گریٹر اسرائیل منصوبہ ٹرمپ نے دنیا کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا

مختلف سیاسی رہنماؤں کا ایکسپریس فورم اسلام آباد میں اظہارِ خیال


ایکسپریس کے زیر اہتمام ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں معروف سیاسی، مذہبی و دفاعی شخصیات نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ فوٹو: ایکسپریس

RAWALPINDI: امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کی پاکستان آمداور حسب معمول ایک بارپھرپاکستان کو ڈو مور کرنے کے مطالبہ کے حوالے سے ملک بھر میں شدید ردعمل پایا جاتاہے اور تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس مطالبہ کو امریکی ناکامی اوربالخصوص افغانستان میں شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش قراردیاہے۔ دوسری جانب امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور چھ ماہ تک امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کردیاہے جس سے پوری اسلامی دنیا میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے قبلہ اول اور کعبہ و مدینہ کے بعد سب سے مقدس مقام کی آزادی کا مطالبہ دہرایاہے ۔مذکورہ بالا دونوں اہم اور اسلامی دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرنے اور مسئلہ کی گہرائی جاننے کے لیے روزنامہ ایکسپریس کے زیر اہتمام ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف سیاسی ، مذہبی و دفاعی شخصیات نے خصوصی شرکت کی اور اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔فورم کے شرکاء میں وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چودھری ،جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر حافظ حمداللہ،پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحرکامران، پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے عامر ڈوگر، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر زبیر فاروق خان اور دفاعی تجزیہ نگار عبداللہ گل شامل تھے۔

ڈاکٹر طارق فضل چودھری (وزیر مملکت برائے کیڈ )

پاکستان امن پسند ملک ہے اور دنیا سے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کوشاںہے۔اس کیلئے پاکستان کی حکومت ، عوام اور سول اور ملٹری کے تمام ادارے ہر ممکن ذرائع کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کام کر رہے ہیں۔پاکستان نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں اپنے حصے سے بڑھ کر کام کر دیا ہے۔ پاکستان کی سول اورعسکری قیادت کی طرف سے امریکہ کو یکساں پیغام دیا گیا۔پاکستان نے بار ہا دنیا پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کی سر زمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے اس کیلئے پاکستان نے عملی اقدام کئے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کو بہتر کیا جا رہا ہے ، پاکستانی ٹیکس کے پیسوں سے بارڈر پر باڑ لگائی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک میں ایسا کوئی نو گو ایریا نہیں جہاں دہشت گرد پناہ حاصل کر سکیں۔ ہماری افواج نے گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی کے خا تمے کیلئے بے شمار آپریشن کئے جن میں آپریشن راہ نجات، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ حق اور آپریشن ضرب عضب شامل ہیں ۔ ہماری حکومت نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی جس سے دہشت گرد ی کی کارروائیوں میں70 فیصد کمی آئی۔پاکستان نے اس جنگ میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ دنیا میں کسی ملک میں دہشت گردی سے اتنا جانی نقصان نہیں ہوا۔اربوں ڈالر نقصان کی وجہ سے پاکستانی معیشت کئی سال پیچھے چلی گئی۔حال ہی میں پاکستان میں وقتاًفوقتاًہونے والی دہشت گرد انہ کارروائیوں کی تمام منصوبہ بندی افغانستان سے ہو رہی ہے۔ افغانستان کے ایک بڑے رقبے پر اس وقت بھی افغان حکومت کی عملداری نہیں۔ ڈرگ کی پیداوار پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے جس سے دہشت گردی پنپ رہی ہے۔ افغان یا امریکی حکومت کی افغانستان میں ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ افغانستان کے مسائل کا حل افغانستان میں ہے۔افغانستان کے حالات کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ ملکر خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کا دوٹوک موقف ہے جو سب کے سامنے ہیں دفتر خارجہ نے اس پر حکومتی موقف واضح کیاہے ۔

