پاکستان بھارت سے آئی ٹی کی ملازمتیں اور کام چھین رہا ہے بھارتی میگزین
بھارتی جریدے آؤٹ لک نے کہا ہے کہ بھارت کی کم درجے کی آئی ٹی ملازمتیں پاکستان کو منتقل ہورہی ہیں۔
PESHAWAR:
بھارت سے شائع ہونے والے ایک مشہور جریدے نے اپنی حالیہ اشاعت میں کہا ہے کہ پاکستان بھارت سے آئی ٹی کی کم درجے کی ملازمتیں اور پروجیکٹ چھین رہا ہے۔
بھارتی میگزین آؤٹ لک نے یکم نومبر میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا ہے کہ حال ہی میں ایک امریکی فرم نے بھارتی علاقے نویڈا کی 125 ملازمتیں اسلام آباد منتقل کردی ہیں۔ مضمون میں کہا گیا کہ گزشتہ 2 برس سے بھارتی ملازمتیں بنگلہ دیش، فلپائن اور ملائیشیا منتقل ہورہی ہیں اور یہ ملک غیرملکی اداروں کو مزید کم تنخواہ پر کام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، اب اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہوگیا ہے جو اس معاملے میں اپنا حصہ وصول کررہا ہے۔
پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی صنعت 3 ارب ڈالر کو چھو رہی ہے ۔ گزشتہ 4 برس اس کا حجم دوگنا ہوا ہے اور اگلے 2 سے 4 برس میں اس میں مزید 100 فیصد اضافہ ہوجائے گا تاہم پاکستان کی آئی ٹی مارکیٹ کا بھارت سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے مقابلے میں یہ 51 گنا بڑی ہے ۔ بھارت میں آئی ٹی اور سافٹ ویئر مصنوعات کی فروخت 154 ارب ڈالر تک ہے جن میں سے 38 ارب ڈالر کی تجارت ملکی مصنوعات اور بقیہ 117 ارب ڈالر بیرونِ ملک برآمدات کی صورت میں شامل ہیں۔
پاکستان کی آئی ٹی صنعت کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ اس کے بڑھنے کی رفتار خود بھارت سے بھی ذیادہ ہے، پاکستان میں اس کا اضافہ سالانہ 20 فیصد ہے جب کہ بھارت میں 7 سے 8 فیصد تک ہے لیکن بھارت کے حجم کو دیکھتے ہوئے یہ اضافہ ہم سے کئی گنا ہے۔
بھارت، بنگلہ دیش، فلپائن اور ملائیشیا کی حکومتیں آئی ٹی صنعت کو فروغ دینے کے لیے حکومتی ترغیبات، ٹیکنالوجی پارکس کا قیام، ٹیکس میں چھوٹ اور کم خرچ موبائل اور انٹرنیٹ سہولیات فراہم کررہی ہیں تاہم بھارت سے کم درجے کی آئی ٹی ملازمتوں کی پاکستان منتقلی کا مطلب یہ نہیں کہ پڑوسی ملک کو اس سے نقصان ہورہا ہے۔
بھارتی میگزین کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے سربراہ شہریار حیدری نے کہا کہ اس دنیا میں ملازمتیں محدود نہیں رہیں اور اس میں سے بعض ملازمت حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ملک سے انہیں چھینا جارہا ہے۔
شہریار حیدری نے مزید کہا کہ اب صنعتوں کے چوتھے انقلاب کی آمد آمد ہے جس میں روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، نینوٹیکنالوجی، کوانٹم کمپیوٹنگ، بایوٹیکنالوجی، تھری ڈی پرنٹنگ، خود کار گاڑیوں اور انٹرنیٹ سے جڑی عام اشیا کے ماہرین درکار ہوں گے۔ بھارت اس جانب بڑھ رہا ہے اور اسی لیے کم مہارت کی ملازمتوں کو چھوڑ رہا ہے جو دوسروں کو مل رہی ہیں۔
ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت ڈیٹا آپریٹرز اور کال سینٹرز کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور پاکستان کو اس کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے تقاضے مختلف ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں ہرسال آئی ٹی کے 10 ہزار گریجویٹس تیار ہوکر مارکیٹ کا حصہ بن رہے ہیں جب کہ پاکستانی مارکیٹ میں ڈیڑھ لاکھ مرکزی ٹیکنکل ماہرین اور ڈیڑھ سے دو لاکھ ہی فری لانسر ہیں جو آئی ٹی مارکیٹ میں اپنی بہتر ساکھ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں آئی ٹی اور دیگر تکنیکی امور سے وابستہ فری لانسر نے بین الاقوامی طور پر اپنا نام بنایا ہے اگرچہ وہ تھوڑا ذیادہ معاوضہ لیتےہیں لیکن معیاری کام وقت پر کرکے دیتے ہیں۔
