کون بنے گا نگراں وزیراعظم حکومت کا تجویز کردہ یا اپوزیشن کا یا پھر کوئی اور۔ ۔ ۔
حکومت اور اپوزیشن کی بھر پور کوشش ہوگی کہ نگران وزیر اعظم کی تقری کا معاملہ الیکشن کمشنر کے پاس نہ جائے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تین نام تجویز کئے جانے کے بعد نگران وزیراعظم کے امیدواروں کی تعداد 6 ہوگئی ہے، جس کے ساتھ ہی حکومت اور اپوزیشن میں کسی ایک نام پر اتفاق کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کو بھیجے گئے خط میں جو 3 نام تجویز کئے ہیں ان میں عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس(ر) میر ہزار کھوسو شامل ہیں۔
عبدالحفیظ شیخ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں، نگران وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے وزارت خزانہ کے قلمدان اور سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے تجویز کیا جانے والا دوسرا نام ڈاکٹر عشرت حسین کا ہے جو ماہرِ معاشیات اور اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ہیں جبکہ تیسری مجوزہ شخصیت سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس(ر) میر ہزار کھوسو کی ہے۔
اس سے قبل اپوزیشن کی جانب سے نگران وزیر اعظم کے لئے جو تین نام تجویز کئے گئے ہیں ان میں سپریم کورٹ کے دو سابق جج جسٹس ریٹائرڈ ناصراسلم زاہد، جسٹس ریٹائرڈ شاکراللہ جان اور سندھ کے قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو شامل ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصراسلم زاہد کا تعلق کراچی سے ہے وہ ان ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کی حکومت کے دوران پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصراسلم زاہد 1997 میں سپریم کورٹ پر مسلم لیگ (ن) کے مبینہ حملے کے کیس کی بھی سماعت کرچکے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کے لئے اپوزیشن کا دوسرا مجوزہ نام سپریم کورٹ کے سابق سینیئر جج جسٹس شاکراللہ جان کا ہے وہ گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہونے پر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بھی ذمہ داریں نبھا چکے ہیں۔ نگران وزارت عظمیٰ کے لئے اپوزیشن کی جانب سے تیسرا نام قوم پرست سندھی رہنما اور بزرگ سیاست دان رسول بخش پلیجوکا ہے۔
ملک کی موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت میں صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں لیکن نگران وزیر اعظم کے لئے تجویز کئے گئے ناموں نے دلچسپ صورت حال اختیار کرلی ہے کیونکہ دونوں جانب سے جو نام تجویز کئے گئے ہیں وہ دوسرے فریق کو قریب قریب نا قابل قبول ہیں۔
آئینِ کے آرٹیکل 224 کے تحت قومی اسمبلی کی تحلیل کے تین روز کے اندر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں عبوری وزیر اعظم کے نام پر اتفاق ہونا ضروری ہے دوسری صورت میں آرٹیکل 224(اے) کا اطلاق ہوجائے گا جس کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمائندگی والی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گی جس میں ان ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاق کی کوشش کی جائے گی، یہاں بھی معاملہ حل نہ ہوا تو پھر اسے الیکشن کمیشن کے سپرد کر دیا جائے گا جو متفقہ طور پر یا اکثریتِ رائے سے نگران وزیراعظم کا فیصلہ کرے گا۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں ملک کی تاریخ میں پہلا ایسا الیکشن کمیشن موجود ہے جسے سپریم کورٹ اور کسی حد تک پاک فوج کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے، کاغزات نامزدگی سمیت کئی امور پر حکومت اور اپوزیشن اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہے، ایسی صورت میں دونوں فریق شائد کبھی بھی یہ نہ چاہیں کہ ایک ایسا نگران وزیر اعظم آئے جسے الیکشن کمیشن نے مقرر کیا ہو اور جسے اعلیٰ عدلیہ اور عسکری قیادت کی حمایت بھی حاصل ہو۔