سینٹر حافظ حمد اللہ (رہنماء جمعیت علمائے اسلام)

جمعیت علمائے اسلام ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی شدید مذمت کرتی ہے اور اس حوالے سے ملک گیر احتجاجی سلسلہ بھی شروع کیا گیاہے ، ہم تو یہی کر سکتے ہیں باقی کام حکومتوں نے کرنے ہیں ۔57اسلامی ممالک کو متحد کرنا ہوگا اور اس کے لیے پاکستان ،ایران، ترکی اور سعودی عرب کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا انہیں اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر امت کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ ٹرمپ کاحالیہ بیان مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے یہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ہے اور ٹرمپ کے اس اعلان سے مشرق وسطیٰ میں نئی جنگ شروع ہوجائے گی۔ یہ فیصلہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ،ٹرمپ امریکی ہٹلر اور گوربا چوف ہے جو اضرور مریکی تباہی کا باعث بنے گا،امریکہ اور مغرب مسلمان ممالک کی جغرفیائی حدود کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور آج دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد وائٹ ہاؤس میں براجمان ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 1948ء سے ہیں ہم نے امریکہ کی بہت خدمت کی ہے اور مار بھی اسی امریکہ سے ہی کھارہے ہیں،یہ خدمت کا علم ہماری حکومتوں اور ریاست نے اٹھایا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عوام اندرونی ،بیرونی، معاشی، جغرافیائی مسائل ، مشرقی اور مغربی سرحدوں کا عدم استحکام جیسے مسائل کا شکارہوئے۔ ان تمام حالات کا ذمہ دار امریکہ ہے اور ہمارے حکمران اس میں برابر کے شریک ہیں خواہ وہ جمہوریت کے نام پر ہوں یا پاکستان بچاؤ کے نام پر ہو، خواہ وہ خاکی پوش ہوں یا شیروانی پوش دونوں نے ملک، قوم اور نظریہ کو بیچا ہے، جمہوریت اور کبھی آمریت کے نام پر ہماری خارجہ پالیسی برائے فروخت رہی ہے ۔ 1965ء کی جنگ ہو یا 1971کا فیصلہ، 1980ہو یا 90کی دہائی جس میں طالبان بھی شامل ہیں، نائن الیون سمیت جو بھی فیصلے کیے گئے اس میں قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ان فیصلوں سے ملک میں فرقہ واریت،کلاشنکوف کلچر، لسانیت، علاقائیت اورصوبائیت کو فروغ ملا، 71ء کے فیصلے نے ملک دو لخت کیا۔ نائن الیون کے بعد 15سال میں 70 ہزار لوگ مارے گئے۔ امام بارگاہیں، مساجد، مقدس مقامات، سکول وکالج، جامعات، تفریحی مقامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ کی لگائی آگ سے وطن عزیز کو 12ارب ڈالرسے زائدنقصان ہوا، ہم نے اپنی فضااور سمندر امریکہ کے حوالے کردیئے۔ پڑوسی ملک پر حملہ کرنے اور وہاں پر قتل و غارتگری کے لیے ہمارے ملک سے 57ہزار فلائٹس اڑائی گئیں۔ جس ملک کی سرحد پر ہمیں ایک بھی چوکیدار کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی وہاں ہمیں باڑ لگانا پڑرہی ہے، ہماری ناقص حکمت عملی سے کابل اور دہلی کے مابین قربتیں پیدا ہوئیں اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچارکیا گیا، حکومت اور ریاست نے اتنے بڑے فیصلے اپنے ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر کرنے کی بجائے غیر ملکی آقاؤں کو خوش رکھنے کے لیے کیے۔ افسوس کی بات ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی امریکہ پاکستان پر اعتماد نہیں کرتاہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہو، امریکی وزیر خارجہ ہو یا داخلہ یا ان کی مکمل ریاست سب کہتے ہیں کہ بھارت ان کا فطری اتحادی ہے لیکن پاکستان کے بارے میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ انہوںنے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کرنے کے بعد چھوڑنا ہوتاہے اس لیے ہمیں اتحادی کہتے ہیں یعنی جب ضرورت ہوئی کام نکلوا لیا پھر چھوڑ دیا۔ افغان جنگ میں ہم امریکہ کے اتحادی تھے جب یہ جنگ ختم ہوئی پریسلر ترمیم لے آئے ۔ 1948سے آج تک ہم بلاتفریق امریکی خدمت کررہے ہیں لیکن وہ آج بھی ہمیں دہشت گرد ملک اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں والا ملک کہتاہے لیکن ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی ہے ۔ امریکہ نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں بھارت کو لانا چاہتاہے، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اس کو رکن بنانا چاہتاہے، فائدے کے سارے کام بھارت کے لیے اور ڈو مور پاکستان کے لیے ہے ۔امریکی پینٹاگان نے 12جولائی2015ء کو اپنی رپورٹ میں واضح لکھا کہ اگر امریکہ نے دنیا میں رہنا ہے تو دنیا میں جنگ جاری رکھنی ہوگی جس دن دنیا میں امن ہوگیا امریکہ میں رہنے والے زندہ لاشیں بن جائیںگے اسی سے ان کا نیوورلڈ آرڈر قائم ہوسکے گا، پینٹا گان کا کہنا ہے کہ آج کے بعد ہماری جنگ دہشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردوں کو پناہ دینے والی ریاستوں کے خلاف ہوگی۔اس وقت پورے ملک میں کسی سے بھی پوچھو تو کہے گا کہ چین ہمارا دوست ہے لیکن کسی بھی شہری سے امریکہ کے بارے میں پوچھو تو اسے دوست نہیں کہے گا۔ اگر ہمارے حکمران ایک بار امریکہ مردہ باد یا امریکہ زندہ باد کہہ دیں تو میں سیاست چھوڑ دونگا۔ یہ امریکہ کو زندہ باد اور نہ ہی مردہ باد کہہ سکتے ہیں ۔اس وقت دنیا پر پانچ ممالک جن فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور امریکہ شامل ہیں کی کی حکمرانی ہے اور یہی اقوام متحدہ کے مستقل رکن بھی ہیں۔باقی ریاستیں باالخصوص امت مسلمہ کی زندگی اور موت، معاشیات اور دیگر فیصلے یہی ممالک کرتے ہیں، مثال کے طورپر امریکہ ایف 16 تو دیتاہے لیکن ساتھ یہ شرط لگاتاہے کہ یہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونگے۔ مشرق وسطیٰ میں انہی 5 ممالک کی جنگ چل رہی ہے۔ شام میں فرانس اور روس ایک طرف جبکہ امریکہ ،برطانیہ اور چین ایک طرف کھڑے ہیں۔ پاکستان کے خلاف امریکہ ،فرانس ،برطانیہ جبکہ چین اور روس پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، دنیا میں 5 ممالک کی حاکمیت کی جنگ ہورہی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق افغانستان میں 34 صوبوں میں سے 16صوبے داعش کے قبضے میں ہیں جو حامد کرزئی کے بقول امریکی سرپرستی سے چل رہی ہے۔

