پولیس کوئٹہ سے اغوا کی گئی 2غیرملکی خواتین کا سراغ لگانے میں ناکام

اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ملزمان پیشہ ور اغوا کار ہیں یا ان کا تعلق کسی شدت پسند گروپ سے ہے، صوبائی وزیر داخلہ


AFP March 14, 2013
صوبائی وزیر داخلہ اکبر حسین درانی نے کہا کہ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ملزمان پیشہ ور اغوا کار ہیں یا ان کا تعلق کسی شدت پسند گروپ سے ہے۔ فوٹو: ایکسپریس/ فائل

بلوچستان کے علاقے کوئٹہ سے اغوا کی گئی 2 غیرملکی خواتین کو اب تک صوبائی حکومت اور پولیس بازیاب نہیں کروا سکی اور نہ ہی کسی اغوا کار کا سراغ لگ سکا۔

دونوں خواتین کا تعلق جمہوریہ چیک سے ہے اور انہیں گن پوائنٹ پر کوئٹہ سے اغوا کیا گیا، خواتین ایران کے راستے پاکستان آئیں اور انہیں بدھ کے روز اغواکرلیا گیا۔

واقعے کے حوالے سے صوبائی وزیر داخلہ اکبر حسین درانی نے کہا کہ اغوا کے بعد سے علاقے کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری طرح سے الرٹ ہیں اور اغوا کاروں کی تلاش جاری ہے، انہوں نے کہا کہ پولیس اور لیویز اہلکاروں نے افغان سرحد تک پورے علاقے میں اغوا کاروں کی تلاش کی مگر ان کا کوئی سراغ نہیں لگ سکا۔ صوبائی وزیر داخلہ اکبر حسین درانی نے کہا کہ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ملزمان پیشہ ور اغوا کار ہیں یا ان کا تعلق کسی شدت پسند گروپ سے ہے۔

بلوچستان میں مقامی اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کا اغوا معمول کی کارروائی بن چکا ہے۔ سال 2011 میں صوبہ بلوچستان سے ایک سوئس جوڑے کا اغوا کیا گیا جنہیں طالبان نے 8 ماہ یرغمال بنائے رکھا، دونوں کو مارچ 2012 میں باحفاظت بازیاب کرا لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد اپریل 2012 میں برطانیہ کے ادارے ریڈ کراس کے کارکن ڈاکٹر خلیل ڈيل کو اغوا کے 4 ماہ بعد قتل کر دیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں