بنگلہ دیش میں نظریاتی لڑائی
ایسا لگتا ہے کہ ملک نے اپنے جن آدرشوں اور جذبوں کو ترک کر دیا تھا۔
ISLAMABAD:
تقسیم ہند سے قبل جب میں اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں رہا کرتا تھا تب انڈیا کے نقشے پر ڈھاکا ایک بہت دور افتادہ نکتہ تھا، تقسیم نے مجھے دہلی دھکیل دیا اور یوں ڈھاکا قریب آ گیا اور جونہی ڈھاکا بنگلہ دیش کا دارالحکومت بن گیا تو میں نے فوراً ہی وہاں کے لیے پرواز پکڑ لی۔
وہاں میں نے بنگالیوں کے منہ سے پہلی بار جئے بنگلہ کا نعرہ سنا۔ یا یہ ان کی مناجات تھی جو گھر واپس جاتے ہوئے بوسیدہ حال بنگالی باآواز بلند گارہے تھے۔ ڈھاکا کا ہوائی اڈہ مسافروں کے سامان سے بھرا ہوا تھا۔ امیگریشن ڈیسکوں پر طویل قطاریں لگی تھیں جس سے لائونج بے ترتیب لگ رہا تھا لیکن اس کے باوجود ہر چہرے پر امید کی ایک چمک تھی اور اس عزم کا غالب احساس کہ آزادی کو بامعنی بنایا جائے گا۔
یہ تقریباً 40 سال پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد میں جب بھی ڈھاکا گیا، میں نے یہی جذبہ تلاش کرنے کی کوشش کی، اب مجھے محسوس ہوا ہے کہ وہ جذبہ پھر واپس آ رہا ہے۔ اس ملک کے 180 ملین (18کروڑ) عوام اسی احساس تفاخر کو محسوس کرتے اور بڑے فخر سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے اندر جو مثالیت پسندی موجود تھی، وہ معدوم نہیں ہوئی۔ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری ہنگاموں میں انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بنیاد پرستی کے خلاف ان کی لڑائی جاری ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ملک نے اپنے جن آدرشوں اور جذبوں کو ترک کر دیا تھا، اب پھر واپس سیدھے راستے پر آ رہا ہے۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی طرف سے سیکولرازم کی مخالفت تو قابل فہم ہے تاہم ملک کی لبرل پالیسی کے خلاف تشدد کا استعمال غلط ہے۔بنگالیوں کی جدوجہد آزادی اصل میں مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان پر نو آبادیاتی طرز کی حکمرانی کے خلاف احتجاج تھا ۔ اس سے دو قومی نظریے پر زد پڑتی تھی۔ جب بنگلہ دیش آزاد ہو گیا تو پاکستان سے بنگالی آبادی اس کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ محض مذہب کی بنیاد پر قومیں تشکیل نہیں پاتیں۔ یوں دیکھا جائے تو ہندوئوں اور مسلمانوں کو ان کے عقائد کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوششیںبے سود ہیں۔بنگلہ دیشی عوام اپنے تین بنیادی مطالبات سے دستبردار نہیں ہو سکتے کہ 1971ء کی جدوجہد آزادی کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔ جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاتر شویر پر پابندی لگائی جائے اور تیسرا یہ کہ جماعت کے زیر کنٹرول تمام کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔
1952ء میں ڈھاکا یونیورسٹی کے سات نوجوان طلبہ گولی لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ وہ اردو کو لازمی زبان کا درجہ دینے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ 21 فروری 1952ء کو شاہ باغ چوک کے مقام پر یہ تصادم ہوا جس کے لیے ابھی مناسب وقت نہیں آیا تھا۔ چنانچہ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے، جو بنگلہ دیش کے بانی اور عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ شیخ کے والد تھے، پاکستان کے مشرقی حصے کو مشرقی بنگال کہنا شروع کر دیا تھا اور آج بے شک یہ بنگلہ دیش ہے۔ انھوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ پاکستان اردو زبان کے بجائے بنگلہ دیش کو ترک کرنے کو ترجیح دے گا۔
