انتخابات معیشت اور دہشت گرد

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون عباس ٹاؤن اور بادامی باغ کے واقعے کا نوٹس لے رہے ہیں


Anis Baqar March 14, 2013
[email protected]

1970 کے انتخابات جو یحییٰ خان نے کرائے تھے، صاف شفاف اور ہر قسم کے دباؤ کے بغیر ہوئے تھے جس کی نظیر پاکستان میں نہیں ملتی اس انتخاب میں عوام کی اکثریت نے ووٹ ڈالے تھے ورنہ پاکستان میں بعدازاں جو بھی انتخاب ہوئے ان میں ووٹوں کی اوسط 50 فیصد تو کجا ہمیشہ روبہ زوال رہی، 60 فیصد کے بعد 40 , 45 اور پھر 35 اور اس سے بھی کم رہی کیونکہ عوام کو معلوم تھا نتیجہ وہ کچھ بھی کرلیں وہی آئے گا جو اہل ثروت اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ چاہتا ہے۔

وہ ایک الگ قضیہ ہے کہ 1970 کے انتخابات کے نتائج چونکہ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے تسلیم نہ کیے اور سیاست دانوں نے فوج کو اکسا کر مشرقی پاکستان کے عوام کے خلاف استعمال کیا۔ مجھے انتخاب کے بعد 1971 کا وہ دن یاد ہے، تاریخ یاد نہیں جب شیخ مجیب الرحمٰن کو نیشنل عوامی پارٹی کراچی کے صدر انیس ہاشمی مرحوم نے مدعو کیا تھا کہ وہ تقریر کریں، گوکہ انیس ہاشمی کو اس جلسے کو منعقد کرنے میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ مغربی پاکستان کی پارٹیوں اور لیڈروں پر تنقید کرتے تھے تو کبھی کبھی اسٹیج پر جوتیاں بھی گرتی تھیں مگر وہ اپنی تقریر کو جاری رکھے ہوتے تھے۔

شیخ مجیب الرحمٰن نے تقریباً 45 منٹ تقریر کی، وہ بھی اردو زبان میں تھی اور مغربی پاکستان کے حاکموں کی سیاہ کاریوں سے پردہ اٹھاتے رہے۔ انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح بمقابلہ ایوب خان کے انتخابات کا تذکرہ کیا کہ کس طرح محترمہ فاطمہ جناح کو ایک ایسے انتخاب میں شکست دی گئی جس کا نام بنیادی جمہوریت رکھا گیا تھا، جس کی بنیاد سے جمہوریت کا چراغ گل کردیا گیا تھا اور شب و روز یہ تماشا جاری رہتا تھا کہ کس طرح مشرقی پاکستان کے عوام پر غلبہ حاصل کیا جائے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے جلسے میں بنگالی بولنے والے طلبا جو جامعہ کراچی اور دیگر کالجوں میں زیر تعلیم تھے ان کی بھی کثیر تعداد موجود تھی، خصوصاً ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین کے طلبا بھی موجود تھے مگر جلسہ گاہ میں اردو بولنے والے طلبا کم تھے ماسوائے ان کے جو خود کو انقلابی کہتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب طلبا یونین این ایس ایف میں بھی دراڑ پڑگئی تھی کیونکہ این ایس ایف میں پیپلزپارٹی سے ہمدردی رکھنے والے ارکان بھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔ جب بھی سال کے آخری ماہ گزرتے ہیں تو یہ سانحہ پھر سے آنکھوں میں گھر کرلیتا ہے۔ غرض 1970 کے انتخابات کے بعد 2013 کے انتخابات جس طرح اب نظروں میں گھوم رہے ہیں، تشویش میں اضافہ کررہے ہیں۔ حالانکہ 1970 میں نہ گولی چلتی تھی نہ لاشیں گرتی تھیں، اگر شہر میں کوئی واردات ہوتی تھی تو وہ چاقو زنی کی، لوگ گھروں سے باہر رات کو خصوصاً گرمیوں میں سوتے تھے، گھر کی باؤنڈری وال نیچی ہوتی تھی نہ چوری، نہ اغوا اور نہ قتل تھا۔ کراچی میں بنگالیوں کی کثیر تعداد رہتی تھی، جن میں گورنمنٹ ملازمین بھی شامل تھے۔

