ہم جس ملک کے باشندے ہیں وہاں قارئین کی شدید کمی کے باوجود ناشرین اور مصنفین کی معقول تعداد موجود ہے۔ صاحب کتاب جس مقام کا حق دار ہے، اسے وہ مقام ملے نہ ملے اپنی کتاب چھپوانے، تقریب پذیرائی کروانے اور اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے وہ کتاب کے سیکڑوں نسخے دوستوں، عزیزوں، اخبارات اور رسائل تک پہنچانے کا فریضہ ضرور انجام دیتا ہے۔
صاحب حیثیت لکھاری اپنی حیثیت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے چار رنگوں کے ٹائٹل، گردپوش اور مہنگے کاغذ کے ساتھ جب ایک سو سے زائد صفحات کی کتاب چھپواتے ہیں تو اس پر لگ بھگ پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں، اگر نہ بھی خرچ ہوں تو وصول کر لیے جاتے ہیں۔ ایسے سادہ دل اصحاب جنھیں اس بات کا ذرا سا بھی شک ہوجائے کہ وہ لکھاری ہیں، وہ بھی اتنی ہی رقم کسی نہ کسی طرح جمع کر کے اپنا شک دور کرلیتے ہیں۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کتاب میں شامل مواد کی پذیرائی ہوگی یا نہیں، ہاں وہ ناشر سے یہ فرمائش ضرور کرتے ہیں کہ کتاب دیکھنے میں خوب صورت، جاذب نظر اور دوسری کتابوںسے مختلف نظر آنی چاہیے۔
کتابوں سے رغبت رکھنے والے دوستوں کو گلہ ہے کہ اب کتاب کو خرید کر پڑھنے والے قارئین کی تعداد میں کمی آئی ہے، مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں کتابوں کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں منیر نیازی، فیض احمد فیض، منٹو اور بہت سارے دوسرے اہم ادبا و شعرا کی کتابیں ڈیڑھ روپے سے لے کر چار پانچ روپے تک آسانی سے مل جاتی تھیں۔
یہ سلسلہ ساٹھ سے لے کر ستر کی دہائی تک برقرار رہا، مگر اسی کی دہائی میں افغان جنگ کے بعد جب ملک کے سیاسی اور سماجی حالات میں تبدیلی آئی تو اشیائے خورونوش کے ساتھ کتابوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا۔ موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے دوسرے موضاعات پر مبنی کتابوں کی قیمت کو تو چھوڑیے ایک سو بیس صفحات کی ادبی و علمی کتاب کی کم از کم قیمت تین سو کے لگ بھگ ضرور ہوتی ہے۔ کچھ زائد صفحات کی بعض کتابوں پر تو قیمت والے خانے میں پانچ سو روپے بھی درج ہوتے ہیں، اس لیے کہ اس میدان میں نیا نیا اترنے والا صاحب کتاب اپنی تخلیق بازار میں لانے سے قبل پبلشر کو جو رقم ادا کرچکا ہوتا ہے اسے واپس لانے کا واحد حل یہی رہ جاتا ہے۔
ادبی، ثقافتی اور صحافتی اداروں میں منعقد ہونے والی کتابوں کی تقریب پذیرائی پر نظر ڈالی جائے تو پانچ بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور میں تقریباً ہر ہفتے کسی نہ کسی کتاب کی تقریب پذیرائی کی خبر اخبارات میں پڑھنے کو مل ہی جاتی ہے۔ ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، حیدرآباد کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے کچھ شہروں کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر سے ہر ہفتے یا مہینے کے دوران کتنی کتابیں چھپ کر بازار میں آتی ہیں۔ معروف نقاد پروفیسر سحر انصاری کے خیال میں اگر کچھ نوجوان کتوں، مرغوں اور بٹیروں کی روایتی لڑائی جیسے مشاغل کے بجائے کتابیں چھپوانے میں دلچسپی لے رہے ہیں تو یہ قابل تحسین ہے۔