اور ہوا بھی بالکل یہی۔ قوم کو اس بات کا احساس کرنے میں چند سال لگ گئے کہ اس وقت تک سیکولرازم اور آزاد خیالی کی روح قائم نہیں رہ سکتی جب تک آزادی کے نام پر طاقت کا غلط استعمال کرنے والوں کو سزا نہ دی جائے۔ لیکن وہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے اصل لوگ ہی نہیں تھے۔ اس تحریک کی قیادت کا اصل سہرا نوجوانوں کے سر بندھتا ہے۔ انھوں نے اپنے لوگوں کو حقیقت کا آئینہ دیکھنے پر مجبور کیا تا کہ وہ اصل مجاہدین آزادی کو پہچان سکیں جنھیں ایک طرف دھکیل دیا گیا تھا، حالانکہ آزادی کا اصل فائدہ انھی کو پہنچنا چاہیے تھا۔ اس عمل کے دوران آزادی کے مخالفین اقتدار میں آ گئے اور معاشرے میں اجتماعیت پیدا کرنے کے اصلی عزم کو مذہب سے خلط ملط کر دیا گیا۔ بالکل ویسے ہی جس طرح بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی خالدہ ضیاء اور جماعت نے کیا۔
نوجوانوں نے ملک کو احساس دلایا کہ جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت کی، اپنے عوام کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا، انھیں لازماً آزادی کے مجاہدوں سے الگ کیا جانا چاہیے۔ ان کے نزدیک سیاست' معیشت اور معاشرے کو انتہا پسندوںکی مضبوط گرفت سے آزاد کرنا ضروری ہے۔ تاہم اس موقع پر یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ شاہ باغ چوک میں جمع ہونے والے صرف یہ نوجوان ہی نہیں ہیں، ان کے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ ہوتے ہیں مگر اصل اہمیت انھی کی ہے۔ تاہم اس صورتحال کی تفہیم اتنی آسان نہیں ہے، بالخصوص جب بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کے پاس مالی وسائل ہوں اور بنگلہ دیش کی اکلوتی اپوزیشن بی این پی بھی بنیاد پرستوں کی قربت اختیار کر رہی ہو۔
اس پس منظر میں یہ فطری بات تھی کہ بیگم خالدہ ضیاء گزشتہ ہفتے ڈھاکا کا دورہ کرنے والے بھارتی صدر پرناب مکھرجی کے ساتھ اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دیتیں۔ غالباًخالدہ بھارت کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ بنیاد پرستوں کے خلاف لڑائی کو بھارت نے تحریک دی ہے۔ اگرچہ یہ دلیل بہت کمزور ہے لیکن چونکہ انتخابات میں اب بس چند مہینے ہی رہ گئے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ بنگلہ قوم میں تفریق پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔لیکن ان دونوں کو جس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ بھارت کی طرف سے اس صورت حال کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی۔ بنگلہ دیش اپنی شناخت کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ وہ شناخت جس کے لیے اس نے آزادی کی جنگ لڑی۔
اس سارے تناظر میں خود ہمارے (یعنی بھارت کے) لیے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے کہ ہم بھی اجتماعیت اور جمہوریت کے لیے اپنے عزم کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ انتخابی سیاست اور ووٹ بینک پالیسی نے فرقہ واریت' ذات پات اور مذہبی تفریق کو نمایاں کر دیا ہے۔ ہم نے ایودھیا میں بابری مسجد منہدم کر دی اور 1984ء میں دہلی میں سکھوں کا جب کہ 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہم نے عملی طور پر اجتماعیت اور جمہوریت کی اساس پر تعمیر کیے جانے والے معاشرے کو تباہ کر دیا جس کا خواب ہمارے آبائو اجداد نے دیکھا تھا۔ کیا اب بھی ہم اس راستے پر واپس آ سکتے ہیں؟
بنگلہ دیش اپنے مقصد میں پر عزم نظر آتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے خسارے کا احساس تک نہیں ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)