
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہمارا وطن اقبالؒ کے خواب کی تعبیر ہے۔ اقبالؒ کے فلسفہ خودی میں ہمارے تمام داخلی و خارجی مسائل کا حل ہے۔ اقبالؒ کے افکار نے مایوسی اور ناامیدی کے ماحول میں امید کا وہ چراغ روشن کیا جس نے نہ صرف منزل بلکہ راستے کی بھی نشاندہی کی۔ اقبالؒ کے تصور کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بننا تھا۔ مگر بدقسمتی سے ہم اقبالؒ کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹک کر فساد و انتشار کا شکار ہوگئے۔ ہم سیاسی استحکام حاصل کرسکے اور نہ ہی معاشی خود کفالت۔ آج اگر میں اقبالؒ کے خوابوں کی قوم کی موجودہ حالت زار کی ایک مختصر مگر جامع تصویر کھینچنا چاہوں تو وہ کچھ یوں بنتی ہے:
اقبالؒ تیری قوم کا اقبال کھو گیا
ماضی تو سنہرا ہے مگر حال کھو گیا
وہ رعب و دبدبہ، وہ جلال کھو گیا
وہ حسن بے مثال، وہ جمال کھو گیا
ڈوبے ہیں جوابوں میں مگر سوال کھو گیا
اقبالؒ تیری قوم کا اقبال کھو گیا
اڑتے جو فضاؤں میں تھے شاہین نہ رہے
باذوق نہ رہے، ذہین نہ رہے
پاکیزہ گر نہ رہے بادین نہ رہے
وہ لعل و گلزار وہ ماہ جبیں نہ رہے
مومن کا وہ اندازِ باکمال کھو گیا
اقبالؒ تیری قوم کا اقبال کھو گیا
زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ جو قومیں اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں، زمانہ بھی انہیں فراموش کر دیتا ہے اور تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نے راستے سے بھٹک کر اپنی منزل بھی کھو دی۔ ستر سال کا عرصہ قوموں کی زندگی میں کوئی بڑی مدت نہیں ہوا کرتی۔
اقبالؒ کی شاعری اور اس میں پوشیدہ پیغام الہامی و آفاقی ہے۔ یہ کسی ایک دور کےلیے نہیں بلکہ ہر عہد کےلیے مشعل راہ ہے۔ اس میں نہ صرف ہمارا ماضی بلکہ حال اور مستقبل بھی پنہاں ہے۔ ہمیں نوجوانوں کے ذہن کو اقبالؒ کے نورِ بصیرت سے منور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں اگر ایک زندہ، عمل کرنے والی اور احساس خودی رکھنے والی قوم بننا ہے تو اقبالؒ کے فلسفے، فکر اور سوچ کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ خودی کی حفاظت سیاسی استحکام اور معاشی خود کفالت کے بغیر ممکن نہیں۔
زندہ قومیں مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں۔ ہم اپنا بھولا ہوا سبق دوبارہ اپنے ذہنوں میں لاسکتے ہیں اور اپنی حالت سنوار کر آج بھی دنیا میں سربلند ہوسکتے ہیں؛ کیونکہ اقبالؒ کا پیغام مایوسی و ناامیدی کا سندیسہ نہیں، امیدوں کا روشن چراغ ہے۔
کوئی عروج دے نہ زوال دے
مجھے صرف اتنا کمال دے
مجھے اپنی راہ پہ ڈال دے
کہ زمانہ میری مثال دے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