کیا یہ وہی آنگ سان سوچی ہے

آنگ سان سوچی براہ راست حکومت میں نہیں ہے لیکن موجودہ حکومت اس کے زیر اثر ہے۔

barq@email.com

یہ اقتدار کا نشہ نہ صرف خود ہی کچھ اور ہوتا ہے بلکہ انسان کو بھی کچھ اور بنا دیتا ہے، پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ کمزوری یا غربت برداشت کرنا آسان ہے لیکن طاقت اور دولت برداشت کرنا بہت مشکل ہے،آنگ سان سوچی برما یا میانمار کی وہ عورت ہے جس نے انسان دوستی،انصاف اور حق کے لیے بے مثال نام کمایا تھا اور ساری دنیا میں حق اور استقامت کی ایک مثال بن گئی تھی لیکن جب اقتدارکو پہنچی تو دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیا سے کیا ہوگئی بلکہ روہنگیا میں تو ایک دوسری حقیقت بھی سامنے آگئی، بدھ مت کے پیروکار جوحشرات کو گزند نہ پہنچنے کے خیال سے جوتے تک نہیں پہنا کرتے تھے لیکن بدھ مت کے وہ پیروکار بھی ۔۔ اور آنگ سان سوچی بھی چنگیزو ہلاکو بن گئے۔

رحمان بابا نے جو سیاسی شاعر بالکل نہ تھے ایک صوفی صافی اور مست ملنگ قسم کے درویش تھے، انھوں نے اور نگزیب کے بارے میں جو چند شعر کہے ہیں وہ اس طاقت و اقتدار کے تعارف کے لیے کافی ہیں، فرمایا ہے

اورنگ زیب ھم یو فقیر وو
چہ ٹوپی ئے وہ پہ سر

یعنی اورنگ زیب بھی ایک فقیر تھا جو درویشانہ ٹوپی پہنے ہوئے رہتا تھا ۔

ایک ایک کرکے اس نے خرم کے سارے خاندان کو تہہ تیغ کیا اس طرح پھر اس کے کچھ اور کارنامے بھی بتائے ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں اور یہی آنگ سان سوچی نے بھی کیا۔ کئی ممالک نے واپس لے بھی لیے ہیں، جو ایک انتہائی شرمناک اور رسواکن بات ہے۔ لیکن طاقت اور اقتدار کا نشہ انسان کو اندھا گونگا پاگل بہرا سب کچھ بنا دیتا ہے۔


اس اچانک اور خلاف توقع تبدیلی کے بارے میں کہیں ایک کہانی پڑھی تھی، یہ یاد نہیں کس زبان کی تھی اورکس نے لکھی تھی لیکن اقتدار پر اس میں زبردست چوٹ تھی۔ کہانی کے مطابق ایک ملک کا بادشاہ انتہائی ظالم بن گیا تھا، لوگوں کا جینا حرام ہوگیا۔ وہ دانے دانے کو محتاج ہو گئے، انتہائی تنگ آکر انھوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا، بادشاہ کے محل کے سامنے ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا جو ہائے پٹ کر رہا تھا، رو رہا تھا، چلا رہا تھا، انصاف کی دہائیاں دے رہا تھا، چند جنازے بھی اٹھائے ہوئے تھے جو بھوک یا شاہی مظالم سے مر گئے تھے۔

لوگ دھرنا دیے ہوئے بیٹھے چیخ چلا رہے تھے کہ بادشاہ کے محل کی طرف سے ایک شاہی سپاہی آیا اس نے جلوس سے کہا کہ بادشاہ سلامت تمہاری فریاد سننا چاہتے ہیں، تم ایسا کرو اپنا ایک نمایندہ چن کر بھیج دو جو بادشاہ سلامت کو تمہارے مسائل سے آگاہ کرے۔

لوگوں نے اپنا ایک نمایندہ چن کر محل بھیج دیا۔ یہ پرجوش اور جذباتی نوجوان بادشاہ کے خلاف اور عوام کے حق میں نعرے لگاتا ہوا محل پہنچا تو شاہی کارندوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت تیسری منزل پر تشریف فرما ہیں لیکن محل کا قانون یہ ہے کہ پہلی منزل سے پہلے تم اپنے کان سرکاری کانوں سے بدل دو گے چنانچہ اپنے کان دے دو اور یہ شاہی یا سرکاری کان ہم تمہیں لگا دیتے ہیں۔

