مردے میں جان ڈالنے کی کوشش
مہذب معاشروں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ گھروں سے سیوریج زدہ پانی نکال کر باہر لایا جاتا ہے۔
اسلام آباد میںموجود ہوں ، معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی کا جلسہ ہے ، آفس سے کہہ کر ڈیوٹی لگوائی کہ جلسے کو cover کیا جائے، پیپلزپارٹی کی کوریج کرنے والے رزاق کھاٹی سے ٹائمنگ سیٹ کیے اور جلسے سے ایک دن پہلے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ کا دورہ کیا۔ جلسے کے انتظامات زور و شور سے جاری تھے ۔ لائٹیں جل رہی تھیں ، کارکنان اور مختلف لوگ اپنے اپنے ذمے کے کاموں میں مگن تھے ۔ اسلام آباد میں کچھ ٹھنڈ کا بھی عالم تھا خیر میں اور رزاق کھاٹی جلسے کا جائزہ لے کر واپس آفس آگئے اور دوسرے دن کی تیاری شروع کردی ۔ دوسرے دن جلسے سے دو گھنٹے قبل پریڈ گراؤنڈ پہنچے تو دیکھا کہ مختلف علاقوں سے قافلے پہنچنا شروع ہوگئے تھے ۔
سیکیوریٹی کا بھی معقول انتظام تھا ۔ لیکن میڈیا کوریج کا انتظام دیکھ کر دھچکا لگا ، وہ یوں کہ تین کنٹینرز اوپر تلے رکھ کر اُس کے اوپر سے کوریج کا انتظام کیا گیا تھا اور اس خوفناک اونچائی پر پہنچنے کے لیے بانس کی بنی ایک لمبی سیڑھی رکھی گئی تھی ۔ خواتین رپورٹرز نے تو دیکھتے ہی ''بائیکاٹ '' کا سوچنا شروع کردیا کہ اوپر نہیں جاسکیں گے لہذا خواتین رپورٹرز کا بائیکاٹ رجسٹرڈ کرلیجیے، لیکن کچھ دیر کی دوستانہ میٹنگ کے بعد کچھ باہمت خواتین اوپر پہنچ گئیں ۔ اوپر سہارے کے لیے کوئی چیز تو تھی نہیں لہذا کچھ دیگر ''مرد دوست '' ہاتھ پکڑ پکڑ کر اوپر کھینچتے رہے ۔
ہم سب آفس میں colleagues ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت ''واجب'' سمجھتے ہیں ۔ کنٹینر کے اوپر یہ عالم تھا کہ کناروں پر کیمرہ مین تاک لگائے بیٹھے تھے اور فوجی مجاہدوں کی طرح چوکیاں سنبھالے اپنا فرض نبھارہے تھے ، کچھ دوست بیپر دے رہے تھے ۔ کام ویسے خطرناک ہی تھا کیونکہ اگر ذرا بھی کوئی گڑ بڑ ہوتی تو پھر سیڑھی کی ضرورت نہ رہتی اور سردی نے الگ جان نکالی ہوئی تھی ۔ خیر اللہ اللہ کر کے جلسے کی کاروائی شروع ہوئی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین نے تقریریں شروع کردیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ تقریریں بس واجبی سی ہی تھیں وفاق کی علامت جتلانے والی پاکستان پیپلزپارٹی کا پچاسواں ہیپی برتھ ڈے ہو اور جاندار تقریروں سے عاری ہو کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ اس جلسے میں تو بھٹو کا جوش بی بی کا ولولہ نظر آنا چاہیے تھا مگر بس وہی باتیں جو عام سیدھی سادھی پریس کانفرنسز میں بھی ہوئی رہی ہیں مطلب زرداری صاحب نے فرمایا شریف خاندان نے خزانے کو خالی کردیا ہے ، ہم نے ان لوگوں کو پہلے بھی بچایا تھا مگر اب کے بار نہیں بچائیں گے ۔
بلاول صاحب نے بھی ملے جلے ردِ عمل کا اظہار یوں کیا کہ یہ لوگ نقلی جمہوریت کے چیمپئن ہیں اصل جمہوریت ہم لائیں گے ، عمران خان کو بھی لپیٹنے کی کوشش کی گئی خیبر پختونخواہ کا احتساب کمیشن کسی خاص '' کمیشن '' کے تحت بند پڑا ہے ، اگر ایک ارب درخت لگادیے گئے ہیں تو آڈٹ رپورٹ بھی دکھادیجیے ۔ اس تاریخی 50ویں تاسیسی جلسے میں ایک بار پھر زرداری صاحب کی طرف سے ''تیسری بار ''قیاد ت بلاول کو سونپنے کا اعلان کیا گیا۔ زرداری صاحب نے خزانے کو خالی کرنے کے حوالے سے اپنا روایتی جملہ دہرایا کہ ''شریفوں ''نے ملک کو کنگال کردیا ہے اور اب ''ہم ''ان سے لڑیں گے ۔
