ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث ملزم کا جسمانی ریمانڈ

ملزم کو سعید آباد سے مقابلے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، تحریک طالبان پنجابی کراچی کے امیر کو ضمانت پر رہا کردیا گیا

ملزم کو سعید آباد سے مقابلے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، تحریک طالبان پنجابی کراچی کے امیر کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ فائل فوٹو

LONDON:
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر اقبال احمد خواجہ نے آتش گیر مواد ، اسلحہ ، گولابارود رکھنے کے الزامات میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پنجابی کراچی کے امیر محمد عرفان خان عرف امیر معاویہ کو وکیل ناصر احمد ایڈووکیٹ کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد50ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کردیا ہے۔

وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ اس کے موکل کو22دسمبر کو اس کے گھر سے غیرقانونی حراست میں لیا تھا، اس موقع پر اس کے اہل خانہ نے سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں کو ڈاکو سمجھا تھا اور واقعے کی فوری شکایات 15کو کی تھی تاہم پولیس نے 31دسمبر کو اسکی گرفتاری ظاہر کی تھی جبکہ کیس پراپرٹی 19روز کی تاخیر سے لیبارٹری کو ارسال کی جس سے پولیس کی بدنیتی ظاہر ہوگئی۔

اس موقع پر تفتیشی افسر عدالت کو مطمئن کرنے میں مکمل ناکام رہے اور سرکاری وکیل بھی بے بسی کا اظہار کرتے رہے، استغاثہ کے مطابق سی آئی ڈی نے گرفتار کرکے ملزم کے قبضے سے دس کلو آتش گیر مواد ، پانچ راکٹ لانچرکلاشنکوف اور دیگر سامان برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ غربی پیر اسد اﷲ شاہ راشدی سمیت دیگر عدالتوں نے ٹارگٹ کلنگ کی متعدد وارداتوں میں ملوث جاوید عرف فیصل احمد کو 10اگست تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیدیا۔


ملزم کو ایس آئی یو نے سعید آباد سے مقابلے کے بعد گرفتار کرکے اسکے قبضے سے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کیا تھا، دوران تفتیش ملزم نے متعدد ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا اعتراف کیا ہے، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جوڈیشل کمپلیکس جاوید احمد کیریو نے ایک ہی خاندان کے5افراد کے قتل میں ملوث مقتولین کے ڈرائیور محمد اسحاق کے مقدمے کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں منتقل کرنے سے متعلق دائر درخواست پر طرفین وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، قبل ازیں مدعی کے وکیل نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ملزم پر فرد جرم عائد نہ کی جائے۔

کیونکہ پولیس نے مقدمے میں دہشت گردی کی ایکٹ 7/ATAکا اضافہ نہیں کیا، واقعے سے علاقے میں خوف ہراس پھیل گیا تھا اور ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو سفاکی سے قتل کیا گیا ہے، قتل کی واردات دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے، درخواست میں مقدمے کو دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کرنے کی استدعا کی تھی، سماعت کے موقع پر وکیل سرکار نے مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کرنے کی مخالفت کی اور اپنے دلائل میں کہا ہے کہ واقع اتفاقیہ رونما ہوا ہے۔

کیونکہ ملزم ڈکیتی کے نیت سے داخل ہوا تھا اور مقتولین کے جاگنے پر ملزم نے انھیں قتل کردیا تھا تاکہ اسکی شناخت نہ ہوسکے، مقدمہ کسی بھی زاویے سے دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا، اس موقع پر وکیل صفائی محمد جیوانی عدالت میں موجود تھے، انھوں نے بھی مقدمے کی منتقلی کی مخالفت کی تاہم عدالت نے وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Load Next Story