نیوی کے افسران اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے علاوہ گنے کا رس فروخت کرنے والے، ناریل کے درختوں پر چڑھ کر ناریل توڑنا بھی انھی بنگالیوں کا پیشہ تھا، بنگالیوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی، بنگالی گئے اور پھر افغانی آئے، سیاست کچھ یوں بدلی اور ہمارے رہنماؤں نے سیاست کی وہ بازی کھیلی جس میں نہ صرف امریکا کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے بلکہ خلیجی ریاستیں اور بعض عرب ممالک بھی پیش پیش تھے ۔ بیلیٹ (Ballet) کی سیاست ہوئی الوداع، اور خوش آمدید کہا ہم نے بلٹ (Bullet) کی سیاست کو۔

اور اب یہ ایسی در آئی کہ مانگتا ہے ہر گھر دہائی، اجڑی گودیں، جلتے گھر بنے ملبے کے ڈھیر، اب یہ جنگ در در پر ہورہی ہے، بے گناہوں کا خون ارزاں ہے، نفاذ قانون کے محافظ خود یونیفارم میں خون آلود ہیں، کس کو روئیں کس کو سمجھائیں کہ یہ کوسوو یا بوسنیا نہیں یہ ہمارا پاکستان ہے۔ تو پھر یہاں یہ بے لگام شورش کیوں برپا ہے، آخر ہر چیز کی کوئی وجہ ہوتی ہے، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، ہر کس و ناکس پہ کیوں ضرب کاری ہے۔

شہر کراچی میں آج رینجرز کے ترجمان کا یہ بیان کہ جو لوگ جرائم میں ملوث ہیں ان کی سیاسی وابستگی ہے اور کالعدم تنظیموں سے ان کی وابستگی ہے،چشم کشا ہے، اب یہ زیرلب گفتگو منظر عام پر آگئی ہے، مگر کیونکر کوئی اٹھے اور فیصلہ کن وار کرے کہ یہ بے لگام جمہورکش لوگ جمہوریت کے نعروں کے درمیان دن میں شب خون مارتے ہیں، یہ اصطلاح ختم ہوئی کہ شب خون رات کی تاریکی میں مارا جاتا تھا، روشن صبح کی پیشانی ہوئی جاتی ہے داغ دار اور لگ رہے ہیں لاشوں کے انبار، ہر روز یہی روش ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون عباس ٹاؤن اور بادامی باغ کے واقعے کا نوٹس لے رہے ہیں، اگر یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی لہو لہو ہوتے رہے تو پھر کون بچائے گا عوام کو، اور ملک کو؟ تو پھر ایسے ملک کے لیے اقوام متحدہ کیا فیصلہ کرے گی؟ چیف جسٹس کے بیان اور ازخود نوٹس کے فیصلوں پر عمل درآمد کب ہوگا اور کون کرے گا؟ یہ سوال اب مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں مگر میڈیا اور حکمرانوں کے رفقا کو مدح سرائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا، گیس پائپ لائن، ایران اور پاکستان کی یہ پائپ لائن تو برسوں پہلے طے ہونی تھی، تاخیر پر استفسار کے بجائے شادیانے بجائے جارہے ہیں۔

امریکا کو اس پائپ لائن پر کوئی اہم تشویش ہرگز نہیں کیونکہ جیساکہ پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں، امریکا اپنی مصنوعات چین میں بنوارہا ہے، وہاں مزید توانائی درکار ہے اس لیے اس کو کوئی پروا نہیں، البتہ اس پائپ لائن پر جو اخراجات پاکستان کو کرنے ہیں اس کی سبیل کیا ہوگی؟ غیرملکی نشریات میں بھی پاکستان کی جانب سے سرمایہ کاری کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، اگر پاکستان کو امریکا سختی سے روک دیتا تو پھر معاملہ ایسا ہی ہوتا جیساکہ ڈرون حملوں کا مسئلہ۔ اس میں کوئی شک نہیں اس بات کا امکان ہے کہ بعض خلیجی ممالک یا بعض عرب ریاستوں کو معمولی تشویش ہوسکتی ہے مگر توانائی کا حصول ملک کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔

پاکستان میں بوائلر لکڑی کی آگ سے بھاپ بنارہے ہیں اور گارمنٹ انڈسٹری دم مرگ ہے لہٰذا امریکا یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ پاکستان اس پوزیشن میں آجائے کہ اس کے قرضے ادا نہ کرسکے اور ایک ایسی انقلابی تحریک جنم لے جیسی تحریک لاطینی امریکا کے ممالک میں چل رہی ہے اور وینزویلا کے قسم کی حکومتیں ایشیا میں جنم لیں۔ غریب و امیر کا فرق تو وسیع تر ہوتا جارہا ہے جو انقلاب کا پہلا ایندھن ہے، توانائی کے بحران نے عوام کو ملازمتوں سے محروم کردیا ہے، خصوصاً کم آمدنی والا طبقہ، ایک طرف ملک میں 8 لاکھ، 6 لاکھ اور 5 لاکھ ماہانہ پانے والا طبقہ ابھر رہا ہے اور ایک بہت بڑا طبقہ 8 ہزار، 6 ہزار، 10 اور پندرہ ہزار ماہانہ والا، تصادم کے لیے ہر طرف راہیں ہموار ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے جو طبقہ جرائم میں مبتلا ہے وہ عزائم بلند ضرور رکھتا ہے مگر ذہنی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے امیروں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔

لہٰذا نظام کو بدلنے کے لیے لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انتخاب سے عوام کے مسئلے حل ہوں گے، ہرگز نہیں۔ یہ تضاد اور بڑھے گا کیونکہ غریب گمراہ کن ہاتھوں میں چلا جارہا ہے، غربت کی لکیر ہاتھوں سے نکل کر دماغوں میں بیٹھتی جارہی ہے اور جیسے ہی کوئی انقلابی ان گمراہ لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائے گا کہ تمہارے دشمن مختلف عقائد رکھنے والے لوگ نہیں بلکہ تمہارے دشمن تو تمہارے مسالک کے لوگ ہیں جو دوست کو دشمن کہہ کر تمہیں گمراہ کر رہے ہیں، بے روزگاری اور مسائل خودکشی اور مردم کشی کی طرف دھکیل رہے ہیں، قیادت کی کمی روزگار کی کمی تنگ دستی بہت ہی موذی مرض ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم ضرور اٹھیں گے ارض پاک سے اور حالات بدل کے رکھیں گے، ہم ہوں نہ ہوں امید کا چراغ جلتا رہے گا، ابھی ایک ہلکی سی روشنی نظر آئی ہے، انتخابی اصلاحات کی شکل میں جو لوگ خود ٹیکس چور ہیں وہ قانون ساز ادارے چلا رہے ہیں، الیکشن کمیشن میں 62/63 اور قانون کی شق 2/8 کا تیز دھار والا استرا فخرو بھائی نے استعمال کیا ہے الیکشن کمیشن کی پرچیاں چھپنے لگی ہیں۔

اب دیکھیں عوام پر وار کرنے والے صیاد خود اپنے دام میں آچکے ہیں، تصادم کی یہ خلیج مزید وسیع ہورہی ہے اور عوام کی امنگیں امید کی کرن لے کر نکلیں گی، امید ہے کہ اگر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے اگر موجودہ درخواستیں انھی اصولوں پر جانچی گئیں تو مطلع صاف ہوجائے گا اور چند انتخابات کے بعد مک مکا گروپ ناپید ہوجائے گا کیونکہ جرائم کو محض خوف سے ختم کرنا ممکن نہیں، جرائم کے خاتمے کے لیے بہتر روزگار، تعلیم کے زیورات سے قوم کو آراستہ کرنا ہوگا، جام صحت پلانا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں