سردار شکار رعیت فتراک کتے سور وغیرہ

ان سب کرداروں، اشیا اور نفسیاتی پیچوں کو اپنی اپنی طبیعت، مشاہدے اور خواہشات کے حساب سے آگے پیچھے جمع تفریق کر لیجیے۔

کندھ کوٹ کے سامنے دریائے سندھ دو شاخہ ہو کر بڑا سا جزیرہ بناتا ہے۔یہ جزیرہ دراصل جنگل ہے اور بیلہ کہلاتا ہے۔ایسے کئی بیلے راجن پور سے ڈیلٹا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ان کے گھنے راز یا تو وڈیرہ جانتا ہے یا ڈاکو یا پولیس۔یہی بیلے موسمِ سرما میں بھولے سائبیریائی پرندوں اور خرانٹ سوروں کی شکار گاہیں اور کچھ بیلے مفروروں وارداتیوں کی پناہ گاہ کا کام بھی دیتے ہیں۔

ایک موسمِ سرما میں مجھے ایک مقامی سردار صاحب کے مہمان کے طور پر بیلے میں شکار دیکھنے کا موقع ملا۔ اوروں کے لیے یہ بس تفریح تھی مگر میرے لیے ایک ایسا مطالعاتی جامِ جمشید جس میں پورا نظام ِ بود و نبود پنہاں اور عیاں تھا۔

پہلے دن پرندوں کے شکار کا اہتمام ہوا۔سردار صاحب اور حواری جن بندوقوں سے مسلح تھے ان کا بھی اپنا اپنا خاندانی شجرہ تھا۔سردار صاحب کے ہنٹنگ مینیجر سنہری نقشین دستے والی جو ڈبل بیرل تھامے ہوئے تھے وہ سردار صاحب کے دادا کو ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے تحفے میں دی تھی۔سردار صاحب نے اس بندوق کی قومی اہمیت یہ بتائی کہ اسے اسکندر مرزا ، ایوب خان ، بھٹو صاحب ، جنرل فیض علی چشتی اور فاروق لغاری نے بھی تیتر اور مرغابیوں کے شکار کے لیے استعمال کیا۔

فور وہیلرز کے کانوائے کو شکار گاہ تک پہنچانے کی ذمے داری کچے راستوں پر آگے آگے دوڑنے والے موٹر سائیکل سوار مقامیوں کی تھی۔جب ایک گھاس سے اٹا میدان اچانک سامنے نمودار ہوا تو قافلہ رک گیا۔کارتوسوں کی پٹیاں کندھوں سے لٹکا لی گئیں۔ چار پانچ ہرکارے جالی دار تھیلے ( بقولِ اقبال فتراک)سنبھالے ذرا ذرا فاصلے پر چل رہے تھے۔ ان کی ڈیوٹی تھی کہ جیسے ہی شکار پھڑپھڑاتا ہوا گرے وہ اسے ذبح کر کے فتراک میں ڈال لیں۔

سب اپنی اپنی دو نالیاں سنبھالے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔مگر سردار صاحب کی دو نالی اب بھی ذرا سا پیچھے چلنے والے ہنٹنگ مینیجر کے ہاتھ میں تھی۔اچانک عین سردار صاحب کے سامنے لگ بھگ سو فٹ کے فاصلے پر جھاڑیوں میں سے کچھ پرندے اڑے۔سردار صاحب نے مینیجر سے نہایت پھرتیلے انداز میں بندوق لی اور نشانہ باندھ کر ٹھائیں کر دیا۔کئی اور ٹھائیں ٹھائیں بھی اردگرد کی بندوقوں سے ہوئیں مگر جو چار پانچ پرندے زمین پر گرے، ان کا سہرا سردار صاحب کی خاندانی بندوق کے سر گیا۔ سب حواریوں نے تالیاں بجا کر سردار صاحب کے نشانے کو داد دی۔

جن جھاڑیوں سے پرندوں کی پہلی کھیپ اڑی، ٹھائیں ٹھائیں ہوتے ہی انھی جھاڑیوں کے پیچھے سے کچھ انسانی سائے ابھرے اور کہیں غائب ہوگئے ( مجھے شکار ختم ہونے کے بعد گھر کے ایک بھیدی نے بتایا کہ یہ سائے نہیں مقامی لوگ تھے جو جھاڑیوں کے پیچھے رہتے ہیں اور پہلے سے پکڑے ہوئے پرندے تھوڑے تھوڑے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ان کے پاس اتنے پرندے ہوتے ہیں کہ چار پانچ گھنٹے تک شکار جاری رہ سکے۔یہ اہتمام نہ کیا جائے تو شکاری پارٹی کے ہاتھ محض درجن بھر پرندے ہی آئیں۔اتنی تھوڑی تعداد سے نہ سردار صاحب خوش ہوں گے اور نہ ہی ان کے مہمان )۔

القصہ مختصر دو ڈھائی میل کے دائرے میں تین سوا تین گھنٹے کے شکار سے تمام فتراک بھر گئے۔پھر لنچ کا وقت ہو گیا۔اس کا انتظام بھی سردار صاحب کی مقامی رعیت نے ہی کیا تھا۔جب سب سفید چادروں سے ڈھکی بڑی بڑی چارپائیوں پر تکیوں کے سہارے بیٹھ گئے تو ہنٹنگ مینیجر نے اعلان کیا کہ ٹوٹل تراسی پرندے شکار ہوئے۔ان میں سے چھہتر سائیں کی بندوق نے گرائے اور باقی مہمانوں کی بندوقوں سے گرے ( یعنی سات)۔ سردارصاحب نے ایک بھی پرندہ اپنے پاس نہیں رکھا۔ سارا شکار حواریوں اور مقامی رعیت میں بٹ بٹا گیا۔


رات یہیں قیام کیا۔الاؤ کے اردگرد موسیقی ، گائیکی ، لطیفہ و جگت بازی ہوتی رہی۔اگلی صبح ناشتے کے دوران پتہ چلا کہ آج سورکے شکار کا اہتمام ہے۔یہ شکار پارٹی کشتیوں میں سوار دریا کے بیچوں بیچ بیلے پر پہنچی جہاں پہلے سے درجن بھر فور وہیلرز ، تپے دار اور دو تین جونئیر وڈیرے منتظر تھے۔گاڑیوں میں سوار کروا کے مہمانوں کو جنگل کے بیچ بنائے گئے میدان میں سرکنڈوں سے بنے بڑے سے چھپر کے نیچے بٹھایا گیا۔چائے بسکٹ کا انتظام پہلے سے تھا۔ذرا دیر میں چھ مقامی لوگ چھ شکاری کتے لے آئے۔ ان کی دمیں تیزی سے ہل رہی تھیں ، زبانیں باہر نکلی پڑی تھیں اور وہ بار بار بے چین ہو ہو کر دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کر زنجیر تڑانے کی کوشش کر رہے تھے مگر جن کے ہاتھوںمیںزنجیریں تھیں وہ مطمئن تھے۔ان کی تو زندگی ہی کتے سدھانے میں گزرتی ہے۔ان سے زیادہ کون شکاری کتوں کی رگ رگ سے واقف ہو گا۔

سردار صاحب چاق و چوبند ہنٹنگ ڈاگ اسکواڈ دیکھ کر زیرِ لب خوش ہوئے۔مجھے بتایا گیا کہ پہلے چند سور جنگل میں چھوڑے جائیں گے اور جب وہ غائب ہو جائیں گے تو اس کے بعد ان کتوں کی زنجیریں کھول دی جائیں گی۔پھر کتے جانیں اور سور۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کتے بھی جب غائب ہوگئے تو ان کی بھونک کے صوتی نشانات کے پیچھے پیچھے قافلہ چل پڑا۔ کچھ دیر بعد منظر واضح ہوتا چلا گیا۔

ایک سور کو چھ کتوں نے گھیر لیا اور اسے تھکانے کا عمل شروع ہوگیا۔دو عجلتی کتے غصیلے سور کی زد میں آ کر تھوڑے سے زخمی بھی ہوئے مگر پالا کتوں نے مار ہی لیا۔اس کے بعد ان کتوں کو دس پندرہ منٹ کا آرام دے کر دوبارہ چھوڑ دیا گیا۔کچھ دیر بعد پھر وہی منظر۔کتے اگرچہ تھک چکے تھے مگر انھوں نے دوسرا سور بھی خونم خون مار گرایا۔کشتم کشتا کے دوران ایک کتا کچھ زیادہ ہی زخمی ہوگیا۔اسے ایک اوپن فور وہیلر میں ڈال کر غالباً علاج معالجے کے لیے روانہ کردیا گیا۔باقی کتوں کو زنجیر بہ گردن کر کے ایک اور گاڑی میں لے جایا گیا اور ہلاک سوروں کو ٹریکٹر ٹرالی بلوا کر روانہ کر دیا گیا۔

شکار پارٹی واپس اسی چھپر تلے آ گئی جہاں صبح چائے پی گئی تھی۔ذرا فاصلے پر کچھ لوگ لنچ ترتیب دے رہے تھے۔میدان مارنے والے کتوں کو ایک قریبی چوبی احاطے میں بھیج دیا گیا۔کچھ دیرمیں ٹرالی بھی پہنچ گئی۔ دونوں سوروں کونیچے پھینکا گیا اور چھ سات مقامی لوگ انھیں بانس کے ساتھ باندھ کر لٹکاتے ہوئے پالکیانہ انداز میں پرے لے گئے۔جہاں انھیں لکڑیوں ، ٹہنیوں اور پتوں کے ایندھن کی آگ پر لٹکا دیا گیا۔قریباً آدھے گھنٹے بعد ان سوروں کو اتارا گیا تو ان کے تمام بال جلنے سے کھال صاف اور نرم ہو چکی تھی۔تھکن سے چور کتے بھی بھوک کی شدت سے چیخ رہے تھے۔لہذا انھیں دو سالم روسٹ سوروں پر چھوڑ دیا گیا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں کتے دونوں سور اسی فیصد تک چٹ کر گئے۔

سردار صاحب نے مقامیوں کو شاباش دی، کتوں کو چمکارا اور قافلے نے واپسی کا قصد کیا۔

سردار ، حواری ، پہلے سے پکڑے ہوئے پرندے، شکار ، فتراک ، شجرہ دار بندوق ، جنگل ، رعیت ، کتے ، سور ، شکار کی فراخدلانہ تقسیم ، شاباش ، مہمانی ، میزبانی ، نیاز مندی ، ہیبت ، قسمت ، اوقات ، زیر دستی و بالا دستی کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ؟ ان سب کرداروں ، اشیا، کیفیات اور نفسیاتی پیچوں کو اپنی اپنی طبیعت ، مشاہدے اور خواہشات کے حساب سے آگے پیچھے جمع تفریق کر لیجیے۔کہانی میں سے کوئی علامت بھول گیا ہوں تو وہ بھی یاد کروا دیجیے گا۔بہت شکریہ۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
Load Next Story