جعلی خان کو بات سمجھ نہیں آرہی اب معلوم نہیں زرداری صاحب خود کونسی بات سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ دوسروں کو بات سمجھ نہیں آرہی ۔ اور شریفوں سے لڑنے کی دھمکی کیوں دے رہے ہیں ؟ بلاّ دودھ پی کر بھاگ جاتا ہے والا بیان دے کر ''مخصوص'' سے لڑنے کا عندیہ دیا تھا مگر 20 مہینے کی خاموش لڑائی لڑ کر نہ جانے کونسا ''تیر'' مارلیا ہے۔
بلاول نے فرمایا کہ اقتدار چاہتے ہیں مگر عوام کے لیے کیونکہ پیپلز پارٹی ہی عوامی جماعت ہے اور ذوالفقار علی بھٹو ہی قائد عوام ہیں۔ ہماری پچاس سالہ قربانیوں کی داستان ہے ۔ اب بلاول صاحب سے استفسار تو بنتا ہے کہ جناب عوام کے لیے آپ لوگوں کی کاوشیں کیا کی ہیں، عوام خود خوب جانتے ہیں اور پچاس سالہ داستان جو دراصل قربانیوں کی داستان گردان دی جارہی ہے تو یاد رکھئے کہ آپ لوگوں کی جانب سے جب بھی کوئی قربانی دی گئی تو '' مخصوص'' نے آپ لوگوں کو اقتدار کا موقع دیا مگر نہ تو آپ قربان ہوجانے والے کے بارے میں بتا پائے کہ قربانی ہوئی کیوں اور نہ ہی قربانی کی لاج رکھی گئی ہمیشہ پہلے سے زیادہ نقصان کے ساتھ اقتدار واپس کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ تقریریں کوئی impressive نہ تھیں ، کوئی اچھا پلان نہیں دیا گیا کہ آگے کرنے کیا جارہے ہیں ۔ کنگال ملک کو خوشحال کیسے کریں گے تاریخی تاسیسی پروگرام میں پروگرام دینا چاہیے تھا پہلے شریفوں کو کیسے بچایا اور اب کیسے اتاریں گے دونوں ہی پہلو آنکھوں سے اوجھل رکھے گئے۔ اقتدار عوام کے لیے چاہیے تو سندھ کے اقتدار کے حوالے سے کوئی کارنامہ تو کیا کوئی ذکر تک نہیں ہوا کہ سندھ میں کیا کچھ کر لیا گیاہے۔
سیوریج زدہ پانی سندھ کے شہروں میں عام استعمال ہورہا ہے ۔ مہذب معاشروں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ گھروں سے سیوریج زدہ پانی نکال کر باہر لایا جاتا ہے مگر سندھ کاحال الٹ ہے کہ پینے کے پانی کی لائنوں میں وہ پانی دوبارہ گھروں تک پہنچایا جارہا ہے اور وزیر اعلیٰ پانی کمیشن پر پیشیاں بھگتتا پھر رہا ہے ۔ پچاس سالہ قربانیوں کی داستانوں میں یہ بھی تو بتائیے کہ تھر میں بھوک سے بچوں کے مرنے کی بھی کہانیاں ہیں اور کرپشن کے اوپر کہتے ہوئے قائدین فرمارہے تھے کہ شاہی ٹولے نے ملک کا خزانہ خالی کردیا ہے تو جناب یہ بھی سمجھائیے کہ شرجیل انعام میمن کو جیل کن معنوں میں مل رہا ہے ۔
یعنی کہ سندھ حکومت کی کوئی کارکردگی نہیں بتانے کو اور پچاسویں جشن میں ڈانس خوب ہے دکھانے کو۔ جلسے کی بھی کہانی سن لیجیے 3 مہینوں سے تیاریاں جاری تھیں مگر افراد صرف سندھ اور کشمیر سے پہنچے بسوں اور ریل گاڑیوں کو سندھ اور کشمیر سے بھر بھر کر لایا گیا جب کہ بلوچستان اور پنجاب سے تو لوگوں کو جہاز کی بھی لالچ دی گئی مگر افراد ملے نہیں لوگ تیار ہوئے نہیں ۔اب ایسے میں صرف یہ کہا جائے تو کیا غلط ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا 50 واں تاسیسی جلسہ دراصل ''مردے میں جان ڈالنے کی کوشش'' تھی اور کچھ نہیں۔