تاجر بھتہ خوروں کیخلاف کمر بستہ ہو جائیں الطاف حسین

کوئی بھتہ مافیا کا فرد آیا تو وہ خود مرے گا یاکارکنان جان دینگے،متحدہ تحفظ بزنس فورم بنانے کا مشورہ

تاجربرادری اپنی حفاظت خود کرنے اور ہمارے کارکنان کو الائونس دینے کیلیے تیارہے تو قرارداد منظورکرے،متحدہ تحفظ بزنس فورم بنانے کا مشورہ ۔ فوٹو ایکسپریس

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ پاکستان کو اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے،ایم کیوایم پاکستان کو بچانے کیلیے ملک میں یکجہتی، ہم آہنگی اور امن واستحکام کی فضا قائم کرناچاہتی ہے ، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار نہیں تو پھر پارلیمانی کی جگہ عدالتی نظام قائم کردیا جائے۔

اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے ملک کو نقصان پہنچے گا ،خدارا پارلیمنٹ اور عدلیہ آپس کے اختلافات ختم کردیں،پاکستان کے عوام کل بھی فوج کے ساتھ تھے اور آج بھی فوج کے ساتھ ہیں،اگر مسلح افواج نے آزمائش کے وقت عوام کا ساتھ دیا تو عوام فوج کے لیے اپنی جانیں قربان کردیں گے،انھوںنے کہاکہ تاجروں ، صنعتکاروں اوردکانداروں کوتحفظ فراہم کرنے کے لیے ایم کیوایم کے ایک لاکھ کارکنان حاضر ہیں۔

انھوں نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ ایم کیوایم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی ۔ یہ بات انھوںنے آج جناح گراؤنڈ عزیزآباد میں ایم کیوایم کے زیراہتمام افطار ڈنر کے شرکا سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہی۔ افطار ڈنر میں مختلف ممالک کے سفارتکاروں ، سیاسی ، مذہبی ، سماجی رہنماؤں ،مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے علمائے کرائم ومشائخ عظام ، تاجروں ، صنعتکاروں ،ان کی مختلف تنظیموں کے ذمے داران، فنکاروں ، دانشوروں ، صحافیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔

اس موقع پر وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک ، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، وفاقی وزیرسید خورشید شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی نثارکھوڑو، صوبائی وزرا پیرمظہر الحق ، آغاسراج درانی ، شرجیل میمن اور شرمیلا میمن کے علاوہ غوث بخش مہر، مرتضیٰ جتوئی، جام مدد علی ،حلیم عادل شیخ امتیاز شیخ، شہریارمہراور دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔

الطاف حسین نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں ہرطرف نفرت، تصادم ، محاذ آرائی اور انتشار کا ماحول ہے اور ایسے ماحول میں ایم کیوایم کی دعوت افطار میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا جمع ہونا حوصلہ افزا ہے، پاکستان ان دنوں انتہائی نازک حالات سے دوچار ہے ، ملک کو داخلی وخارجی سطح پر جن خطرات کا سامنا ہے اس کے پیش نظر پاکستان کی بقاء وسلامتی اور استحکام کے لیے ملک کی تمام سیاسی، مذہبی، لسانی اورثقافتی اکائیوںمیں اتحاد ویکجہتی وقت کی اشد ترین ضرورت ہے۔

ایم کیوایم پاکستان کی بقاء وسلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں سے رابطے کررہی ہے اور ایک عظیم مقصد کی خاطر ان جماعتوں سے بھی رابطے کیے جارہے ہیں جو ایم کیوایم کی سخت مخالف جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ ملک میں اتحاد ویکجہتی ، ہم آہنگی اور امن واستحکام کی فضا پیدا ہواور یہی امن واستحکام پاکستان کی سلامتی وبقا کی ضمانت ثابت ہوگا۔ انھوں نے کہاکہ ایم کیوایم ایک جمہوریت پسند جماعت ہے ۔

