
حقیقت کا درد انگیز پہلو یہ ہے کہ گزشتہ تین سال میں گنے کی صنعت کے سہ جہتی بحران نے شدت اختیار کرتے ہوئے پیداواری شعبہ، خام مال کی فراہمی سمیت شوگر مالکان اور کاشتکاروں کو مسائل اور دھرنوں کے گرداب میں پھنسا دیا ہے، کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان کی طرف سے استحصال کا نشانہ بنانے ، حکومت کی طرف سے گنے کی قیمت میں اضافہ اور حقوق کا تحفظ نہ کرنے کے خلاف گزشتہ روزکسان اتحاد کے زیر اہتمام چناب پل پر کاشت کاروں نے احتجاج کیا 'اس موقع پر کسان اتحاد کے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا علامتی احتجاجی دھرنا تھا اگر ہمارے مسائل حل نہ کیے گئے تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کیا جائے گا۔
ملک بھر کے کاشتکار متحد ہیں اور اپنے حقوق حاصل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے، مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومتی ریٹ 180 روپے فی من سے گنے کی خریداری کو یقینی بنایا جائے ، اس موقع پر مظاہرین نے گنے کو بھی آگ لگا دی۔ ضلعی صدر افتخار احمد چوہدری نے کہا کہ حکومت کسانوں پر ظلم کررہی ہے۔ ادھر شوگر انڈسٹری سے منسلک ذرایع کا کہنا ہے کہ اول تو پیدا شدہ بحران حکومتی نااہلی اور کاشتکاروں سے سوتیلی ماں جیسے سلوک کا شاخسانہ ہے ، یہ درست ہے کہ عالمی مارکیٹ میں گنے کی قیمتیں گر رہی ہیں، اندرون ملک بھی شوگرمالکان کو لیکویڈٹی مسائل ، بینکوں کے ایڈوانس دینے سے محتاط ہونے کے باعث دیگر قانونی تنازعات نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
تاہم یہ انہونی بات نہیں کہ کاشتکار اپنی محنت کا صلہ اور گنے کی اصل قیمت مانگتے ہیں ، چینی کے وافر ملکی اسٹاک ان ہی کاشتکاروں کی محنت کے مرہون منت ہیں، انھیں بقول ان کے محنت کا صلہ خیرات کی صورت میں ہر گز نہیں ملنا چاہیے۔ حکومت شوگر مالکان ، ان کی ایسوسی ایشن اور کاشتکاروں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے ایک پائیدار پرائس میکنزم کی بنیاد رکھے، کاشتکاروں کو ان کا حق ملنا چاہیے تاکہ جس گنے کی اہمیت شوگر انڈسٹری میں مایع حیات کی ہے اسے ہر حال میں برقرار رکھا جاسکے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