پی پی کی پچاس سالہ تاریخ

شہید ذوالفقار علی بھٹو سے آغاز ہوتا ہے جو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے خالق تھے۔


راؤ سیف الزماں December 13, 2017

پاکستان پیپلز پارٹی اپنا پچاسواں یوم تاسیس منا رہی ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں کہ وہ سنگل لارجسٹ پارٹی کون سی ہے جو اپنی تشکیل کے بعد سے تقسیم ہوئی، نہ اس میں اکا دکا دھڑے کامیاب ہوئے، تو ہمیں بلاشبہ کہنا ہوگا ''پاکستان پیپلز پارٹی''۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

ہاں آج اس کی مقبولیت پر کچھ سوال ضرور ہیں، ماننا ہوگا کہ اس کے جو خدوخال، اس کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے استوار کیے تھے، آج ان میں تبدیلی ہے، لیکن ساتھ ہی اس دلیل کو بھی امکان سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی ہیں یا ہر قیادت اپنی پیشرو قیادت سے جزوی سا اختلاف ضرور کرتی ہے، جو فطرت کا حصہ ہے۔ ان تبدیلیوں سے جو بھٹو کے بعد جماعت کا حصہ بنیں اور جن سے ناراض ہوکر پارٹی کے کچھ دیرینہ ساتھی جماعت کو خیر باد تک کہہ گئے، ایسے رہنماؤں کو دنیا بھر کے تبدیل ہوتے حالات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا، جو اب پارٹی میں واپسی کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔

اب ایک اور پہلو سے بھی پیپلز پارٹی کا جائزہ لیتے ہیں، وہ ہے ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے دی گئی وہ لازوال قربانیاں، جو تاریخ کی نظروں میں امر ہوگئیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے آغاز ہوتا ہے جو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے خالق تھے، یعنی بلاشبہ ان سے قبل ملک جمہوری کلچر سے محروم تھا، محلاتی سازشوں کا شکار آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ لیکن یہ بھٹو تھے جنھوں نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ہر دل کی آواز بن گیا، پھر وہ اپنے اس نعرے جو ان کا منشور تھا، کے لیے لڑے اور ایسی بہادری سے لڑے کہ جامِ شہادت نوش کیا۔

ایک ببر شیر جو تقریر نہیں کرتا تھا بلکہ دہاڑتا تھا، اقوامِ متحدہ ہو یا امریکا، انڈیا ہو یا یورپ، ایک بے باک، نڈر، بے خوف آواز تھی۔ او، آئی، سی کی تشکیل سے لے کر شملہ معاہدے تک، ایک غریب، مجبور، مفلس کی جھونپڑی سے لے کر اس کے آنسو پونچھنے تک کون تھا؟ بھٹو صرف بھٹو۔ اور پھر اسی کے ایک بیٹے کو زہر دیا گیا، ایک کو اپنے ہی ملک میں مار دیا گیا، پھر جانشین بیٹی اٹھی، حالانکہ جان کو شدید خطرات لاحق، دھمکیاں، بے وطنی، ہر سمت سے مل رہی تھیں، لیکن محترمہ نے کسی خوف کی پرواہ کیے بغیر والد کے مشن کو جاری رکھا اور ملک وقوم کے لیے جام شہادت نوش کیا۔

لہو سے سینچنے پڑتے ہیں، برگ و بار کے موسم

بظاہر یوں لگا دینا شجر آسان ہے کتنا

پیپلز پارٹی کی پچاس سالہ تاریخ لہو سے سرخ ہے، محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ایک ناقابل فراموش سانحہ تھا، لیکن اس نازک وقت جو سب سے بڑا خطرہ ملک کو لاحق ہوا کہ اب ہوگا کیا؟ ملک بھر میں محترمہ کے بے شمار جانثار اب کیا فیصلہ کرنے والے ہیں؟ بالخصوص ان کے اہلِ خانہ، جن میں سرِفہرست ان کے شوہر آصف علی زرداری، ان کے فرزند، بیٹیاں، یہ کیا فیصلہ کرنے والے ہیں؟ جن کا سب کچھ لٹ گیا ہو، وہ کیا سوچ رہے ہیں؟ مجھے یاد ہے پورے ملک پر ایک طرف تو سوگ طاری تھا، دوسری طرف خوف، ہر طرف ایک ہی سوال تھا، ایک اندیشہ کہ یہ ملک اب یکجا نہیں رہ پائے گا، خدانخواستہ کچھ ہونے والا ہے۔