اس صورت حال سے بچنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کی یہ بھر پور کوشش ہوگی کہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر یا پھر پارلیمانی کمیٹی میں ہی نگران وزیر اعظم کے لئے کسی ایک نام پر اتفاق کرلیا جائے دوسری صورت میں اگر معاملہ الیکشن کمشنر کے پاس گیا توصورتحال دونوں فریقین کے لئے مشکل ہوسکتی ہے۔
وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کو بھیجے گئے خط میں جو 3 نام تجویز کئے ہیں ان میں عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس(ر) میر ہزار کھوسو شامل ہیں۔
عبدالحفیظ شیخ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں، نگران وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے وزارت خزانہ کے قلمدان اور سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے تجویز کیا جانے والا دوسرا نام ڈاکٹر عشرت حسین کا ہے جو ماہرِ معاشیات اور اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ہیں جبکہ تیسری مجوزہ شخصیت سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس(ر) میر ہزار کھوسو کی ہے۔
اس سے قبل اپوزیشن کی جانب سے نگران وزیر اعظم کے لئے جو تین نام تجویز کئے گئے ہیں ان میں سپریم کورٹ کے دو سابق جج جسٹس ریٹائرڈ ناصراسلم زاہد، جسٹس ریٹائرڈ شاکراللہ جان اور سندھ کے قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو شامل ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصراسلم زاہد کا تعلق کراچی سے ہے وہ ان ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کی حکومت کے دوران پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصراسلم زاہد 1997 میں سپریم کورٹ پر مسلم لیگ (ن) کے مبینہ حملے کے کیس کی بھی سماعت کرچکے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کے لئے اپوزیشن کا دوسرا مجوزہ نام سپریم کورٹ کے سابق سینیئر جج جسٹس شاکراللہ جان کا ہے وہ گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہونے پر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بھی ذمہ داریں نبھا چکے ہیں۔ نگران وزارت عظمیٰ کے لئے اپوزیشن کی جانب سے تیسرا نام قوم پرست سندھی رہنما اور بزرگ سیاست دان رسول بخش پلیجوکا ہے۔
ملک کی موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت میں صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں لیکن نگران وزیر اعظم کے لئے تجویز کئے گئے ناموں نے دلچسپ صورت حال اختیار کرلی ہے کیونکہ دونوں جانب سے جو نام تجویز کئے گئے ہیں وہ دوسرے فریق کو قریب قریب نا قابل قبول ہیں۔
آئینِ کے آرٹیکل 224 کے تحت قومی اسمبلی کی تحلیل کے تین روز کے اندر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں عبوری وزیر اعظم کے نام پر اتفاق ہونا ضروری ہے دوسری صورت میں آرٹیکل 224(اے) کا اطلاق ہوجائے گا جس کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمائندگی والی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گی جس میں ان ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاق کی کوشش کی جائے گی، یہاں بھی معاملہ حل نہ ہوا تو پھر اسے الیکشن کمیشن کے سپرد کر دیا جائے گا جو متفقہ طور پر یا اکثریتِ رائے سے نگران وزیراعظم کا فیصلہ کرے گا۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں ملک کی تاریخ میں پہلا ایسا الیکشن کمیشن موجود ہے جسے سپریم کورٹ اور کسی حد تک پاک فوج کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے، کاغزات نامزدگی سمیت کئی امور پر حکومت اور اپوزیشن اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہے، ایسی صورت میں دونوں فریق شائد کبھی بھی یہ نہ چاہیں کہ ایک ایسا نگران وزیر اعظم آئے جسے الیکشن کمیشن نے مقرر کیا ہو اور جسے اعلیٰ عدلیہ اور عسکری قیادت کی حمایت بھی حاصل ہو۔
اس صورت حال سے بچنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کی یہ بھر پور کوشش ہوگی کہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر یا پھر پارلیمانی کمیٹی میں ہی نگران وزیر اعظم کے لئے کسی ایک نام پر اتفاق کرلیا جائے دوسری صورت میں اگر معاملہ الیکشن کمشنر کے پاس گیا توصورتحال دونوں فریقین کے لئے مشکل ہوسکتی ہے۔