نوجوان نے بات مان لی اور شاہی کانوں کے ساتھ دوسری منزل تک پہنچا۔ سیڑھیوں پر ہی اس نے سنا کہ باہر کا ہجوم نہ صرف بادشاہ زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہے بلکہ چیخ و پکار اور بین کی جگہ شہنائیوں اور ڈھولک کے شادیانے بھی بج رہے ہیں، دوسری منزل پر اسے بتایا گیا کہ ان اپنی عوامی آنکھوں کے ساتھ تم آگے نہیں بڑھ سکتے، اس لیے یہاں سے آگے تم اپنی آنکھیں شاہی آنکھوں سے بدلواکر ہی آگے بڑھ سکو گے، اس نے یہاں اپنی آنکھیں دے کر شاہی آنکھیں لگوالیں اور جب سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو اس نے ایک کھڑکی سے دیکھا کہ باہر والا ہجوم قہقہے لگا کر ہنس رہا ہے، شادیانے بج رہے ہیں، سامنے بادشاہ سلامت بیٹھے تھے جو بڑی اپنائیت سے مسکرا رہے تھے اس نے بادشاہ کو دیکھا تو دوڑ کرگیا اور بادشاہ کے پیروں پڑکر بولا کیسے ہیں ابو جان بادشاہ نے کہا میں ٹھیک ہو بیٹا۔ تم کیسے ہو۔ نوجوان بولا ابوجان میں آپ کا بیٹا ہونے پر فخر کرتا ہوں آپ کے زیر سایہ خوش ہوں کوئی تکلیف نہیں ہے عیش ہی عیش ہے۔

بادشاہ نے پوچھا اور رعایا کا کیا حال ہے، شہزادے نے کھڑکی کھولی اور بادشاہ سلامت کو دکھایا کہ سامنے رعایا خوشی سے سرشار ہو کر ناچ گارہی ہے اور بادشاہ زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہے، ویسے تو یہ ایک افسانہ ہے لیکن افسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں صرف نام و مقام فرضی ہوتا ہے باقی واقعات بالکل سچ ہوتے ہیں جب کہ تاریخ میں صرف نام حقیقت ہوتے ہیں باقی سب افسانے ہوتے ہیں۔

جہاں تک روہنگیا کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو انھوں نے نہ حکومت مانگی ہے نہ سونا چاندی محل دو محلے مانگے ہیں صرف جینے کا حق ہی تو مانگ رہے ہیں جو ہر انسان کا بنیادی حق ہوتا ہے، آنگ سان سوچی سے پہلے بھی کچھ ایوارڈ واپس لیے جا چکے ہیں اور یہ انتہائی رسواکن بات ہے، شہری انتظامیہ کی سربراہ ایوا بولانڈر نے کہا کہ گلاسکو کی حکومت نے حال ہی میں سوچی کو خط لکھ کر ان کی ناک کے نیچے ہونے والے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ان پر مداخلت کرنے کے لیے زور دیا تھا لیکن سوچی کا جواب مایوس کن اور افسوس ناک تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے بھی آنگ سان سوچی کی تصویر ہٹا دی ہے۔

آنگ سان سوچی براہ راست حکومت میں نہیں ہے لیکن موجودہ حکومت اس کے زیر اثر ہے اور دنیا اس سے صرف اتنا چاہتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں براہ راست مداخلت نہ سہی کم از کم اس کی مذمت تو کرے لیکن اس کی خاموشی کو رضامندی ہی کہا جا سکتا ہے، وہ چاہے تو ان مظالم کو روک بھی سکتی ہے لیکن نہ جانے کیوں وہ خاموش ہے بلکہ اس کے رویے سے لگ رہا ہے کہ ان مظالم کو اس کی مکمل تائید حاصل ہے اور یہی بات بڑے دکھ کی ہے حالانکہ جو مظالم عالمی دنیا میں رپورٹ ہو رہے ہیں، ان کو دیکھ اور سن کر ہر کسی کا کلیجہ ٹکڑے ہو جاتا ہے لیکن نہ جانے آنگ سان سوچی اور بدھ مذھب کے پیروکار کس مٹی بلکہ پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔
Load Next Story