اور پھر تاریخ کی نظروں نے دیکھا کہ محترمہ کی تدفین کے تیسرے روز ان کے خاوند آصف علی زرداری نے جو اس وقت غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے تھے، بیان دیا (پاکستان کھپے)۔ ان کے مطابق نقصان کی تلافی ممکن نہ تھی، لیکن ملک پہلے تھا اور پھر انھوں نے اپنی بات کی لاج بھی پوری طرح رکھی، حالانکہ یہ وہی آصف علی زرداری تھے، جنھیں جھوٹے مقدمات میں گیارہ سال مختلف جیلوں میں رکھا، قیدوبند کی انتہائی صعوبتوں سے گزارا گیا، جب کہ وہ اپنے اوپر دائر ہر مقدّمہ سے باعزت بری ہوئے، لیکن انھوں نے ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ مجھے کیوں نکالا۔ بری ہونے کے بعد یہ پوچھنا بہرحال ان کا حق تھا کہ مجھ پر جھوٹے مقدمات کیوں بنائے گئے؟ پھر بھی انھوں نے صبر کیا اور محترمہ کی شہادت کے بعد الیکشن میں جانا قبول کیا۔ بعد ازاں جب وہ صدرِ پاکستان منتخب ہوئے تو جو سب سے اولین کام انھوں نے کیا، وہ پارلمنٹ سے 58 ٹو بی کا خاتمہ تھا۔

بلاشبہ آصف علی زرداری اگر جمہوریت کی اس قاتل شق کا خاتمہ نہ کرتے اور تمام اختیارات اگر منتخب پارلیمنٹ کو منتقل نہ کرتے تو ملک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جمہوریت سے محروم ہوجاتا۔ پھر کبھی الیکشن نہ ہوتے، کبھی انتخاب نا ہوتا، بس ٹیکنو کریٹ ہوتے اور بیوروکریٹ۔ یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا ہم آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگاتے چلے آئے ہیں اور زمینی حقائق کیا رہے کہ الزامات لگانے والوں میں سے سب سے بڑے نواز شریف آج کرپشن کے بہت سے مقدمات میں نااہل ہوچکے، جب کہ آصف علی زرداری ہر مقدمہ سے باعزت بری۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم یہ کیسی زیادتی کرتے ہیں؟

کیا ہمارا یہ عمل چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کو جنم نہیں دے گا؟ کیوں وہ نہیں سوچیں گے کہ اپنا تو کرپٹ بھی پیارا، دوسرا صاف دامن بھی نہیں۔ اور قدرت کا انصاف دیکھیے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔ اب میاں صاحب کو بھی سب دکھائی دے رہا ہے، کہتے ہیں میں آج بھی میثاق جمہوریت کو مانتا ہوں اور آصف علی زرداری سے تعاون کا خواستگار ہوں۔ عجیب سی فرمائش ہے، کل تک جن کے خلاف آپ میموگیٹ میں کورٹ جارہے تھے، جس جماعت کے منتخب وزیرِاعظم کو نااہل کروانے میں پیش پیش تھے، آج انھی کو صاحب ایمان گردانتے ہیں، انھی سے مدد کے طالب۔

خیر میرا موضوع آج یہ نہیں پیپلز پارٹی کی پچاسویں گولڈن جوبلی ہے، میں اسی پر آتا ہوں اور پی پی پی کی موجودہ سیاسی حکمت عملی، نیز جماعت کے منشور پر۔ اس وقت پارٹی میں جو قیادت موجود ہے ہم سب جانتے ہیں ان میں میاں رضا ربانی جیسے جید رہنما، اعتزاز احسن جیسے اصول پرست اور لبرل لیڈر ہیں، فریال صاحبہ، عذرا فضل پیچوہو دونوں آصف زرداری کی ہمشیرہ ہیں اور انتہائی energetic، بہت محنتی، اگر کہا جائے کہ دونوں زرداری کے لیے بازو کی طرح ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ بالخصوص فریال تالپور۔ میری ان سے کئی ایک ملاقات ہوئیں جن میں انھوں نے اس ویژن کا اظہار کیا جو ان کے ذہن میں صوبہ سندھ کے لیے ہے۔

کاش وہ پورا ہوجائے تو یہ صوبہ واقعتًا یوٹوپیا بن جائے۔ بہت زبردست منصوبے، ترقی کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ۔ لیکن ایک نوجوان قائد کے ذکر کے بغیر یہ محفل بالکل ادھوری رہ جائے گی، وہ ہیں ''بلاول بھٹو زرداری''۔ ان کا انداز بالکل اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید جیسا ہے، ان کا دل عوام کے لیے وہی وسعت رکھتا ہے جو محترمہ کا دل رکھتا تھا۔ مجھے پاکستان میں آج بہت رجعت پسندی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی انتہاپرستی جس پر قابو نہ پایا گیا تو ملک کو حقیقی خطرات لاحق ہوجائیں گے اور ایسے میں جو جماعت لبرل ہے، انسانی حقوق کی علمبردار ہے، جو غریب کی صرف بات ہی نہیں کرتی ان کے لیے باقاعدہ برسرِ پیکار ہے، وہ ''پاکستان پیپلز پارٹی'' ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں