گراں قدر خدمات کی لالٹینیں
ہمارے چند سیاستدان دلہن بنی جمہوریت پر صدقے واری جاتے ہیں اور اس کی خریداری کے لیے گفتگو کا بازار 5 سال تک گرم رہتا ہے
الیکشن میں کم وقت رہ گیا ہے اور جب الیکشن ہوگا تو اچھی حکمران جماعتوں اور بڑی اپوزیشن کی ساری کتابیں منظر عام پر آجائیں گی اور عوام نے ٹرینٹ گلدستوں میں اپنے چاہنے والوں کی شکلیں نہیں دیکھی تھیں، وہ بھی منظر عام پر آجائیں گے اور اس میں سب سے بڑی خوبی جو ہوگی وہ بغیر پروٹوکول کے آنے والوں کی ہوگی۔ پھر عوام قریب سے ان کے چہرے بھی دیکھیں گے، بہت سی شکلیں ایسی بھی ہوں گی جو کرپشن، لوٹ مار، اداروں کو تباہ کرنے والوں کی ہوں گی، جو اس دن باوضو ہوں گے، اپنی پاک دامانی کے تذکرے کریں گے، اپنے سیاسی انتقام کا رونا رو رہے ہوں گے اور بڑے بڑے بت عوام میں ایسے گھل مل جائیں گے جیسے کسی علاقے کے کونسلر ہوں۔
مگر اب حالات بہت کٹھن ہیں کہ سوشل میڈیا نے ان چہروں سے نقاب اتار دی ہے، کوئی بغیر پروٹوکول کے لندن کی سڑکوں پر گھومتا نظر آتاہے، کوئی شراب خانے کو آباد کرنے کے بعد باہر نکلتا ہے اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ پروٹوکول کے نام پر ان کے ساتھ ایک لنگڑی بکری بھی نہیں ہوتی، مگر جب یہ پاکستان میں ہوتے ہیں تو ان کی جان کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
قوم کو چاہیے کہ اب عقل کے ناخن لے۔ مگر عقل و شعور اور تعلیم آپ کو شہروں میں ملے گی، دیہاتوں میں رہنے والے معصوم جو اردو تک نہیں پڑھ سکتے، یہ ان کے ووٹوں پر حکومت کرتے ہیں اور اس بہانے شہر کے لوگوں پر بھی یہ کہہ کر حکومت کرتے ہیں کہ ہم عوام کے ووٹوں سے نامزد ہوئے اور عوامی نمایندے ہیں، لہٰذا ہمارا احترام کیا جائے اور سیاسی بیانات کے تحت قوم کو کروڑوں کا قرض دار کرکے چلتے بنتے ہیں۔
قدآدم اشتہارات شایع کیے جاتے ہیں اور جب متعلقہ ادارے سے معلوم کریں کہ یہ اشتہارات تو اخبار میں آئے ہیں تو عوام کو حقیر نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ابھی کوئی سرکولر نہیں آیا ہے۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ الزامات کو ان اشتہارات سے دھونے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ہمارے چند سیاستدان دلہن بنی جمہوریت پر صدقے واری جاتے ہیں اور اس کی خریداری کے لیے گفتگو کا بازار 5 سال تک گرم رہتا ہے حتیٰ کہ جب الیکشن میں جیت کر سرخرو ہوتے ہیں تو پھر کمر کس کر لوٹ کھسوٹ، کرپشن، جرائم کے رنگ میں اتر جاتے ہیں۔
سیاست کی جانب سے دانشورانہ بصیرت کا تو انتقال ہوچکا وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اب دنیا میں آگئے ہیں تو بس واپس جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اپنی دس نسلوں کے لیے مال جمع کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ایسا نہ ہو کہ الیکشن سے قبل بہتری کے حوالے سے ملک کی تقدیر ہی نہ بدل جائے۔
ملک کے دو بڑے ادارے ان چند سیاستدانوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنے ہیں، اگر انھوں نے کمر کس لی تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سندھ تو خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ کو مالیاتی، تجارتی طور پر توجہ کی ضرورت ہے، مگر یہاں سیاسی لوگوں نے صرف مظلومیت کی سیاست سجا رکھی ہے۔ وفاق سے شکایت کی جاتی ہے کہ سندھ پر توجہ نہیں دیتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ سندھ کے کرتا دھرتا کون سا سندھ پر توجہ دے رہے ہیں۔
KMC کے سٹی وارڈرن کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں؟ انھیں ٹریفک کی ذمے داری کیوں نہیں دی جاتی؟ صرف رمضان میں نظر آتے ہیں، جب کہ ٹریفک کا نظام تباہ ہوچکا، ٹریفک پولیس کچھ جگہوں پر نظر آتی ہے مگر لاتعلقی سے کونے میں کھڑی رہتی ہے، ٹریفک جام ہو مگر یہ ٹریفک کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ KMC کے سینئر سٹیزن ریٹائر حضرات خاص طور پر خواتین ٹیچرز کو 3 ماہ سے پنشن نہیں ملی ہے۔ اس کا ازالہ کون کرے گا؟ ہر ادارہ کرپشن کے زیر سایہ چل رہا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو۔ KDA پر چائنا کٹنگ کے الزامات ہیں، اس کا برا حال ہے۔ تمام وزارتیں صرف جھنڈے اور پروٹوکول تک محدود ہیں۔ ٹرانسپورٹ، صحت کا برا حال ہے۔ اسپتال میں دوائیں ناپید ہیں، پرائیویٹ اسپتالوں نے اودھم مچا رکھی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ مسائل نے ہر غریب کے دروازے پر دستک دی ہے۔
کرپشن میں جو لوگ ملوث ہیں اور عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں اگر اس پیسے کو کوئی فرد واحد نہ لوٹتا تو آج ٹریفک، اسپتال، گورنمنٹ اسکولوں کے مسائل کا وجود نہ ہوتا۔ مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ عوامی پیسہ لوگ لوٹ کر لے گئے اور مسائل کے انبار قوم کے سر لپیٹ دیے گئے۔ خوف خدا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں کی حالت یہ ہے کہ ملک کی عمارتیں تک گروی ہیں۔ حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ ملک کو گردن تک قرضوں میں الجھا دیا گیا مگر یہ کامیابیوں کا جشن منا کر سادح لوح عوام سے پرجوش تالیاں بجواتے ہیں اور ملک ہے کہ ان کے شاہانہ انداز کی وجہ سے کھوکھلا ہوگیا ہے۔
چند سیاستدان اپنے گھروں کی تزئین و آرائش اور اپنی خود نمائی کے لیے قوم کا پیسہ اللے تللے برباد کر رہے ہیں۔ لہٰذا اب ایماندار قیادت کی بہت سخت ضرورت ہے۔ کراچی سے لے کر اسلام آباد تک وی آئی پی کلچر کے ہم نوا چند سیاسی حضرات مکافات عمل کا شکار ہیں، مگر وہ اس برائی کو برائی نہیں بلکہ سیاسی انتقام کہتے ہیں۔
کمال کی بات تو یہ ہے کہ جنھوں نے اپنی زندگی کی ابھی 35 بہاریں نہیں دیکھیں وہ ملک کا نظام سنبھالنے کی باتیں کر رہے ہیں، جب کہ ان کے بڑوں نے اس ملک کو کچھ نہیں دیا، چند سیاستدان باریوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی امید پر زندہ ہیں، جس طرح کسی ادارے میں کلرک جب ریٹائر ہوتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی جگہ اس کے بیٹے کو کلرکی دے دی جائے، بالکل اسی طرح یہ سیاستدان بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں کہ ہمارے بعد ہماری اولاد اس ملک کا نظام سنبھالے۔
موروثی سیاست جاری رہے، اگر یہی سوچ رہی تو شاید 2050ء تک بھی ملکی حالات نہیں بدلیں گے۔ آج اس ملک میں حقیقی اپوزیشن والا کردار دفن ہوچکا، فرینڈلی سرکس جاری ہے،کیونکہ موجودہ حکمرانوں کے کئی افراد قومی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ممبران ہیں، یہ کیوں عوامی مسائل حل نہیں کرتے، سب نشان جمہوریت بنے ہوئے ہیں، قوم کے لیے آئین اور جمہوریت سیاست دانوں کے لیے ہے، اس سے بڑا اور کیا المیہ ہوگا۔
وہ بھی کیا دن تھے جو محبت اور ایثار کی اعلیٰ مثال تھے، 16 اکتوبر 1951ء میں پاکستان کے وزیراعظم کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا، آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹروں نے بٹن کاٹ کر شیروانی کو اتارا تو جو سفید قمیض مرحوم نے پہن رکھی تھی اس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے۔ چوہدری محمد علی وزیراعظم تھے، جنھوں نے 1956ء کا دستور دیا تھا، وہ جب وزارت سے الگ ہوئے تو اپنے انجینئر بیٹے کی اقامت گاہ میں سادہ سے فلیٹ میں قیام کیا اور اپنے گھر کی تعمیر کے لیے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے قرضہ لیا۔
وزیراعظم پاکستان حسین شہید سہروردی کا بیرون ملک انتقال ہوا، ان کی صاحبزادی اختر سلیمان جب میت لے کر پاکستان آئیں تو لکھم ہاؤس کی بالائی منزل پر ان کی میت رکھی گئی، تدفین کے لیے ڈھاکا جانا تھا تو اس فیملی کے لیے چار ٹکٹوں کے پیسے نہیں تھے۔ ان درویش صفت وزرائے اعظم کی داستان لکھتے ہوئے دل دکھتا ہے۔
یہ وہ وزرائے اعظم تھے جنھیں اپنے اہل خانہ کے لیے ٹیکسٹائل ملز، شوگر ملز، لوہے، مرغیوں اور انڈوں کے کاروبار کی حرص نہیں تھی۔ ان چند سیاستدانوں کی وجہ سے پہلے غریبوں کی تعداد ایک کروڑ 75 لاکھ تھی، جو بڑھ کر 6 کروڑ ہوگئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ یہ عوام کی سراسر توہین ہے۔ سیاستدان 'سب اچھا ہے' کے تحت اپنی من مانیاں کر رہے ہیں، اور ان کی گراں قدر خدمات کی لالٹینیں ہر وقت جلتی رہتی ہیں۔