ہمیں موجودہ حکومت کی مختلف پالیسیوں اور اقدامات سے اختلاف ہے لیکن ان اختلافات کی بنیاد پر ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوری عمل کو کوئی نقصان پہنچے،جب میں نے کہاکہ پاکستان کو خطرات لاحق ہیں ، حکومت، گول میز کانفرنس منعقد کرکے ملک میں اتحاد ویکجہتی کی فضا کو فروغ دے تو بعض اینکرپرسن ، تجزیہ نگاروں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہاکہ ملک کوکوئی خطرہ نہیں ہے، میں پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ میرا مذاق اڑانے والے پاکستان کا دفاع مزید کمزور کرنے میںمصروف تھے۔

1971ء میں اس وقت کے مدیر، کالم نگاراور دانشور یہ لکھ رہے تھے کہ پاکستان کی مسلح افواج کی دشمن ملک کے خلاف پیش قدمی کی باتیں کررہی ہے، ایک طرف جنرل نیازی 93 ہزار فوجیوں کے ہمراہ دشمن ملک کی فوج کے آگے ہتھیارڈال رہے تھے جبکہ دوسری جانب پاکستان کے صدر، حکومتی ارکان اور میڈیادشمن کے دانت کھٹے کرنے کی خبریں سناکر قوم کوگمراہ کررہے تھے ۔عموماً وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کہتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہیں اور میں ان کو ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ رحمان ملک صاحب آپ بہت ٹھیک ہیں۔


ایماندار ہیں لیکن ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔انھوںنے کہاکہ بھتہ مافیااور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں پر میری صدرمملکت ، آئی ایس آئی کے سربراہان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے بات ہوئی لیکن جب سانحہ شیرشاہ کے ذمے داروں کو گرفتارکرکے صبح رہا کردیا جائے گا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ نہ دے سکیں تو شہر میں امن وامان کیسے قائم ہوسکتا ہے ؟انھوںنے تاجروں اور صنعتکاروںکو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جب میں نے عوام کو اپنی حفاظت کی غرض سے ٹی وی ،وی سی آر اور فرج بیچ کر لائسنس یافتہ اسلحہ خریدنے کی اپیل کی تو مجھے آج تک اس کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

طعنے دینے والوں میں تاجر برادری بھی شامل تھی مگر آج تاجر برادری اپنے تحفظ کے لیے خود اسلحہ اٹھانے کی بات کررہی ہے ۔انھوںنے تاجر برادری کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے سر جوڑ کربیٹھیں اورمتفقہ قرارداد منظورکریں کہ انہیں اپنی مددآپ کے تحت اپنی حفاظت خود کرنی ہے اوروہ ہمارے کارکنان کو الاؤنس دینے کے لیے تیارہیں تو ایم کیوایم کے ایک لاکھ کارکنان ان کی حفاظت کے لیے حاظر ہیں۔

پھر کوئی بھتہ مافیا کا فرد آئے گا تو یاتو وہ خود مرے گا یا ہمارے کارکنان اپنی جان دیں گے۔انھوں نے رابطہ کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ تاجربرادری کے تحفظ کے لیے متحدہ تحفظ بزنس کمیونٹی فورم بنائیں،صحت مند کارکنان کو تربیت دلانے کا بندوبست کریں۔انھوں نے کہاکہ سپریم کورٹ ، ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیتی ہے لیکن کراچی میں تاجروں ، صنعتکاروں اور دکانداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی نوٹس کیوںنہیں لیتی ؟

انھوں نے رحمان ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ بلوچوں سے بات ہوسکتی ہے مگر پاکستان کے دشمنوں سے بات نہیںہوسکتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی پاکستان کا دشمن نہیں ہے،جب رحمان ملک ایف آئی اے کے ڈی جی تھے اور ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کیاجارہا تھا تو اس دوران سرکاری عقوبت خانوںمیں ایم کیوایم کے کارکنوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتاتھا،آپ بے گناہ لوگوں کو ماردیں تو کوئی کیسے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائے گا، حقیقت یہ ہے کہ کوئی ملک کا دشمن نہیں ہوتا بلکہ حکومت، دفاعی ادارے ۔

