پیغمبر اسلامؐ کی تعلیمات…
یہ وہ اہم بات ہے جو پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کے لوگوں کو بار بار واضح کرنی پڑتی ہے
بادامی باغ لاہور میں مسیحی برادری کی بستی جوزف کالونی؎ میں توہین رسالت کے مبینہ واقعے پر ہزاروں مشتعل افراد نے پوری بستی کو آگ لگادی اور توڑ پھوڑ کی، مظاہرین کے پتھرائو کے باعث پولیس افسران سمیت متعدد اہلکار زخمی ہوگئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ہنگامہ آرائی کی آڑ میں بعض افراد لوٹ مار بھی کرتے رہے۔ مشتعل مظاہرین نے مکانوں اور دکانوں کے ساتھ ایک چرچ کو بھی آگ لگادی۔ پورے ملک میں اس واقعے کے خلاف احتجاج اور مذمت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔
حکومت پنجاب کی طرف سے متاثرین کے لیے ریلیف کیمپ بنادیے گئے ہیں اور تباہ شدہ گھروں کی ازسرنو تعمیر و مرمت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے واقعے میں ملوث شرپسند عناصر کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں۔ جہاں تک توہین رسالت کی بات ہے تو بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران گستاخی رسولﷺ کے واقعات میں آزادی رائے کے نام پر اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمانوں کو حضور نبی کریم ﷺ اپنی جان، والدین اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔
یہ وہ اہم بات ہے جو پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کے لوگوں کو بار بار واضح کرنی پڑتی ہے، جس میں اگر فوری دادرسی یا تلافی نہ کی جائے تو احتجاج اور عوامی طریقہ کار میں شدت کا عنصر نمایاں ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ قوم تشدد سے اجتناب کرتے ہوئے دنیا کو اپنے جذبات کی مجروحی سے آگاہ کرے کیونکہ جس طرح کا متشدد اظہار عام طور پر ایسے مذموم واقعات کے رونما ہونے پر دیکھنے میں آتا ہے وہ حضور نبی کریم ﷺ سے عقیدت کے تقاضوں سے ہرگز ہرگز ہم آہنگ نہیں ہوتا۔
ہمارے نبی ﷺ نے بددعا کے جواب میں دعا دی، حسن اخلاق سے بگڑے ہوئوں کو سدھارا، سختی کے جواب میں نرمی کی روش کو اختیار کیا، جو یہودی عورت ہمارے نبی ﷺ پر بلاناغہ گھر کا سارا کچرا پھینکا کرتی تھی، ایک روز بیماری کے باعث کچرا نہ پھینک سکی تو ہمارے نبی ﷺ نے اس کے ناغے کی بابت لوگوں سے دریافت فرمایا، معلوم ہوا وہ عورت بیمار ہے تو ہمارے پیارے نبی ﷺ اس یہودی عورت کی عیادت کے لیے پھل لے کر گئے۔
حسن اخلاق کے اس بے مثال مظاہرے نے اس یہودی عورت کو اتنا شرمندہ و متاثر کیا کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ ہمارے نبی ﷺ جب کوئی جنگی مہم روانہ فرماتے تو سپہ سالار کو تلقین فرماتے کہ عورتوں، بچوں کو قتل مت کرنا، جو تمہارے مقابلے پر نہ آئے اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اس سے مخاصمت مت کرنا، سرسبز پودوں اور پھل دار درختوں کو مت کاٹنا۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ کبھی ایک گستاخ کے فعل کی سزا اپنے ہی پیارے ملک کی عمارتوں، بینکوں، پٹرول پمپوں اور ہم وطنوں کے املاک کو نقصان پہنچا کر دی جاتی ہے تو کبھی غیرمذاہب کے امن پسند شہریوں کو ان کے گھر اور قیمتی املاک نذر آتش کرکے۔ احتجاج سب کا حق ہے مگر ساتھ ساتھ پرامن احتجاج میں شرپسند عناصرپر بھی کڑی نظر رکھنا ضروری ہے جو ایسے ہی مواقعوں کی تاک میں رہتے ہیں اور شرپسندی و جلائو گھیرائو کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سانحہ بادامی باغ لاہور میں بھی شرپسند اپنا ہولناک کھیل، کھیل گئے۔ پوری مسیحی بستی تاراج کردی گئی۔ گھروں کو آگ لگادی گئی۔
بلاشبہ یہ کام مسلمانوں کا نہیں بلکہ ان دہشت گرد اور شرپسند عناصر کا ہے جو وطن عزیز کی جڑیں کاٹنے کی تگ و دو میں ہیں، جن کا کوئی مذہب و مسلک نہیں، یہ وہ عناصر ہیں جو اس ملک کو انتشار میں دیکھنا چاہتے ہیں، جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں۔ اخبارات میں لوٹ مار اور غارت گری کی جو تفصیلات شایع ہوئی ہیں اور ٹیلیویژن جو کچھ دکھا رہے ہیں اس سے پاکستان ایک ایسی ریاست کی منظر کشی کررہا ہے جہاں حکومت و قانون نام کی کوئی چیز نہیں، قانون شکن اور شرپسند عناصر جس عمارت اور گھر کو جب چاہیں جیسے چاہیں جلا دیں، جس دکان کو چاہیں لوٹ لیں۔