سحر انصاری کی بات سے ہمیں بالکل اختلاف نہیں لیکن اس کے ساتھ ذہن میں کچھ سوالات بھی ابھرتے ہیں، جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان کتابوں میں پیش کیا جانے والا مواد کس سطح کا ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ ان کتابوں کا اصل فائدہ کسے ہوتا ہے؟ پہلے سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے تو بہت وقت درکار ہوگا، مگر دوسرے سوال کا جواب یہی ملے گا کہ ایک اہم مصنف کو کتاب چھپنے کے بعد بس اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے کہ اس کی خدمت میں چند کتابیں پیش کر دی جاتی ہیں۔ اصل فائدہ تو اس کاروباری ادارے کو ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی دکان پر بلکہ کتابوں کے میلے میں، ادبی سیمیناروں اور تقریب پذیرائی کے دوران معقول تعداد میں کتابیں فروخت کرتا ہے۔
ایسے ادیب اور شاعر جو زندگی میں اپنا کلام چھپوانے کی استطاعت نہیں رکھتے، مرنے کے بعد خوب چاہے اور سراہے جاتے ہیں اور مختلف ادارے ادبی خدمت کے نام پر ان کی کتابیں چھپوانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں، لیکن یہ نیک کام بھی کتابوں کی خرید و فروخت سے ہی جڑا ہوتا ہے، جس سے نہ تو مرنے والے کے خاندان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی یہ مرحوم کے کسی کام آتا ہے۔ استاد قمر جلالوی کی مثال سب کے سامنے ہے، جن کی غربت اور بے چارگی کا یہ عالم تھا کہ دن بھر سائیکلوں کو پنکچر لگا کر زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھتے تھے اور رات کو
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
جیسی ناقابل فراموش غزلیں سنا کر ہر دوسرا مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے کے کئی سال بعد امیر مینائی اور داغ دہلوی کی روایت سے جڑے اس فقیر منش شاعر کی چار کتابیں چھپ کر جب بازار میں آئیں تو خرید و فروخت کا وہ بازار گرم ہوا کہ سب دیکھتے رہ گئے، لیکن تب تک استاد قمر جلالوی اپنی غربت کا کفن لپیٹے تمام جھمیلوں سے بہت دور جا چکے تھے۔
شکیب جلالی، میرا جی، مجید امجد، عبدالحمید عدم، منٹو اور ساغر صدیقی جیسے کئی اہم ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا جو استاد قمر جلالوی کے ساتھ ہوا اور تب تک ہوتا رہے گا جب تک حکومتی سطح پر قائم علمی اور ادبی ادارے غریب اور مستند لکھاریوں کی کتابیں ان کی زندگی میں چھپوانے کاانتظام نہیں کرتے۔ ثروت مند لکھاری اگر مہنگی کتابیں چھپوا کر فائیو اسٹار ہوٹلز میں تقریبات منعقد کرواتے ہیں یا اپنی کتابیں مفت تقسیم کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ اگر وہ ان تقریبات میں ایسی شخصیات کو مدعو کرتے ہیں جن کا کتاب سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا تو یہ بھی ان کا حق ہے لیکن جو اصحاب کتاب کی اہمیت اور مقام سے واقف ہیں اگر انھیں بھی اپنی کتاب کی تقریب میں ایسے حضرات کو مسند صدارت پر بٹھانے کی ضرورت پڑے جو کتاب پر بات کرنے سے قبل اسے پڑھ کر ہی نہیں آتے تو کتاب بینی، کتاب شناسی اور کتاب کی حرمت پر ضرور سوال اٹھے گا۔
جو مصنفین مختلف اداروں اور دوستوں کو اپنی کتاب بلامعاوضہ پیش کرتے ہیں ان کا علمی اور ادبی جذبہ قابل ستائش ہے، مگر ایک اندازے کے مطابق مفت میں حاصل کی جانے والی کتاب کی نسبت خریدی ہوئی کتاب زیادہ پڑھی جاتی ہے، اس لیے کہ جو کتاب خریدی جاتی ہے اس کی ضرورت ہوتی ہے اور جو مفت میں دی جاتی ہے اسے تحفہ سمجھ کر قبول تو کرلیا جاتا ہے لیکن پڑھنے کے لیے وقت نہیں نکالا جاتا۔