مقننہ اورعدالتیں اپنے غلط رویوں سے ملک دشمن پیداکرتی ہیں۔ بلوچستان کے لوگوںکو علیحدگی پسند کہنے سے بلوچستان کو علیحدہ ہونے سے نہیں روکاجاسکتا نہ ہی بلوچ عوام کو پاکستانی بننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے بلکہ بلوچ عوام کو ان کے جائز حقوق دینے اوران کے زخموں پر مرہم رکھنے سے بلوچ عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی کی شدت میں کمی کی جاسکتی ہے اور ان میں پاکستانیت بیدار کی جاسکتی ہے۔

الطاف حسین نے کہاکہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کا دفاع کریں اورپاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو اس ملک سے دفع کردیں،سابقہ ججز اور وکلا کوچاہیے کہ وہ ایمانداری سے قوم کوآگاہ کریں کہ قانون بنانے کااختیارکس کا ہے ؟ اگر پارلیمنٹ قانون سازی کا کوئی حق نہیں رکھتی تو اس ادارے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے پارلیمانی نظام کو ختم کرکے ملک میں عدالتی نظام قائم کردینا چاہیے،پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین محاذ آرائی سے ملک کا نقصان ہوگا،ایم کیوایم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی اور پاکستان کو مضبوط ومستحکم دیکھنا چاہتی ہے اور سندھ کو دھرتی ماں سمجھتی ہے اس کے باوجود سندھ میں تقسیم کے نعرے لگے اور سندھی قوم پرستوں نے اس کاسارا الزام ایم کیوایم پر ڈال دیا۔

انھوںنے حکومتی ارکان سے کہاکہ اگر سندھی بھائیوں نے ان قوم پرستوں کے منہ بند نہ کیے اور سندھ تقسیم ہوا تو اس کی ذمے داری انہی قوم پرستوں پر عائد ہوگی۔انھوںنے کہاکہ بین الاقوامی سازشوںاور ہماری حرکتوں سے پاکستان دولخت ہوچکا ہے اگر ہم نے اپنے اعمال درست نہ کیے تو خاکم بدہن باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی بھی خطر ے میںپڑ سکتی ہے۔ انھوںنے گورنر اور وزیراعلیٰ کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ و ہ سرجوڑ کربیٹھیں،سندھ میں روز روز کی لڑائی ختم کریں اور آپس کی تفریق مٹاکر سندھ میں یکجہتی پیدا کریں۔

اگر سندھ میں بسنے والے سب سندھی ہیں تو سب کو ان کا جائز حق ملنا چاہیے۔دریں اثناء یم کیوایم کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر و ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گول میز کانفرنس وقت کی ضرورت ہے ، ساحلوں پر بحری بیڑوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے، یہ ساری صورتحال اس خطے کے لیے خوش آئند نہیں،ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے اور ملک کی بقا و سلامتی کے بار ے میں سوچنا چاہیے، الطاف حسین کے وژن کے مطابق ملک کو داخلی و خارجی خطرات سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی و مذہبی رہنمائوںاور دانشوروں کا ایک جگہ جمع ہونا ضروری ہے۔

اب یہ معاملہ سیاسی اور جمہوری عمل کی فتح یا شکست کا نہیں بلکہ ملک کی بقا و سلامتی کا ہے ، ملک کی خود مختاری سالمیت دائو پر لگی ہوئی ہے، ایسے میں الطاف حسین نے تمام اہل دانش اور اہل رائے سے یہ کہا ہے کہ ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ملک کو بحران سے نکالنا ہوگا ۔
Load Next Story