عبداللہ صالح کی موت اور یمن کا مستقبل

عبداﷲ صالح منظر سے غائب نہیں ہوئے بلکہ 2014 میں انھوں نے حوثیوں کی حمایت سے آئینی صدر کا تختہ الٹ دیا۔


فرحین شیخ December 12, 2017

PARIS, FRANCE: الحمدﷲ، الحمدﷲ، لا الہ الا اللہ کے بلند ہوتے نعروں اور مشتعل ہجوم کے درمیان سرخ کمبل میں لپٹی عبداللہ صالح کی لاش زمین پر پڑی ہے۔ امریکا میں لاکھوں ملین ڈالر کے چار اپارٹمنٹ اور بے حساب جائیدادوں کے مالک عبداللہ صالح کی عبرت بنی لاش کے آس پاس مسلح افراد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کھوپڑی میں بائیں جانب بڑا سا سوراخ ہے، گہرے رنگ کے کپڑے خون سے تر اور آنکھیں شاید آسمان تک جاتی روح کے تعاقب میں کھلی ہیں۔ مسلح ہجوم نے بے دردی سے لاش کو اٹھاکر ایک ٹرک میں ڈال دیا اور کچھ ہی دیر میں مجمع چھٹ گیا۔ حوثیوں کے ہاتھوں طاقت کا ایک اور باب نئی تاریخ رقم کرکے بند ہوگیا۔

تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک عبداللہ صالح عرب کے غریب ترین ملک یمن کے حکمراں رہے۔2011 میں عرب دنیا میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں نے جہاں تیونس کو ایک آمر سے نجات دلائی، وہیں عبداللہ صالح کی طویل حکومت بھی ناقابل برداشت ہوتے ہوتے بالآخر 2012میں ختم ہوہی گئی۔ لیکن عبداللہ صالح منظر سے غائب نہیں ہوئے بلکہ 2014 میں انھوں نے حوثیوں کی حمایت سے آئینی صدر کا تختہ الٹ دیا۔ حوثیوں کے ساتھ بننے والا ان کا اتحاد تین سال سے زیادہ نہ چل سکا اور انھوں نے حوثیوں سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

اس اتحاد کے خاتمے سے زیادہ مخالفین کے لیے یہ امر ناقابل قبول تھا کہ انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ مفاہمت کا عندیہ دے دیا تھا، جس کے بعد ان کی زندگی، سانسوں کی ڈور کو ہفتہ بھر بھی قائم نہ رکھ سکی اور ان کو باغی قرار دے کر قتل کردیا گیا۔ ان کو ابدی نیند سلانے والے حوثیوں نے دارالحکومت صنعاء کو ایک ہفتے تک یرغمال بنائے رکھا، اس کشیدگی میں نہ صرف عبداللہ صالح بلکہ 150عام شہری بھی جان سے گئے۔

غربت کی گود میں جنم لینے والے اور کسمپرسی کے سائے میں پروان چڑھنے والے عبداللہ صالح ایک فوجی تھے۔ منقسم یمن کو متحد کرنے کا سہرا ان کے ہی سر جاتا ہے۔ لیکن ان کا طویل دور حکومت بھی یمن کو وہ سیاسی استحکام عطا نہ کرسکا، جس کی امید کی جارہی تھی، بلکہ یمن مسلسل فوجی بغاوتوں اور خانہ جنگی کی زد میں رہا۔ ان کی موت کے بعد یمن میں ایک اور نئی جنگ کا دہانہ کھل چکا ہے۔ عبداللہ صالح کے قتل کی پہلی رات ہی جنگی طیارے دارالحکومت صنعا پر پرواز کرتے رہے اور حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتے رہے۔

یمن پوسٹ کے ایڈیٹر حکیم المسمازی کے مطابق فضا میں طیاروں کی گڑگڑاہٹ سنائی دے رہی تھی اور ہر پانچ منٹ میں ایک مقام پر حملہ ہورہا تھا۔ یمنی عوام گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے۔ انسانی امداد کی تنظیموں کا وہاں تک پہنچنا محال تھا۔ اس ایک رات میں کیے گئے حملوں میں باغیوں کا کتنا نقصان ہوا؟ یہ تو بتانے سے میڈیا قاصر رہا، لیکن نو مزید یمنی باشندے اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔

عرب لیگ نے عبداللہ صالح کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے حوثیوں کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ یمنیوں کو بغاوت کے اس بھیانک خواب سے نجات دلوائیں گے۔ لیکن اس کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے اس میں عام شہریوں کی زندگی ہی اجیرن ہورہی ہے۔ حوثیوں کے خلاف کیے جانے والے فضائی حملوں میں اب بھی بھاری جانی اور مالی نقصان صرف عام یمنیوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے، کیوں کہ حملوں سے بچنے کے لیے حوثی تو محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوچکے ہیں، انھوں نے اپنی گاڑیاں، لباس، تصاویر اور دیگر علامات کو منظر سے غائب کردیا ہے کہ پہچان کر مار نہ دیے جائیں۔

کئی سال سے یمن میں جاری خانہ جنگی کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ 2015 سے اس جنگ میں بیرونی مداخلت کے باعث شدت آگئی جس میں دس ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ پچاس ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ ستائیس لاکھ افراد ہنوز امداد کی راہ تک رہے ہیں۔ اس وقت یمن دنیا کا سب سے زیادہ غذائی بحران کا حامل خطہ ہے، جہاں عوام نہ صرف بھوک بلکہ جان لیوا متعدی امراض کا بھی شکار ہوچکے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق غذائی کمی اور فاقوں سے پچاس ہزار بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ کئی مہینوں سے یمنیوں تک امداد کی ترسیل کے تمام راستے مسدود ہیں۔ گویا ایک المیے سے سیکڑوں المیے جنم لے رہے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار میں یمنی عوام سینڈوچ بن چکے ہیں۔

عبداللہ صالح کی موت کے بعد یمن کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین ابھی یمن میں استحکام کی توقع نہیں کر رہے۔ استحکام آبھی کیسے سکتا ہے۔ ابھی تو متحدہ عرب امارات میں مقیم عبداللہ صالح کا بیٹا احمد، اپنے باپ کے جوتے پہن کر انھی کے نقش قدم پر چلنے کو تیار بیٹھا ہے۔ اس کو نہ صرف غیرملکی پشت پناہی حاصل ہے، بلکہ قبائلی حمایت بھی اس کے ساتھ ہے۔ اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ یمن اب ایک جنگل بننے جارہا ہے۔ جس میں اٹھائیس ملین افراد کی پریشانی کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔

عبداللہ صالح ایک جملہ اکثر کہا کرتے تھے کہ یمن میں حکومت کرنا سانپوں کے سروں پر رقص کرنے کے مترادف ہے۔ حکمرانوں کا تو نہیں پتا لیکن یہ سچ ہے کہ اس وقت عام یمنیوں کی زندگی سانپوں کے سروں پر رقص کرنے سے زیادہ خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔ تین چوتھائی آبادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہوچکی ہے۔ یمنی عوام کے خون سے سیاسی ڈھانچے میں جان ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب عبداللہ صالح کی موت نے یمنی سیاست کو بیرونی قوتوں کے لیے مزید دلچسپ بنادیا ہے۔ لیکن عام یمنی کے لیے وقت مزید دردناک ہوچلا ہے۔ یمن کی خانہ جنگی بڑھ کر ایک درجے اوپر چلی گئی ہے۔ عبداللہ صالح کے بھتیجے طارق محمد کو (جو نہ صرف فوجی جرنیل ہے بلکہ ایک طویل عرصے تک عبداللہ صالح کا فوجی مشیر بھی رہا ہے) حوثیوں کے خلاف آپریشن کی ذمے داری سونپ دی گئی ہے، جس سے یمنی عوام کی آنکھیں خوف سے پھیل چکی ہیں کہ اب بغاوتوں کو کچلنے کے نام پر ان کو پھر سانپ کے سروں پر ہی رقص کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ متحارب گروہوں کے درمیان طاقت کا کھیل چل رہا ہے۔ ایک طرف حوثیوں نے عبداللہ صالح کے قتل کے بعد ان کے دو سو حامی آن کی آن میں ختم کر ڈالے تو دوسری جانب عبداللہ صالح کے حامی انتقامی جذبے میں ڈوبے باغیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ شیروں کی لڑائی میں نقصان کس کا ہوگا، یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔

سعودی عرب کی طرف مفاہمت کا ارادہ ظاہر کرنے والے عبداللہ صالح کا کہنا تھا کہ وہ یمن کی تاریخ کا نیا صفحہ کھولنے جارہے ہیں۔ نیا صفحہ کھولنے کی پاداش میں ان کی زندگی کا باب بند کردینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں ایسے خفیہ ہاتھ موجود ہیں جن کی بقا کا دارومدار ہی مسلسل جاری رہنے والے تنازعات پر ہے۔ اس پورے سیاسی پس منظر کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یمن کے دگرگوں حالات عبداللہ صالح کی موت کے بعد مزید ابتر ہوچکے ہیں۔ فریقین اس سیاسی محاذآرائی کو مذہبی رنگ دے کر جذبات برانگیختہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، جب کہ یمن کی اس خانہ جنگی کی مکمل تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس کا مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔ لیکن پھر بھی مذہب کے نام کو استعمال کرکے یہاں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ یمن میں دوردور تک قیام امن کی تمام امیدیں مصلوب ہوچکی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یمن کا میدان پراکسی وار کا مرکز بنا ہی رہے گا۔ اس ساری صورت حال میں ایک اہم سبق وقت کے آمروں کے لیے بھی موجود ہے۔ طویل عرصہ تک اقتدار سے چمٹے رہنے اور اس خواہش میں قومی سلامتی اور عوام کے تحفط تک کو داؤ پر لگادینے میں، نقصان جہاں سب کا ہی ہوتا ہے وہاں آمروں کا انجام بھی عبرتناک ہی ہوتا ہے۔ عراقی صدر صدام حسین، تیونس کے صدر زین العابدین بن علی، مصر کے حسنی مبارک، لیبیا کے معمر قذافی اور اب یمن کے اہم رہنما عبداللہ صالح کا انجام تاریخ کے سیاہ صفحات کا ہمیشہ حصہ بنا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