وائرل بیماریوں میں اضافہ رواں سال 23 افراد ہلاک
کراچی میں ایڈیزایچپٹی مچھر کے کاٹنے سے2 ہزار567 افراد، ڈنگی اور4ہزار65 فرادچکن گنیامیں مبتلا ہوئے۔
پاکستان کا سب سے بڑا اور سندھ کے واحد میگا پولیٹن شہرکراچی میں وائرل بیماریوں میں اضافہ ہوگیا جب کہ سال 2017 کے دوران ڈنگی،چکن گونیا،ملیریا،ڈائریا، کانگو، نگلیریا اور کئی بیماریوں سے سیکڑوں افراد بیمار ہوئے جن میں سے23 افراد بیماریوں کے باعث دم توڑ گئے۔
محکمہ صحت سندھ کی مرتبہ سالانہ رپورٹ 2017 کے مطابق رواں سال کراچی میں ڈنگی وائرس کا شکار ہوکر11افراد ہلاک ہوگئے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا کانگووائرسنے 6 افراد کی جان لی پینے کے صاف پانی میں کلورین شامل نہ کرنے کی وجہ سے6 افراد نگلیریا جرثومے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارگئے۔
کراچی میں سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام غیر فعال ہونے سے256 افراد ایچ آئی وی ایڈز وائرس کا شکار ہوگئے امسال کراچی میں مخصوص مچھر ایڈیزایچپٹی کے کاٹنے سے2 ہزار567 افراد ڈنگی وائرس اور اسی مچھرکے کاٹنے سے 4ہزار65 فراد چکن گنیاکا شکار ہوگئے جب کہ شہریوں کی بڑی تعداد تیزبخار، جوڑوں میں دردکی شکایت میں مبتلا رہی۔
کراچی سمیت صوبے میں مچھروں کی بہتات کی وجہ سے 49 ہزار507 افراد ملیریاکا شکار ہوگئے کراچی میں بچوں میں خسرہ وائرس سے797بچے مبتلا ہوگئے۔ بچوں میں سانس کے امراض میں5لاکھ30ہزاربچے رپورٹ ہوئے، ڈائریاکے مرض میں20ہزار460 بچے اور بڑے رپورٹ ہوئے، بچوں میں تشنج کے مرض میں53 افراد کے مبتلا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ کراچی میں 2 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوکرمعذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔
کراچی میں رواں سال جنوری سے دسمبرکے دوران محکمہ صحت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود مچھروں کے خاتمے کے لیے جراثیم کش اسپرے مہم شروع نہیں کی جاسکی اس دوران محکمہ صحت اور بلدیہ عظمی کے میئرکے درمیان ملاقاتوں مچھر مار اسپرے کے لیے فنڈز بھی جاری کیے گئے لیکن کراچی کے شہری حکومتی اداروں کے دعوؤں کے برعکس پورا سال مچھروں کے رحم وکرم پر رہے جس کے نتیجے میں صرف مچھروں کے کاٹنے سے چکن گنیا ، ڈنگی وائرس اور ملیریا سے مجموعی طورپر 56 ہزار 139افراد متاثر ہوئے جن کے علاج پر شہریوں کے کروڑوں روپے خرچ ہوگئے۔
سرکاری اسپتالوں میں ان امراض کی تشخیص کی کٹس موجود تھی اور نہ ہی علاج میسر تھا اکثر بیماروں کے لواحقین نے مریضوں کا نجی اسپتالوں سے علاج کرایا پینے کے صٓاف پانی میںکلورین شامل نہ کرنے سے 6 افراد نگلیریا سے جاں بحق ہوگئے۔ ان قیمتی جانوں کو پانی میںکلورین کی مطلوبہ مقدار شامل کرکے بچایا جاسکتا تھا لیکن واٹربورڈ اورمحکمہ صحت کی غفلت سے قیمتی جانیں نگلیریا کا شکار ہوگئیں۔جب کہ کانگو وائرس جو ہرسال عیدالاضحیٰ کے موقع پر رپورٹ ہوتا ہے نے امسال بھی 6 افراد کی جان لے لی۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں بیماریوں کے اعداد و شمار جمع کرنے والا کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں اندازوں سے مرتب کیے جانے والے اعداد وشمار کے برعکس سندھ میں بیمار افراد اور بیماریوں کی صورتحال انتہائی زیادہ اور تشویشناک ہے۔
