بچوں کی ذہنی صلاحیتیں کیسے نکھاری جائیں

والدین زیادہ سوالات پوچھنے سے منع کرتے ہیں تو بچوں کی تخلیقی صلاحیت کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔

بچوں کو رائے لینا سکھائیے۔ فوٹو؛ سوشل میڈیا

بچوں میں ذہنی صلاحیتیں قدرتی طور پرہوتی ہیں۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ مگر قدرت یہ نعمت ہر بچے کو عطا کرتی ہے۔ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے میں والدین کا کردار اہم ہوتا ہے۔

اگر وہ صحیح نہج پر بچوں کی تربیت کریں تو ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں نکھرجاتی ہیں جو ان کی کام یاب زندگی کی بنیاد ثابت ہوتی ہیں۔ جو والدین بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ دیتے ہیں وہ ان کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں۔ بچوں کو امتحانات میں اول آنے کی ترغیب دینا تو اہم سمجھا جاتا ہے لیکن انھیں کھلونوں کو توڑ کر دوبارہ جوڑنے کی طرف راغب کرنا پاگل پن سمجھا جاتا ہے۔

بچوں کی نفسیات سے آگاہی رکھنے والے اس بات کو بخوبی سمجھتے ہوں گے کہ بچے اپنے اردگر د کے ماحول سے مانوس ہوجاتے ہیں اور اطراف موجود ہر چیز کے بارے میں خود سے سوال کرتے ہیں اور پھر انھیں جاننے کی بھی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ یہ تجسس کی حس ہی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز دے سکتی ہے، مگر جب والدین انھیں بے وجہ روکتے ٹوکتے ہیں یا زیادہ سوالات پوچھنے سے منع کرتے ہیں تو ان کی تخلیقی صلاحیت کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔

کچھ والدین نے یہ بات محسوس کی ہوگی کہ بچے جب کارٹون یا کوئی پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ خود بھی ساتھ ساتھ بول رہے ہوتے ہیں اور وہی جملے دہرانے کے بعد اپنی تجاویز بھی دیتے ہیں مثلا ' وہ کہتے ہیںکہ اگر میں اس کی جگہ پر ہوتا تو یہ کرتا یا وہ کرتا ' دراصل وہ اس خود بیانی سے اپنی شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کر تے ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور رجحان کو منظر عام پر لانے کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ نئی بات سیکھنا یا کسی بات کی گہرائی تک پہنچنا ہی تخلیقی صلاحیت ہے ۔

بچوں کی صلاحیتوں کو اُبھارنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں موافق تخلیقی ماحول فراہم کیا جائے۔ انھیں ایسی سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے جو ان کے رجحانات کو اجاگر کر سکتی ہیں اور جنھیں انجام دیتے ہوئے ان کا تخلیقی ذہن جِلا پائے۔

گھر میں جب بچے کوئی آرٹ یا ڈرائنگ کا کام کررہے ہوتے ہیں تو اکثر و بیشتر والدین ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ تم نے بار بار مٹاکر درست کیا ہے، اتنی غلطیاں نہیں کرنی چاہییں۔ والدین کا یہ انداز بچوں کی سوچ کو مایوسی میں بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتے اور کچھ بچے تو بالکل ہی اس کام میں دل چسپی ختم کردیتے ہیں، اس سے بھی تخلیقی صلاحیت کی نمو رک جاتی ہے ۔ باربار غلطی کرنا ہی متحرک دماغ کی نشانی ہے ۔ ان غلطیوں سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں پھر اسی سوچ کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔


آپ نے دیکھا ہو گا جب بچے کسی خاکے یا تصویر میں رنگ بھرنا شروع کرتے ہیں تو وہ اس سے پہلے اپنے ذہن پرزور ڈالتے ہیں، یعنی وہ سوچتے ہیں کہ کون سا رنگ کس حصے میں اچھا لگے گا۔ اسی طرح وہ اپنے کھلونوں کو خراب کرکے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب بچوں کی تخلیقی صلاحتیں ہیں جن کو والدین اکثر اوقات نظرانداز کردیتے ہیں۔ بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں اہل خانہ تبصرے کرتے ہیں کہ یہ بڑا ہوکر مکینک بنے گا یا جھگڑالو ثابت ہوگا۔ یہ عمل بالکل غلط ہے۔

اسکول میں اساتذہ اور گھر میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں اپنے کام سے لگن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جدید اختراعات کے متعلق مطالعہ کرنے کو فروغ دیں۔ جستجو ،تلاش اور نئی سے نئی سوچ کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں تب ہی بچوں کی تخلیقی صلاحیت کو اُبھارا اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ والدین کی خوش مزاجی اور گھر کا عمدہ ماحول بچوں کی ذہنی صلاحیتیں نکھارنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

ناکامی کا خوف کام یابی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بچوں کو کبھی اس بات کا احساس نہ دلائیں کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں اور یہ نہیں۔ یا وہ یہ مضمون پڑھ سکتے ہیں اور یہ نہیں۔ ان کے ذہن میں کوئی خوف بیٹھنے نہ دیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ وہ اپنے طلبہ کو بہتر انداز سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس مرحلے میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل و دماغ سے ناکامی کا خوف نکالنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے ۔ بچہ جب خوف سے آزاد ہوگا تو اس کی صلاحیتیں نکھرتی چلی جائیں گی، اس کا خود پر اعتماد بڑھتا چلاجائے گا اور اس کے روشن مستقبل کی بنیاد پڑجائے گی۔

بچوں میں تخلیقی سوچ پیدا کرنے کے لیے ان کو نئی سر گرمیوں کی طرف مائل کریں جیسے کہ مخصوص شعبے سے ان سے توجہ ہٹا کر دیگر شعبوں کی طرف بھی دل چسپی لینا سکھائیں ۔اس طریقے سے ایک تو ان کی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور دوسرا وہ اپنے لیے بہتر سوچنا شر وع کردیں گے ۔ ایک اہم بات جو بچوں کو سمجھانا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ کام یابی یکایک نہیں حاصل ہوتی بلکہ اس کے لیے مسلسل محنت اور ثابت قدمی درکار ہوتی ہے۔ اگر یہ سوچ لیا جائے کہ پہلے ہی مرحلے پر کام یاب ہونا ہے تو یہ سوچ زوال کی طرف لے جائے گی، اس لیے بچوں کے رویے میں لچک پیدا کریں ۔

بچوں کے ذہنی رویے میں تبدیلی کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ اس لیے ان کو سکھائیں کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کی تکمیل کا اندازہ نہ لگانا شروع کردیں بلکہ اس کے متعلق دس سے پندرہ منٹ سوچیں کہ وہ اس کو کس طرح بہتر انداز سے تکمیل کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ جب اسکول کی کسی سرگرمی میں ان کو ذمہ داری سونپی جائے تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور خود کو بھرپور طریقے سے نمایاں کریں، اس سے ان کے اندر نہ صرف احساس ذمہ داری پیدا ہوگا بلکہ دوسروں کے احساسات بھی سمجھنے کا موقع ملے گا ۔

بچوں کو رائے لینا سکھائیے، اگرچہ کچھ والدین اس عادت سے اکتا جاتے ہیں اور جھنجھلاتے ہوئے بچوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ جو کرنا چاہیںکر سکتے ہیں۔ یہ منفی رویہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے اس تخلیقی عمل سے فائدہ اٹھائیں اور ان کے خیالات پر غور وفکر کرتے ہوئے اپنی اور بچوں کی رائے کا موازنہ کریں ۔اس طرح آپ بچوں کے تخلیقی فن کو جاننے کے قابل ہو سکیںگے کیوں کہ مشاورت اور تجربات مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 
Load Next Story