مجھ سے ہاتھ ملا لو
ہنسنا منع ہے۔ آپ ہنس رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔
وہ گھبرا رہی تھی، مجھ سے ڈر رہی تھی۔ میں نے اسے پیار سے بلایا، لیکن وہ خوف میں تھی۔ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس کے قدموں کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے باپ نے کہا کہ رک جاؤ۔ وہ رک گئی۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، جس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے مجھ سے ہاتھ ملانے کا اشارہ کیا۔ میں زمین پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنا ہاتھ ایک بار پھر اس کی طرف کیا۔ اس کے نرم ہاتھوں نے میرے ہاتھوں کو چھوا۔ اور مجھے لگا کہ جیسے میری چھوٹی سی بیٹی، میرے گھر سے سیکڑوں کلومیٹر دور میرے پاس آچکی ہو۔
صبح کے ساڑھے چھ بج رہے تھے۔ تھر کی مٹی کی خوشبو نے مجھے سونے ہی نہیں دیا۔ ننگرپارکر کی ویران سڑک پر میں اکیلا موجود تھا۔ میرے سامنے کارونجھر کے پہاڑ کھڑے تھے۔ سورج کو یہ پہاڑ آنے کا راستہ دے رہے تھے۔ صاف فضا میں ویران سڑک پر میرے قدم پہاڑوں کی طرف جا رہے تھے۔ میں تھر کی مہکتی صبح کو اپنی سانسوں میں بسانے کے لیے سب کو چھوڑ کر چل پڑا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف کھیت تھے اور میرے سامنے پہاڑ۔
ایک دم مجھے میری دائیں جانب دور 'مور' نظر آئے۔ میں اکیلا سڑک سے اتر کر مٹی میں آگیا۔ میرے قدم تیزی سے مور کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایک دم مجھے کسی نے پکارا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ضیاء تھا، جو اپنے ہاتھ میں کیمرہ لیے مجھے کہہ رہا تھا کہ اتنی صبح ویران جگہ پر آگے مت جائیں۔ میں نے اس سے کہا کہ آؤ اس خوبصورت لمحے کو محفوظ کرلیتے ہیں۔
اسی دوران دور مجھے ایک مرد اور ایک چھوٹی سی 4 سال کی لڑکی نظر آئی۔ مرد کے ہاتھ میں اونٹ کی رسی تھی اور چھوٹی سی لڑکی ایک گدھے کی رسی کو پکڑ کر اسے چلا رہی تھی۔ میرے قدم تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگے۔ میں سڑک سے بہت دور آچکا تھا۔ میں نے معصوم سی تھر کی بچی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، تو وہ گھبرا گئی۔ میں نے اسے کہا کہ ہاتھ تو ملا لو۔ لیکن اس نے اپنے گدھے کی رسی کو مضبوطی سی پکڑ کر تیز چلنا شروع کردیا۔ میں نے اس کے باپ کی طرف دیکھا تو اس نے اپنی بیٹی کو رکنے کا کہا اور پھر جب میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو اس نے ہاتھ ملالیا۔ مجھے تھر کی اس مٹی میں اپنی بیٹی یاد آئی اور ضیاء نے جلدی سے اس لمحے کو محفوظ کرلیا۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے یہاں عورت کو مساوی حقوق حاصل نہیں، وہ ہمارے گاؤں کی فضاؤں میں جاکر دیکھیں کہ وہ کس طرح اپنے مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ آپ کو ایک مشہور فلم ''اوواتار'' یاد ہوگی، جس میں باہر سے لوگ آکر اس سیارے کے لوگوں کی زندگی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ ان لوگوں کو نہیں سمجھ پاتے جو اپنے اس حال میں ہزاروں سال سے خوش ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں پینٹ کوٹ میں رہنے والا ''بابو'' بھی اسی غلط فہمی میں ہے۔ تھر کے باسی ہزاروں سال سے زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اپنی روایت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے کپڑوں سے الرجی رکھنے والے ''بابو'' یہ کہتے ہیں کہ ہم انھیں جدید کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تھر کے لوگوں کا موقف سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں، جو ہزاروں سال سے قائم ہے۔
ہاں، وہاں سڑکیں بن گئی ہیں، لیکن تھر کے لوگوں میں خوف پھیل گیا۔ وہاں لوگوں کی آمدورفت بڑھ گئی ہے، مگر ان کے ذہنوں میں تحفظات بڑھ گئے ہیں۔ مٹھی میں ایک ہی گلی میں مندر، مسجد اور گردوارہ ہے۔ سیکڑوں سال سے لوگ یہاں رہ رہے ہیں۔ مگر جیسے جیسے ہمارے یہاں کے سخی وہاں مدد کرنے پہنچ رہے ہیں، ان میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سچ ہے یا نہیں لیکن تھر کی تاریخ میں بڑا بھائی چارہ ہے۔ مجھے وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ اسی بھائی چارے کی وجہ سے یہاں کبھی گائے کو نہیں کاٹا گیا۔ لیکن جب سے یہ 'سخی' آنا شروع ہوئے ہیں، یہاں کچھ بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے اور تاریخ میں پہلی بار یہاں پر گائے ذبح کرکے اس کا گوشت بانٹا گیا ہے۔
تھر بدل رہا ہے۔ یہاں کا طرز زندگی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے۔ تھر کے لوگوں کو بدلنے کے لیے جو چندے کی پیٹیاں کراچی اور لاہور میں نظر آرہی ہیں، اسی طرح بین القوامی سطح پر پیٹیاں گھوم رہی ہیں۔ یہ لوگ تھر کے لوگوں کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اپنی دکان چلانے کے لیے ہزاروں سال پرانا تھر ختم کر رہے ہیں۔
ماضی کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ انسان آگے کی طرف سفر کرتا ہے۔ جدت کو آنا ہی ہے۔ لیکن کیا اچھا ہو کہ یہ ان لوگوں کی مرضی سے آئے جو وہاں رہتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں تھر نے ترقی کرنا شروع کی۔ یہاں ارباب غلام رحیم نے سڑکوں کا جال بنانا شروع کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس میں مزید اضافہ کیا۔ کراچی سے لے کر تھر میں ننگرپارکر تک پکی سڑک موجود ہے۔ جہاں بغیر رکاوٹ کے سفر کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں تک سڑک بنائی گئی ہے اور تھرکول پراجیکٹ کے بعد اس میں تیزی آئی ہے۔ سندھ حکومت سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تھر کول کے معاملے میں وہ سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ ایک شور برپا ہے کہ اس سے تھر کے لوگوں کا کلچر، اور فضا متاثر ہوگی۔ کچھ لوگ ترقی بھی کرنا چاہتے ہیں اور اس ترقی کی قیمت بھی ادا نہیں کرنا چاہتے۔ آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ دنیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں مگر عشق کا کارواں چلنے سے پہلے گرد کی باتیں لے بیٹھتے ہیں۔
