جا رہاہے کہ آصف زرداری خود بھی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ نظام چار پانچ سال کے لیے پٹری سے اتر جائے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ پیپلزپارٹی کے لیے ضروری ہے۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی کو اقتدار ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ بلکہ اب تو سندھ کے جانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں اگر سارا نظا م ہی لپیٹ دیا جائے تو پیپلزپارٹی کو اور بلاول کی سیاست کو بہت فائدہ ہوگا۔ بلاول کو پانچ سال بھر پور اپوزیشن کرنے کے لیے مل جائیں گے۔ سارا گند بھی صاف ہو جائے گا۔ جمہوریت کی بحالی کی لڑائی میں ساری کرپشن بھی دھل جاتی ہے۔ اس لیے اگر نظام گول ہو جائے تو فائدہ زیادہ ہے نقصان کم ہے۔

جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو وہ بھی کنفیوژ ن کا شکار ہیں۔ وہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن ان کی سیاست دوسری طرف جا رہی ہے۔ نواز شریف کے مائنس ہونے کے بعد بھی انھیں اپنی منزل دور نظر آرہی ہے۔ جب تک شہباز شریف مائنس نہ ہو انھیں اپنا راستہ صاف نظر نہیں آتا۔ شہباز شریف کی موجودگی میں وہ انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ پہلے شہباز شریف کو مائنس کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لیے انھیں ابھی تک اسکرپٹ نہیں مل رہا ہے۔ شہباز شریف کو مائنس کرنے کے لیے وہ طاہر القادری کی مدد چاہ رہے ہیں۔


عمران خان کی جانب سے فاٹا کے لیے احتجاجی مہم کا اعلان بھی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد وہ اس نظام کو گرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ حالانکہ انھیں علم ہے کہ اگر انھوں نے کسی نہ کسی طرح یہ نظام قبل از وقت گرا لیا تو دوبارہ بروقت انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف حلقہ بندیوں کا بل سینیٹ میں پھنسا ہوا ہے۔ دوسری طرف اگر یہ نظام گر جاتا ہے تو پھر دوبارہ بر وقت انتخابات ممکن نہیں ہو نگے۔ عمران خان کو یہ بھی خطرہ ہے کہ ان کی اپنی نا اہلی کے کیس کا فیصلہ بھی اس وقت عدالت میں جہانگیر ترین کے ساتھ محفوظ ہے۔ وہ اس فیصلہ سے پہلے نظام کو گرانا چاہتے ہیں تا کہ یہ فیصلہ اپنی وقعت کھو جائے۔

کراچی بھی اس وقت انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی اس قدر پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے کہ سب کہنے پر مجبور ہیں کہ کراچی ابھی انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے ادغام کی پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فی الحال اس سے بہتر اسکرپٹ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی کرنے والے بابر غوری بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم لندن کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ باقی تمام دھڑے اکٹھے ہو جائیں۔ مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار نے بنا بنایا کھیل خراب کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم لندن بھی انتخابات کے انتظار میں ہے۔

کاش کہ دونوں کو احساس ہوتا ہے کہ دونوں کی بقا اکٹھے ہونے میں ہے لیکن میں نہ مانوں اور میری قیادت میری قیادت کے چکر میں دونوں اپنی اپنی گیم خراب کر رہے ہیں۔ اگر فاروق ستار اسکرپٹ پر نہیں آتے تو کیا ہو گا۔ کیا ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو اس کا فائدہ کس کو ہو گا۔ کراچی میں تحریک انصاف نے بھی بہت ناامید کیا ہے۔ لیکن اگر فاروق ستار الگ رہنے پر ڈٹ جاتے ہیں تو مصطفیٰ کمال اور عمران خان کے اتحاد کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ لیکن یہ اتحاد کس حد تک کامیاب ہوگا یہ ایک الگ سوال ہے۔

طاہر القادری کی ہچکچاہٹ بتا رہی ہے کہ انھیں گرین سگنل نہیں مل رہا۔ وہ جس اسکرپٹ کی تلاش میں ہے انھیں مل رہا۔ انھوں نے پہلے دونوں دھرنے بھی اسکرپٹ کے تحت ہی دیے تھے۔ ناکامی یا کامیابی الگ بات ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں فوج ایک بڑی اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس سے پہلے جب بھی جمہوری نظام کی بساط لپیٹی گئی ہے تو فوج ہی نے ایسا کیا ہے۔ کیونکہ فوج اس نتیجے پرپہنچ گئی تھی کہ جمہوریت مزید ایسے نہیں چل سکتی۔

آج بھی فوج ایک بڑی اسٹیک ہولڈر ہے۔ لیکن آج فوج یہ سمجھ رہی ہے کہ حا لات کچھ بھی ہوں اس جمہوری نظام کو چلانا ہے۔ اسی میں پاکستان کی بہتری ہے۔ آج فوج کی قیادت کسی ٹیک اوور کے موڈ میں نہیں ہے۔ ان کا اسکرپٹ ہی ایسا نہیں ہے۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کو چلانا ہے۔ شائد ہمارے سیاستدان اس تبدیلی کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔ وہ پرانے دور سے باہر نہیں آرہے۔ وہ بار بار فوج کو دعوت دے رہے ہیں کہ آجاؤ۔ لیکن انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی دعوت کیوں قبول نہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اسکرپٹ بدل گیا ہے۔ حالات بدل گئے ہیں۔ تقاضے بدل گئے ہیں۔ دوست بدل گئے ہیں۔ تبدیلی آگئی ہے لیکن کوئی سمجھ ہی نہیں رہا۔
Load Next Story