یہ صورتحال جہاں حکومت کے لیے باعث تشویش ہے وہیں ان واقعات سے ہر امن پسند، محب وطن پاکستانی بھی پریشان ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا امیج بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ سانحہ بادامی باغ پر ہر کوئی اپنی دکان چمکا رہا ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے اور ملکی جماعتوں کو لگتا ہے کہ یہ وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بہترین ہے۔ دوسری طرف جو گھر سے بے گھر ہوئے ہیں ان کی دادرسی اور ان کے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے کچھوے کی چال جیسے حکومتی سیاسی اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔
گھروں کی دوبارہ تعمیر و امدادی رقوم کی تقسیم کے اعلانات اور واقعے کے ذمے داران کے خلاف سخت سے سخت کارروائی جیسے دعوے عملی صورت میں ظاہر ہونے سے تاحال محروم ہیں۔ سیاسی جماعتیں فی الحال ایک دوسرے پر الزام تراشی کی دیرینہ رسم کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ ادھر سے فرصت ہو تو کچھ ادراک اصل محرکات کا کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ توہین رسالت کے ان پے در پے مذموم واقعات کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں جو اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے میں پہل کرتے ہیں۔
جب تک حکومت سنجیدگی اور جذبہ ایمانی کے ساتھ ساری دنیا کو یہ باور نہیں کرائے گی کہ قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی تب تک ایسے مناظر و مظاہرے دیکھنے کو ملتے رہیں گے جن میں پرامن عاشقان رسول ﷺ کی آڑ لے کر دہشت گرد اور شرپسند عناصر اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے اور پاکستان کا چہرہ مسخ کیا جاتا رہے گا۔ وسیع پیمانے پر گھروں کو جلایا اور تباہ کیا جانا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہوش و خرد سے کام لیا جائے، بے لگام جذباتیت سے اجتناب برتا جائے۔ بلاشبہ یہ معاملہ جذبات کا ہے لیکن جذبات کا اظہار بھی درست طریقے سے کیا جانا ضروری ہے۔
سانحہ بادامی باغ سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ کو سپریم کورٹ نے یکسر مسترد کردیا ہے اور آبزرویشن میں واضح کیا ہے کہ پولیس بوجہ غفلت و نااہلی اس واقعے میں برابر کی شریک ہے۔ توہین رسالت کا وطن عزیز میں قانون تو موجود ہے مگر اس سنگین جرم کے مرتکب ملعونوں اور شاتمین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں پولیس ماضی میں بھی ناکام رہی ہے اور اب بھی ناکام ہی دکھائی دیتی ہے۔ 177 گھروں اور 16 دکانوں کو نذرآتش کردینے کا مطلب ہے اتنے ہی خاندانوں پر بھوک، پیاس اور افلاس کے پہاڑ توڑ دینا، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس واقعے کو قومی سانحہ قرار دینا کافی نہیں ہے، متاثرین کی مکمل امداد و بحالی اور ریلیف کے کاموں کو ہنگامی بنیادوں پر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایسے واقعات کی وجوہات جاننے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیے جائیں بلکہ آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی بھی کی جائے۔ اقلیتوں کا تحفظ نہایت اہم ہے جس کا درس ہمیں اپنی تعلیمات میں بھی ملتا ہے۔ ہمیں دنیا کو اپنا امن پسندانہ کردار دکھانا ہے نہ کہ متشدد روپ۔ مغربی دنیا پہلے ہی کئی واقعات کو جواز بنا کر مسلمانوں کو شدت پسند، دہشت گرد، بنیاد پرست اور نجانے کیا کیا القابات سے شہرت دیتی آرہی ہے، اس پر اس طرح کے واقعات کے بعد ہمارا عدم برداشت کا رویہ مغربی دنیا کے منفی پراپیگنڈے کو سچ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔
تمام تر منفی پراپیگنڈے کے باوجود پاکستانی قوم ساری دنیا میں مختلف کارہائے نمایاں کی بدولت اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے، اور ہمیں اپنی پہچان کو برقرار رکھنا ہے۔ اپنی صفوں میں گھسے ہوئے شرپسند عناصر کو نکال باہر کرنا ہے تاکہ کوئی ہمارا امن پسندانہ تشخص تباہ نہ کرسکے۔ مساوات، برداشت اور حسن اخلاق کے اسباق ہم کو ہمارے نبی ﷺ بہت احسن انداز میں تعلیم فرماگئے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم بھی دنیا کے ساتھ معاملت اختیار کرنے میں ان ہی تعلیمات کا سہارا لیں نہ کہ عدم برداشت اور تشدد کی لہروں میں بہہ جائیں۔
حکومت پنجاب کی طرف سے متاثرین کے لیے ریلیف کیمپ بنادیے گئے ہیں اور تباہ شدہ گھروں کی ازسرنو تعمیر و مرمت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے واقعے میں ملوث شرپسند عناصر کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں۔ جہاں تک توہین رسالت کی بات ہے تو بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران گستاخی رسولﷺ کے واقعات میں آزادی رائے کے نام پر اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمانوں کو حضور نبی کریم ﷺ اپنی جان، والدین اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔
یہ وہ اہم بات ہے جو پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کے لوگوں کو بار بار واضح کرنی پڑتی ہے، جس میں اگر فوری دادرسی یا تلافی نہ کی جائے تو احتجاج اور عوامی طریقہ کار میں شدت کا عنصر نمایاں ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ قوم تشدد سے اجتناب کرتے ہوئے دنیا کو اپنے جذبات کی مجروحی سے آگاہ کرے کیونکہ جس طرح کا متشدد اظہار عام طور پر ایسے مذموم واقعات کے رونما ہونے پر دیکھنے میں آتا ہے وہ حضور نبی کریم ﷺ سے عقیدت کے تقاضوں سے ہرگز ہرگز ہم آہنگ نہیں ہوتا۔
ہمارے نبی ﷺ نے بددعا کے جواب میں دعا دی، حسن اخلاق سے بگڑے ہوئوں کو سدھارا، سختی کے جواب میں نرمی کی روش کو اختیار کیا، جو یہودی عورت ہمارے نبی ﷺ پر بلاناغہ گھر کا سارا کچرا پھینکا کرتی تھی، ایک روز بیماری کے باعث کچرا نہ پھینک سکی تو ہمارے نبی ﷺ نے اس کے ناغے کی بابت لوگوں سے دریافت فرمایا، معلوم ہوا وہ عورت بیمار ہے تو ہمارے پیارے نبی ﷺ اس یہودی عورت کی عیادت کے لیے پھل لے کر گئے۔
حسن اخلاق کے اس بے مثال مظاہرے نے اس یہودی عورت کو اتنا شرمندہ و متاثر کیا کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ ہمارے نبی ﷺ جب کوئی جنگی مہم روانہ فرماتے تو سپہ سالار کو تلقین فرماتے کہ عورتوں، بچوں کو قتل مت کرنا، جو تمہارے مقابلے پر نہ آئے اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اس سے مخاصمت مت کرنا، سرسبز پودوں اور پھل دار درختوں کو مت کاٹنا۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ کبھی ایک گستاخ کے فعل کی سزا اپنے ہی پیارے ملک کی عمارتوں، بینکوں، پٹرول پمپوں اور ہم وطنوں کے املاک کو نقصان پہنچا کر دی جاتی ہے تو کبھی غیرمذاہب کے امن پسند شہریوں کو ان کے گھر اور قیمتی املاک نذر آتش کرکے۔ احتجاج سب کا حق ہے مگر ساتھ ساتھ پرامن احتجاج میں شرپسند عناصرپر بھی کڑی نظر رکھنا ضروری ہے جو ایسے ہی مواقعوں کی تاک میں رہتے ہیں اور شرپسندی و جلائو گھیرائو کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سانحہ بادامی باغ لاہور میں بھی شرپسند اپنا ہولناک کھیل، کھیل گئے۔ پوری مسیحی بستی تاراج کردی گئی۔ گھروں کو آگ لگادی گئی۔
بلاشبہ یہ کام مسلمانوں کا نہیں بلکہ ان دہشت گرد اور شرپسند عناصر کا ہے جو وطن عزیز کی جڑیں کاٹنے کی تگ و دو میں ہیں، جن کا کوئی مذہب و مسلک نہیں، یہ وہ عناصر ہیں جو اس ملک کو انتشار میں دیکھنا چاہتے ہیں، جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں۔ اخبارات میں لوٹ مار اور غارت گری کی جو تفصیلات شایع ہوئی ہیں اور ٹیلیویژن جو کچھ دکھا رہے ہیں اس سے پاکستان ایک ایسی ریاست کی منظر کشی کررہا ہے جہاں حکومت و قانون نام کی کوئی چیز نہیں، قانون شکن اور شرپسند عناصر جس عمارت اور گھر کو جب چاہیں جیسے چاہیں جلا دیں، جس دکان کو چاہیں لوٹ لیں۔
یہ صورتحال جہاں حکومت کے لیے باعث تشویش ہے وہیں ان واقعات سے ہر امن پسند، محب وطن پاکستانی بھی پریشان ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا امیج بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ سانحہ بادامی باغ پر ہر کوئی اپنی دکان چمکا رہا ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے اور ملکی جماعتوں کو لگتا ہے کہ یہ وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بہترین ہے۔ دوسری طرف جو گھر سے بے گھر ہوئے ہیں ان کی دادرسی اور ان کے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے کچھوے کی چال جیسے حکومتی سیاسی اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔
گھروں کی دوبارہ تعمیر و امدادی رقوم کی تقسیم کے اعلانات اور واقعے کے ذمے داران کے خلاف سخت سے سخت کارروائی جیسے دعوے عملی صورت میں ظاہر ہونے سے تاحال محروم ہیں۔ سیاسی جماعتیں فی الحال ایک دوسرے پر الزام تراشی کی دیرینہ رسم کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ ادھر سے فرصت ہو تو کچھ ادراک اصل محرکات کا کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ توہین رسالت کے ان پے در پے مذموم واقعات کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں جو اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے میں پہل کرتے ہیں۔
جب تک حکومت سنجیدگی اور جذبہ ایمانی کے ساتھ ساری دنیا کو یہ باور نہیں کرائے گی کہ قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی تب تک ایسے مناظر و مظاہرے دیکھنے کو ملتے رہیں گے جن میں پرامن عاشقان رسول ﷺ کی آڑ لے کر دہشت گرد اور شرپسند عناصر اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے اور پاکستان کا چہرہ مسخ کیا جاتا رہے گا۔ وسیع پیمانے پر گھروں کو جلایا اور تباہ کیا جانا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہوش و خرد سے کام لیا جائے، بے لگام جذباتیت سے اجتناب برتا جائے۔ بلاشبہ یہ معاملہ جذبات کا ہے لیکن جذبات کا اظہار بھی درست طریقے سے کیا جانا ضروری ہے۔
سانحہ بادامی باغ سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ کو سپریم کورٹ نے یکسر مسترد کردیا ہے اور آبزرویشن میں واضح کیا ہے کہ پولیس بوجہ غفلت و نااہلی اس واقعے میں برابر کی شریک ہے۔ توہین رسالت کا وطن عزیز میں قانون تو موجود ہے مگر اس سنگین جرم کے مرتکب ملعونوں اور شاتمین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں پولیس ماضی میں بھی ناکام رہی ہے اور اب بھی ناکام ہی دکھائی دیتی ہے۔ 177 گھروں اور 16 دکانوں کو نذرآتش کردینے کا مطلب ہے اتنے ہی خاندانوں پر بھوک، پیاس اور افلاس کے پہاڑ توڑ دینا، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس واقعے کو قومی سانحہ قرار دینا کافی نہیں ہے، متاثرین کی مکمل امداد و بحالی اور ریلیف کے کاموں کو ہنگامی بنیادوں پر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایسے واقعات کی وجوہات جاننے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیے جائیں بلکہ آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی بھی کی جائے۔ اقلیتوں کا تحفظ نہایت اہم ہے جس کا درس ہمیں اپنی تعلیمات میں بھی ملتا ہے۔ ہمیں دنیا کو اپنا امن پسندانہ کردار دکھانا ہے نہ کہ متشدد روپ۔ مغربی دنیا پہلے ہی کئی واقعات کو جواز بنا کر مسلمانوں کو شدت پسند، دہشت گرد، بنیاد پرست اور نجانے کیا کیا القابات سے شہرت دیتی آرہی ہے، اس پر اس طرح کے واقعات کے بعد ہمارا عدم برداشت کا رویہ مغربی دنیا کے منفی پراپیگنڈے کو سچ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔
تمام تر منفی پراپیگنڈے کے باوجود پاکستانی قوم ساری دنیا میں مختلف کارہائے نمایاں کی بدولت اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے، اور ہمیں اپنی پہچان کو برقرار رکھنا ہے۔ اپنی صفوں میں گھسے ہوئے شرپسند عناصر کو نکال باہر کرنا ہے تاکہ کوئی ہمارا امن پسندانہ تشخص تباہ نہ کرسکے۔ مساوات، برداشت اور حسن اخلاق کے اسباق ہم کو ہمارے نبی ﷺ بہت احسن انداز میں تعلیم فرماگئے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم بھی دنیا کے ساتھ معاملت اختیار کرنے میں ان ہی تعلیمات کا سہارا لیں نہ کہ عدم برداشت اور تشدد کی لہروں میں بہہ جائیں۔