محکمہ صحت سندھ کی مرتبہ سالانہ رپورٹ 2017 کے مطابق رواں سال کراچی میں ڈنگی وائرس کا شکار ہوکر11افراد ہلاک ہوگئے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا کانگووائرسنے 6 افراد کی جان لی پینے کے صاف پانی میں کلورین شامل نہ کرنے کی وجہ سے6 افراد نگلیریا جرثومے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارگئے۔
کراچی میں سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام غیر فعال ہونے سے256 افراد ایچ آئی وی ایڈز وائرس کا شکار ہوگئے امسال کراچی میں مخصوص مچھر ایڈیزایچپٹی کے کاٹنے سے2 ہزار567 افراد ڈنگی وائرس اور اسی مچھرکے کاٹنے سے 4ہزار65 فراد چکن گنیاکا شکار ہوگئے جب کہ شہریوں کی بڑی تعداد تیزبخار، جوڑوں میں دردکی شکایت میں مبتلا رہی۔
کراچی سمیت صوبے میں مچھروں کی بہتات کی وجہ سے 49 ہزار507 افراد ملیریاکا شکار ہوگئے کراچی میں بچوں میں خسرہ وائرس سے797بچے مبتلا ہوگئے۔ بچوں میں سانس کے امراض میں5لاکھ30ہزاربچے رپورٹ ہوئے، ڈائریاکے مرض میں20ہزار460 بچے اور بڑے رپورٹ ہوئے، بچوں میں تشنج کے مرض میں53 افراد کے مبتلا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ کراچی میں 2 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوکرمعذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔
کراچی میں رواں سال جنوری سے دسمبرکے دوران محکمہ صحت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود مچھروں کے خاتمے کے لیے جراثیم کش اسپرے مہم شروع نہیں کی جاسکی اس دوران محکمہ صحت اور بلدیہ عظمی کے میئرکے درمیان ملاقاتوں مچھر مار اسپرے کے لیے فنڈز بھی جاری کیے گئے لیکن کراچی کے شہری حکومتی اداروں کے دعوؤں کے برعکس پورا سال مچھروں کے رحم وکرم پر رہے جس کے نتیجے میں صرف مچھروں کے کاٹنے سے چکن گنیا ، ڈنگی وائرس اور ملیریا سے مجموعی طورپر 56 ہزار 139افراد متاثر ہوئے جن کے علاج پر شہریوں کے کروڑوں روپے خرچ ہوگئے۔
سرکاری اسپتالوں میں ان امراض کی تشخیص کی کٹس موجود تھی اور نہ ہی علاج میسر تھا اکثر بیماروں کے لواحقین نے مریضوں کا نجی اسپتالوں سے علاج کرایا پینے کے صٓاف پانی میںکلورین شامل نہ کرنے سے 6 افراد نگلیریا سے جاں بحق ہوگئے۔ ان قیمتی جانوں کو پانی میںکلورین کی مطلوبہ مقدار شامل کرکے بچایا جاسکتا تھا لیکن واٹربورڈ اورمحکمہ صحت کی غفلت سے قیمتی جانیں نگلیریا کا شکار ہوگئیں۔جب کہ کانگو وائرس جو ہرسال عیدالاضحیٰ کے موقع پر رپورٹ ہوتا ہے نے امسال بھی 6 افراد کی جان لے لی۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں بیماریوں کے اعداد و شمار جمع کرنے والا کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں اندازوں سے مرتب کیے جانے والے اعداد وشمار کے برعکس سندھ میں بیمار افراد اور بیماریوں کی صورتحال انتہائی زیادہ اور تشویشناک ہے۔