بھارت سے شائع ہونے والے ایک مشہور جریدے نے اپنی حالیہ اشاعت میں کہا ہے کہ پاکستان بھارت سے آئی ٹی کی کم درجے کی ملازمتیں اور پروجیکٹ چھین رہا ہے۔
بھارتی میگزین آؤٹ لک نے یکم نومبر میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا ہے کہ حال ہی میں ایک امریکی فرم نے بھارتی علاقے نویڈا کی 125 ملازمتیں اسلام آباد منتقل کردی ہیں۔ مضمون میں کہا گیا کہ گزشتہ 2 برس سے بھارتی ملازمتیں بنگلہ دیش، فلپائن اور ملائیشیا منتقل ہورہی ہیں اور یہ ملک غیرملکی اداروں کو مزید کم تنخواہ پر کام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، اب اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہوگیا ہے جو اس معاملے میں اپنا حصہ وصول کررہا ہے۔
پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی صنعت 3 ارب ڈالر کو چھو رہی ہے ۔ گزشتہ 4 برس اس کا حجم دوگنا ہوا ہے اور اگلے 2 سے 4 برس میں اس میں مزید 100 فیصد اضافہ ہوجائے گا تاہم پاکستان کی آئی ٹی مارکیٹ کا بھارت سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے مقابلے میں یہ 51 گنا بڑی ہے ۔ بھارت میں آئی ٹی اور سافٹ ویئر مصنوعات کی فروخت 154 ارب ڈالر تک ہے جن میں سے 38 ارب ڈالر کی تجارت ملکی مصنوعات اور بقیہ 117 ارب ڈالر بیرونِ ملک برآمدات کی صورت میں شامل ہیں۔
پاکستان کی آئی ٹی صنعت کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ اس کے بڑھنے کی رفتار خود بھارت سے بھی ذیادہ ہے، پاکستان میں اس کا اضافہ سالانہ 20 فیصد ہے جب کہ بھارت میں 7 سے 8 فیصد تک ہے لیکن بھارت کے حجم کو دیکھتے ہوئے یہ اضافہ ہم سے کئی گنا ہے۔
بھارت، بنگلہ دیش، فلپائن اور ملائیشیا کی حکومتیں آئی ٹی صنعت کو فروغ دینے کے لیے حکومتی ترغیبات، ٹیکنالوجی پارکس کا قیام، ٹیکس میں چھوٹ اور کم خرچ موبائل اور انٹرنیٹ سہولیات فراہم کررہی ہیں تاہم بھارت سے کم درجے کی آئی ٹی ملازمتوں کی پاکستان منتقلی کا مطلب یہ نہیں کہ پڑوسی ملک کو اس سے نقصان ہورہا ہے۔
بھارتی میگزین کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے سربراہ شہریار حیدری نے کہا کہ اس دنیا میں ملازمتیں محدود نہیں رہیں اور اس میں سے بعض ملازمت حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ملک سے انہیں چھینا جارہا ہے۔
شہریار حیدری نے مزید کہا کہ اب صنعتوں کے چوتھے انقلاب کی آمد آمد ہے جس میں روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، نینوٹیکنالوجی، کوانٹم کمپیوٹنگ، بایوٹیکنالوجی، تھری ڈی پرنٹنگ، خود کار گاڑیوں اور انٹرنیٹ سے جڑی عام اشیا کے ماہرین درکار ہوں گے۔ بھارت اس جانب بڑھ رہا ہے اور اسی لیے کم مہارت کی ملازمتوں کو چھوڑ رہا ہے جو دوسروں کو مل رہی ہیں۔
ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت ڈیٹا آپریٹرز اور کال سینٹرز کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور پاکستان کو اس کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے تقاضے مختلف ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں ہرسال آئی ٹی کے 10 ہزار گریجویٹس تیار ہوکر مارکیٹ کا حصہ بن رہے ہیں جب کہ پاکستانی مارکیٹ میں ڈیڑھ لاکھ مرکزی ٹیکنکل ماہرین اور ڈیڑھ سے دو لاکھ ہی فری لانسر ہیں جو آئی ٹی مارکیٹ میں اپنی بہتر ساکھ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں آئی ٹی اور دیگر تکنیکی امور سے وابستہ فری لانسر نے بین الاقوامی طور پر اپنا نام بنایا ہے اگرچہ وہ تھوڑا ذیادہ معاوضہ لیتےہیں لیکن معیاری کام وقت پر کرکے دیتے ہیں۔