یہ بے نظیر کا خواب تھا۔ اس پر مشرف بھی کام کرنا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت اپنے دور میں لاکھ جتن کرچکی۔ تھر کول پراجیکٹ پر کام ہوتا رہا۔ لیکن کبھی ہاں اور کبھی ناں کی کیفیت رہی۔ CPEC یعنی چائنا کے آنے اور نجی کمپنیوں کی دلچسپی کے بعد اس میں پَر لگ گئے ہیں۔ دنوں کا کام گھنٹوں میں ہورہا ہے۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ تھر کے کوئلے کو 13 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں سے صرف ایک حصے میں کام ہو رہا ہے اور اس ایک حصے میں تھر کے کوئلے کا صرف 1 فیصد ہے۔ اور اس ایک فیصد نکلنے والے کوئلے سے اگلے سال بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔ دعویٰ یہ ہے کہ اگلے پانچ سال میں یہ 1 فیصد کوئلہ ہی اتنی بجلی دینا شروع کردے گا کہ لوڈشیڈنگ پر کنٹرول حاصل ہوجائے گا اور اگر پورے تھر کے کوئلے کو استعمال کیا گیا تو اگلے 20 سال میں پاکستان دوسرے ممالک کو بجلی دے سکے گا۔
ہنسنا منع ہے۔ آپ ہنس رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ یہ ہی باتیں تو گیس کے لیے کی گئیںِ، کبھی سورج کی توانائی پر کہا گیا اور کبھی ہوا سے پنکھے چلا کر ہمیں خواب دکھائے گئے۔ مگر میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ایک سنجیدہ کوشش ہورہی ہے تو اسے ہونے دیجیے۔ مگر دنیا کی آنکھ سے اوجھل تھر کی مٹی میں تھرتھراہٹ شروع ہوچکی ہے۔ قافلہ چلنا شروع ہوچکا ہے۔ عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ سڑک بن چکی ہے۔
تاریں بچھ چکی ہیں۔ گھڑی نے رفتار تیز کردی ہے۔ پہیہ تیزی سے گھومنے لگا ہے۔ تھر میں آزاد گھومتے اونٹوں نے گاڑی کے ہارن کی آواز پہچاننا شروع کردی ہے۔ لیکن مجھے تھر کی وہ بچی بہت معصوم نظر آئی۔ ترقی کے سفر میں اس کے ہاتھ میں گدھے کی رسی کے بجائے زندگی کی امنگ ہوتی تو میرا دل شاد رہتا۔ یہاں کی غربت کو بیچنے والے ''سخی'' چندے کی پیٹیوں میں یہاں اور محبت لائے تو مجھے اچھا لگے گا۔ یہاں کوئلے کی کانوں سے دوڑنے والی بجلی روح کو سیراب کرے تو میرا سینہ اور چوڑا ہوجائے گا۔ وقت کی سوئی میں اجالا گھومنے والا ہے۔ تھر کی ایک لڑکی ''خوشبو'' کی آواز میں ''دما دم مست قلندر'' تھر کی فضا میں گونج رہا ہے اور میں مٹی کی قسمت بدلتے دیکھ رہا ہوں۔ جیسے اس بچی نے تھوڑی جھجک کے بعد مجھ سے ہاتھ ملایا ویسے ہی آج کا تھر کچھ جھجک کے بعد اپنے کل سے ہاتھ ملا رہا ہے۔
صبح کے ساڑھے چھ بج رہے تھے۔ تھر کی مٹی کی خوشبو نے مجھے سونے ہی نہیں دیا۔ ننگرپارکر کی ویران سڑک پر میں اکیلا موجود تھا۔ میرے سامنے کارونجھر کے پہاڑ کھڑے تھے۔ سورج کو یہ پہاڑ آنے کا راستہ دے رہے تھے۔ صاف فضا میں ویران سڑک پر میرے قدم پہاڑوں کی طرف جا رہے تھے۔ میں تھر کی مہکتی صبح کو اپنی سانسوں میں بسانے کے لیے سب کو چھوڑ کر چل پڑا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف کھیت تھے اور میرے سامنے پہاڑ۔
ایک دم مجھے میری دائیں جانب دور 'مور' نظر آئے۔ میں اکیلا سڑک سے اتر کر مٹی میں آگیا۔ میرے قدم تیزی سے مور کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایک دم مجھے کسی نے پکارا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ضیاء تھا، جو اپنے ہاتھ میں کیمرہ لیے مجھے کہہ رہا تھا کہ اتنی صبح ویران جگہ پر آگے مت جائیں۔ میں نے اس سے کہا کہ آؤ اس خوبصورت لمحے کو محفوظ کرلیتے ہیں۔
اسی دوران دور مجھے ایک مرد اور ایک چھوٹی سی 4 سال کی لڑکی نظر آئی۔ مرد کے ہاتھ میں اونٹ کی رسی تھی اور چھوٹی سی لڑکی ایک گدھے کی رسی کو پکڑ کر اسے چلا رہی تھی۔ میرے قدم تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگے۔ میں سڑک سے بہت دور آچکا تھا۔ میں نے معصوم سی تھر کی بچی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، تو وہ گھبرا گئی۔ میں نے اسے کہا کہ ہاتھ تو ملا لو۔ لیکن اس نے اپنے گدھے کی رسی کو مضبوطی سی پکڑ کر تیز چلنا شروع کردیا۔ میں نے اس کے باپ کی طرف دیکھا تو اس نے اپنی بیٹی کو رکنے کا کہا اور پھر جب میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو اس نے ہاتھ ملالیا۔ مجھے تھر کی اس مٹی میں اپنی بیٹی یاد آئی اور ضیاء نے جلدی سے اس لمحے کو محفوظ کرلیا۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے یہاں عورت کو مساوی حقوق حاصل نہیں، وہ ہمارے گاؤں کی فضاؤں میں جاکر دیکھیں کہ وہ کس طرح اپنے مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ آپ کو ایک مشہور فلم ''اوواتار'' یاد ہوگی، جس میں باہر سے لوگ آکر اس سیارے کے لوگوں کی زندگی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ ان لوگوں کو نہیں سمجھ پاتے جو اپنے اس حال میں ہزاروں سال سے خوش ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں پینٹ کوٹ میں رہنے والا ''بابو'' بھی اسی غلط فہمی میں ہے۔ تھر کے باسی ہزاروں سال سے زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اپنی روایت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے کپڑوں سے الرجی رکھنے والے ''بابو'' یہ کہتے ہیں کہ ہم انھیں جدید کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تھر کے لوگوں کا موقف سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں، جو ہزاروں سال سے قائم ہے۔
ہاں، وہاں سڑکیں بن گئی ہیں، لیکن تھر کے لوگوں میں خوف پھیل گیا۔ وہاں لوگوں کی آمدورفت بڑھ گئی ہے، مگر ان کے ذہنوں میں تحفظات بڑھ گئے ہیں۔ مٹھی میں ایک ہی گلی میں مندر، مسجد اور گردوارہ ہے۔ سیکڑوں سال سے لوگ یہاں رہ رہے ہیں۔ مگر جیسے جیسے ہمارے یہاں کے سخی وہاں مدد کرنے پہنچ رہے ہیں، ان میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سچ ہے یا نہیں لیکن تھر کی تاریخ میں بڑا بھائی چارہ ہے۔ مجھے وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ اسی بھائی چارے کی وجہ سے یہاں کبھی گائے کو نہیں کاٹا گیا۔ لیکن جب سے یہ 'سخی' آنا شروع ہوئے ہیں، یہاں کچھ بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے اور تاریخ میں پہلی بار یہاں پر گائے ذبح کرکے اس کا گوشت بانٹا گیا ہے۔
تھر بدل رہا ہے۔ یہاں کا طرز زندگی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے۔ تھر کے لوگوں کو بدلنے کے لیے جو چندے کی پیٹیاں کراچی اور لاہور میں نظر آرہی ہیں، اسی طرح بین القوامی سطح پر پیٹیاں گھوم رہی ہیں۔ یہ لوگ تھر کے لوگوں کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اپنی دکان چلانے کے لیے ہزاروں سال پرانا تھر ختم کر رہے ہیں۔
ماضی کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ انسان آگے کی طرف سفر کرتا ہے۔ جدت کو آنا ہی ہے۔ لیکن کیا اچھا ہو کہ یہ ان لوگوں کی مرضی سے آئے جو وہاں رہتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں تھر نے ترقی کرنا شروع کی۔ یہاں ارباب غلام رحیم نے سڑکوں کا جال بنانا شروع کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس میں مزید اضافہ کیا۔ کراچی سے لے کر تھر میں ننگرپارکر تک پکی سڑک موجود ہے۔ جہاں بغیر رکاوٹ کے سفر کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں تک سڑک بنائی گئی ہے اور تھرکول پراجیکٹ کے بعد اس میں تیزی آئی ہے۔ سندھ حکومت سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تھر کول کے معاملے میں وہ سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ ایک شور برپا ہے کہ اس سے تھر کے لوگوں کا کلچر، اور فضا متاثر ہوگی۔ کچھ لوگ ترقی بھی کرنا چاہتے ہیں اور اس ترقی کی قیمت بھی ادا نہیں کرنا چاہتے۔ آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ دنیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں مگر عشق کا کارواں چلنے سے پہلے گرد کی باتیں لے بیٹھتے ہیں۔
یہ بے نظیر کا خواب تھا۔ اس پر مشرف بھی کام کرنا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت اپنے دور میں لاکھ جتن کرچکی۔ تھر کول پراجیکٹ پر کام ہوتا رہا۔ لیکن کبھی ہاں اور کبھی ناں کی کیفیت رہی۔ CPEC یعنی چائنا کے آنے اور نجی کمپنیوں کی دلچسپی کے بعد اس میں پَر لگ گئے ہیں۔ دنوں کا کام گھنٹوں میں ہورہا ہے۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ تھر کے کوئلے کو 13 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں سے صرف ایک حصے میں کام ہو رہا ہے اور اس ایک حصے میں تھر کے کوئلے کا صرف 1 فیصد ہے۔ اور اس ایک فیصد نکلنے والے کوئلے سے اگلے سال بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔ دعویٰ یہ ہے کہ اگلے پانچ سال میں یہ 1 فیصد کوئلہ ہی اتنی بجلی دینا شروع کردے گا کہ لوڈشیڈنگ پر کنٹرول حاصل ہوجائے گا اور اگر پورے تھر کے کوئلے کو استعمال کیا گیا تو اگلے 20 سال میں پاکستان دوسرے ممالک کو بجلی دے سکے گا۔
ہنسنا منع ہے۔ آپ ہنس رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ یہ ہی باتیں تو گیس کے لیے کی گئیںِ، کبھی سورج کی توانائی پر کہا گیا اور کبھی ہوا سے پنکھے چلا کر ہمیں خواب دکھائے گئے۔ مگر میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ایک سنجیدہ کوشش ہورہی ہے تو اسے ہونے دیجیے۔ مگر دنیا کی آنکھ سے اوجھل تھر کی مٹی میں تھرتھراہٹ شروع ہوچکی ہے۔ قافلہ چلنا شروع ہوچکا ہے۔ عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ سڑک بن چکی ہے۔
تاریں بچھ چکی ہیں۔ گھڑی نے رفتار تیز کردی ہے۔ پہیہ تیزی سے گھومنے لگا ہے۔ تھر میں آزاد گھومتے اونٹوں نے گاڑی کے ہارن کی آواز پہچاننا شروع کردی ہے۔ لیکن مجھے تھر کی وہ بچی بہت معصوم نظر آئی۔ ترقی کے سفر میں اس کے ہاتھ میں گدھے کی رسی کے بجائے زندگی کی امنگ ہوتی تو میرا دل شاد رہتا۔ یہاں کی غربت کو بیچنے والے ''سخی'' چندے کی پیٹیوں میں یہاں اور محبت لائے تو مجھے اچھا لگے گا۔ یہاں کوئلے کی کانوں سے دوڑنے والی بجلی روح کو سیراب کرے تو میرا سینہ اور چوڑا ہوجائے گا۔ وقت کی سوئی میں اجالا گھومنے والا ہے۔ تھر کی ایک لڑکی ''خوشبو'' کی آواز میں ''دما دم مست قلندر'' تھر کی فضا میں گونج رہا ہے اور میں مٹی کی قسمت بدلتے دیکھ رہا ہوں۔ جیسے اس بچی نے تھوڑی جھجک کے بعد مجھ سے ہاتھ ملایا ویسے ہی آج کا تھر کچھ جھجک کے بعد اپنے کل سے ہاتھ ملا رہا ہے۔