سندھ کی مظلوم عورت
حالیہ عرصے میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے بہت کام ہوا ہے۔
یوں تو اس مرد پرور معاشرے میں عورت کی مظلومیت جابجا نظر آتی ہے لیکن اس کالم کا عنوان سندھ کی مظلوم عورت اس لیے تجویز کیا ہے کیونکہ صدیوں سے اس خطے کی عورت استحصال کا شکار ہے، چاہے آج کے تناظر میں دیکھا جائے یا لوک داستان عمر ماروی کے زمانے میں پہنچا جائے۔
عورت کا استحصال ہر سطح پر ہر انداز میں کیا گیا ہے اور اس میں شہری یا دیہی خواتین کی کوئی تخصیص نہیں، یہ اور بات کہ شہر کے مقابلے میں گائوں، دیہات دوسرے الفاظ میں اندرون سندھ کی عورت زیادہ استحصال کا شکار رہی ہے، اور اس کی بنیادی وجہ اندرون سندھ کے مردوں کا وہ مخصوص طرز فکر ہے جو پیدائش سے ہی ان کی سوچ کی پرورش کرتا ہے، جہاں مرد عورت کو اپنی رعیت سمجھتے ہیں اور ماں جیسے انمول رشتے کی قدر بھی بڑھتی عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے نوعمر لڑکے جب اپنے باپ کو ماں کا بری طرح استحصال کرتے دیکھتے ہیں تو ان کی نظر میں عورت کی اہمیت بطور انسان کم ہوجاتی ہے اور عورت سے غلامانہ سلوک وہ اپنا مردانہ حق سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرز فکر کے ساتھ ایک ایسے بھیانک مرد پرور معاشرے کی عمارت کھڑی ہونے لگتی ہے جہاں عورت چہار دیواری میں قید سسکتی رہتی ہے اور شاید یہ اسے اپنا مقدر اس لیے بھی سمجھتی ہے کہ اس قلعے سے باہر غیر مرد اس کے استحصال کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنوں کے ہاتھوں زہر ہلاہل پینے کو ترجیح دیتی ہے۔
گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا، جابجا تقریبات کا انعقاد کیا گیا، نام نہاد ویمن تنظیموں کی جانب سے عورت کی مظلومیت کا پرچار کیا گیا لیکن نتیجہ ندارد۔ نہ تو عورت کو اس کا حقیقی مقام ملا نہ ہی اس مرد پرور معاشرے کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئی۔ سب کچھ اسی نہج پر چل رہا ہے پھر آخر اس طرح عالمی دن منانے کا کیا حاصل؟
حالیہ عرصے میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے بہت کام ہوا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ابھی بھی عورتیں دنیا بھرمیں کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ انھیں مردوں کے مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہو گئے ہیں۔ دنیا کے ایک اعشاریہ تین ارب انتہائی غریب عوام کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے۔ عورتوں کو مساوی کام کے لیے مردوں کے مقابلے میں تیس تا چالیس فی صد کم معاوضہ ملتا ہے۔ دنیا بھر میں عورتوں کی اموات یا معذوری کی وجوہات میں سرفہرست ان پر ہونے والا تشدد ہے جس میں گھریلو تشدد سے لے کر زنا بالجبر تک شامل ہے۔ آخر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی اس تحریک کے نتیجے میں خواتین نے کیا حاصل کیا؟
درحقیقت ان تمام تر کوششوں کے پیچھے سرمایہ دارانہ سامراج کی یہ سوچ کارفرما ہے کہ مغرب کی طرح مشرق کی خواتین کو بھی اپنے حقوق کے نام پر گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر کم تنخواہ کے عوض کام کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ انھیں سستی لیبر حاصل ہوسکے۔ یہی سبب ہے کہ مغربی امداد پر پلنے والی نام نہاد خواتین تنظیمیں عورتوں کو آزادی کا خواب دکھانے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں جاکر ان عورتوں کی برین واشنگ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کے بجائے یہ تنظیمیں عورتوں کو غیر حقیقی دنیا کی راہ دکھاتی ہیں۔
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عورت کے حقوق کی نام نہاد جدوجہد کو حقیقی تناظر میں برتا جاتا اور معاشرے کو عورت کی عظمت سے آگاہ کرنے کے لیے فورم بنائے جاتے، جہاں عورتوں کے بجائے مرد کی روایتی سوچ کو تبدیل کرنے کے سیشن رکھے جاتے۔ اس امر سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ عورت کا استحصال صرف اور صرف مرد کی روایتی سوچ ہے جبکہ دین اسلام نے عورت کو اس کے حقیقی مقام سے پہلے ہی آگاہ کردیا ہے۔ اگر معاشرے پر چھائی مرد کی اس روایتی سوچ کو ختم کردیا جائے تو عورت کو اس کا اصل مقام خودبخود مل جائے گا۔
اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی تنظیموں کا کردار بھی قابل افسوس ہے، یہ اور بات کہ خوش آئند وعدوں کے سہارے عوام کا ووٹ حاصل کرنے والے یہ نمائندے عورت و مرد کی برابری کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت حال کیا ہے اس سے سب واقف ہیں۔ کل ہی کی ٹی وی نشریات میں اسلام آباد میں ق لیگ کے کلچرل ونگ کی ایک تقریب دکھائی گئی جس میں ایک خاتون جس بے ہودہ انداز میں رقص کناں تھیں وہ سیاسی پارٹیوں کی نظر میں عورت کی اہمیت کو بخوبی اجاگر کرتا ہے، اس پر چوہدری شجاعت کا یہ بیان کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے روشن خیال طبقے کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے جو عورت کو محض انٹرٹینمنٹ متصور کرتے ہیں۔
اور صرف ق لیگ پر ہی کیا موقوف پاکستان میں اس وقت ایسی کون سی سیاسی پارٹی ہے جو عورت کو اس کا حقیقی مقام عطا کر رہی ہے؟ سیاسی پارٹیوں کے جلسے جلوس میں بھی عورت کو محض ایک شوپیس کے طور پر لیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ہجوم اکٹھا کیا جاسکے۔ ان پرہجوم جگہوں پر عورت کی تذلیل جس ڈھکے انداز میں کی جاتی ہے وہ آپ آج بھی یوٹیوب پر سرچ کرکے دیکھ سکتے ہیں۔
حقیقت تو یہی ہے کہ عورتوں کی بہبود کے لیے اس وقت چند مخلص لوگ ہی مصروف عمل ہیں باقی تمام تر خواتین تنظیمیں یا این جی اوز یا تو کسی غیر کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں یا فنڈز کی لوٹ مار کے لیے اپنے ہی ایجنڈے ترتیب دے رہی ہیں۔ ایسے میں معاشرے میں مصروف عمل ان مخلص لوگوں کو یقیناً سراہا جانا چاہیے جو کسی نام و نمود کی خواہش کے بغیر فلاح و بہبود کے ان کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ خود کو غربت اور جہالت سے آزادی دلائیں اور وہ حقیقی شعور حاصل کریں جو عورت کو بے جا آزادی کے بجائے اس کے اصل مقام کی آگاہی دیتا ہو۔ یقیناً مغرب کی تقلید عورت کی حقیقی آزادی نہیں بلکہ اسلام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بھی عورت اپنا اصل مقام حاصل کرسکتی ہے۔
(نوٹ:مضمون نگار اندرون سندھ میں النساء ویلفیئر فائونڈیشن کی فائونڈر چیئرپرسن ہیں)