سینیٹر سحر کامران (رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی)

میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کی مذمت اور تمام مسلم ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ امریکہ سے اپنی تجارت بند کریں۔پاکستان او آئی سی کا ایک اجلاس یہاں بلائے جس میں مسلم ممالک اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کے مطابق سیاسی سمت کا تعین کرنے سے متعلق لائحہ عمل تشکیل دیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی قیادت خود بحران کا شکار ہے اور اس میں اتحاد کا فقدان ہے۔اس نازک صورتحال میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سامنے آنا چاہیے اوروہ بطور وزیراعظم پاکستان اپنی اہمیت ثابت کرائیں۔ہمیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر فورم پر امریکہ کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام کے دل فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔امریکہ زوال کا شکار ہے، ہمیں اس سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہیے۔پاکستان امریکہ کا محکوم نہیں ہے۔ٹرمپ دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد ہے، اس کے لگائے گئے شعلے امریکہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ازسر نو اپنی مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دے جس میں امریکہ سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے تاکہ آئندہ امریکہ کو کبھی بھی ہمیں ''ڈو مور'' نہ کہنے کی ہمت نہ ہو۔بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کنفیوژ ہے۔آج ہمیں شہید زوالفقار علی بھٹو جیسی دلیرانہ قیادت چاہیے جس نے تمام مسلم ممالک کے سربراہوں کو ایک پرچم تلے اکٹھا کیا۔یہ پیپلزپارٹی کی قیادت ہی تھی جس نے اپنے دور حکومت میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کے وقت تمام تر دباؤ کے باوجود نیٹو سپلائی بند کر دی تھی۔پاکستان کے عوام متحد ہیں اور ملک کی خودمختاری چاہتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم ممالک کی قیادت یک زبان ہو کر امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہے امریکہ نے اس ایشو کو چھیڑ کر اپنی بربادی کو دعوت دی ہے۔ یروشلم سے متعلق امریکہ کی پالیسی اس کی سیاسی موت ثابت ہو گی۔اگر امریکہ کی اپنی ترجیحات ہیں تو ہماری بھی اپنی ترجیحات ہیں جن میں اسلام سب سے پہلے ہے، قبلہ اول ہر مسلمان کے دل کے تار سے جڑا ہے۔امریکہ نے بھارت اور یہودیوں کو خوش کرنے کے لئے انتہاپسندانہ پالیسی اپنا رکھی ہے۔ملک کے دفاع کے لئے پاک فوج نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، ہمیں اپنی بہادر فوج پر فخر ہے۔ہمیں دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے بھی باخبر رہنا ہو گا کیونکہ یہ دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔

عبداللہ گل (دفاعی تجزیہ نگار )

امریکہ ایک ایک کر کے تمام مسلمان ممالک پر چڑھائی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ہر جگہ بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان سے اس کی مسلمان مخالف اور یہودی نواز سوچ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔افغانستان کے بعد اب ترکی میں بدترین شکست کے بعد امریکہ دوسرے مسلمان ممالک میں بھی انتشار پھیلانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔امریکہ نے افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر بدترین تباہی کی لیکن وہاں بھی اسے منہ کی کھانی پڑی اور اب بھی افغانستان کے70فیصد علاقے طالبان کے کنٹرول اور قبضے میں ہے۔بیت المقدس کے معاملہ پر امریکہ نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے،ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کر کے اپنی تباہی و بربادی کو دعوت دی ہے۔خطے کے ہر مسلمان ملک میں مداخلت کے باوجود امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔تمام پاکستانی فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ہیں، امریکہ نے مسلمانوں کے قبلہ اول سے متعلق جو جسارت کی ہے اسے اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔اس نے مسلمان ممالک کو کبھی بھی اپنا دوست نہیں سمجھا۔شروع دن سے ہی امریکی پالیسیاں پاکستان مخالف اور بھارت نواز رہی ہیں،وہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ بھارت کو اپنا دیرینہ دوست سمجھتا ہے۔فلسطین میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو جس طرح سے ٹھیس پہنچائی گئی اس سے دنیا بھر کے مسلمان سیخ پا ہیں اور ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔امریکہ کو بہت جلد اس غلطی کا احساس ہو جائے گا۔او آئی سی کو چاہیے کہ امریکہ سے دوٹوک انداز میں بات کرے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام پر بھرپور آواز بلند کرے۔

زبیر فاروق خان (امیر جماعت اسلامی اسلام آباد)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کا کرنے کا فیصلہ پوری امت مسلمہ کے خلاف اورقبلہ اول پر حملہ ہے ، اس نے خونی لکیر کھنچی ہے ہم اس لکیر کو کسی صورت برقرار نہیں رہنے دیں گے۔یہ صرف بیت المقدس کے اوپر حملہ اور اس پر قبضہ برقرار رکھنے کا اعلان نہیں ہے بلکہ یہ اسرائیل کے گریٹر اسرائیل منصوبے کا ایک حصہ ہے ،ہم کسی صورت اس کو قبول نہیں کرتے ۔ میں مسلم حکمرانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور 40ملکوں کی افواج کا اتحاد آپس میں لڑنے کے بجائے آگے بڑھیں اور اپنا کردار اداکریں اگر یہ مل کر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف کھڑے ہوں تو اسرائیل اور امریکہ کی جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ خونی لکیریں کھینچ سکیں ۔امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو دارالحکومت قراردینا ایک احمقانہ فیصلہ ہے ، اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو فلسطین پر زبردستی طاقت کے زور پر ریاستی دہشت گردی کر کے بنا یا گیا ہے ۔ گزشتہ 80 سالوں سے دہشت گردی جاری ہے جس پر دنیا کی تمام طاقتیں خاموش ہیں اسی لیے اب امریکہ نے جرات کر کے دہشت گردانہ قدم اٹھایا ہے اور اپنے سفارتخانے کو وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔امریکی صدر کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے آج پوری امت مسلمہ میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے ۔ آج پوری دنیا میں مسلمان یک زبان ہیں اور شدید مذمت کا اظہار کررہے ہیں اوراس فیصلے کو مسترد کرتی ہے ۔

عامر ڈوگر (رکن قومی اسمبلی تحریک انصاف)

تحریک انصاف ٹرمپ کے بیان کی شدید مذمت کرتی ہے ،ڈونلڈ ٹرمپ کو طے شدہ منصوبے کے تحت امریکہ کا صدر بنایا گیاہے یہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اور سب سے بڑا شیطان ہے ،جب الیکشن ہورہے تھے میں خود امریکہ میں تھا اس وقت وہاں کسی بھی ریاست میں مجھے ڈونلڈ ٹرمپ مقبولیت نظر نہیں آئی ،ہیلری کلنٹن اس کے مقابلے میں زیادہ مقبول تھیں لیکن پھر بھی یہودی اور بھارتی لابی نے اسے کامیاب کرایاہے ،امریکہ میں یہودیوں اور بھارتیوں کا ہولڈ ہے اور ان کی لابی خاصی مضبوط سمجھی جاتی ہے ،ٹرمپ گریٹر اسرائیل کا حامی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا اور اس کے بعد اسرائیل جا کر انہیں تسلیاں دیں۔ اس نے اربوں ڈالر کا اسلحہ عرب ممالک کو بیچا۔قطر ،سعودیہ کا تنازعہ کھڑا کیا،یمن ، شام، عراق ،لیبیا میں مسائل انہیں کی وجہ سے پیدا کیے گئے ہیں ان قوتوں کا اگلا ٹارگٹ پاکستان ہے۔ امریکہ نے داعش کو تقویت دی ہے اور افغانستان میں اسے بٹھا کر اس کی پش پناہی کررہا ہے۔ یہ افغانستان میںبھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں افغانستان میں انڈیاکے 17سفارتی دفاتر ہیں،11 فلائٹس ہر ہفتے ہندوستان سے جاتی ہیں یہ سب پاکستان کے خلاف ہی سازش ہے۔اس وقت ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے پوری کابینہ ایک کرپٹ شخص کو بچانے میں لگی ہوئی ہے اور ملک دن بدن پیچھے جارہاہے ، اس وقت پاکستان میں طویل المدتی خارجہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اور اگر ہم متحد ہوکر ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہ کرسکے تو اگلی باری ہماری بھی ہوسکتی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں