بنگلادیش میں دو بیگمات کی باہمی چپقلش
خالدہ ضیاء نے حالیہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا جس وجہ سے شیخ حسینہ پر ناکامی کے الزامات میں کمی آ رہی ہے۔
اگرچہ بنگلادیش کے قیام کو 46 سال گزر چکے ہیں مگر میرے ذہن میں وہ تمام واقعات بالکل تازہ ہیں۔ میں پہلا بھارتی صحافی تھا جو ڈھاکا ایئرپورٹ پر اترا۔ سب سے پہلے میں پریس کلب پہنچا جہاں پر میں نے بھارت دشمن ریمارکس سنے۔ جب میں نے ایک مزے دار بنگالی ڈش ''ہلسا'' کھانے کی فرمائش کی تو مجھے بتایا گیا کہ ہلسا اب ڈھاکا میں نہیں ملتا صرف کولکتہ میں ملتا ہے۔
اس سے مجھے بڑا افسوس ہوا۔ پریس کلب میں بھارت کے خلاف میں نے جو باتیں سنیں ان کی شکایت میں نے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن سے کی تو انھوں نے میرے جذبات کو سراہا اور جب میں نے بتایا کہ بنگلادیش کی علیحدگی کے لیے لڑنے والے مکتی باہنی (نجات دھندگان) کے ساتھ 6000 سے زائد بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں تو شیخ نے میری مایوسی کو ہنسی میں اڑا دیا اور کہا کہ ایک بنگالی کو آپ پانی کا ایک گلاس بھی پلائیں تو وہ ساری زندگی اسے نہیں بھولے گا چہ جائیکہ وہ بھارتی فوجیوں کی قربانی کو بھول جائے؟ یہ وہ وقت تھا جب سید محمد علی مجھے ملنے آئے جنہوں نے اخبار ڈیلی اسٹار کی بنیاد رکھی تھی۔
انھوں نے شکوہ کیا کہ بھارت پاکستان کی شکست کے بارے میں خبریں اور مضامین شایع کر رہا ہے مگر بنگلادیشیوں کی بہادری اور قربانیوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کر رہا جو انھوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے دیں۔ واپس دہلی پہنچ کر میں نے دہلی پریس کلب میں صحافیوں کا ایک اجلاس بلایا اور انھیں بتایا کہ بنگلادیش کو بھارت کے رویہ پر کس قدر مایوسی ہو رہی ہے۔ آخر ہم سے یہ لاپرواہی کیوں سرزد ہوئی ہے' بنگالی صحافیوں کی احتجاجی تحریک ڈھاکا پر بنگلادیشی پرچم لہرانے پر ختم ہو گئی۔ کئی سال بعد میں نے دیکھا کہ بھارتی حکومت نے بنگلادیش کے قیام کے بعد کوئی فالو اپ نہیں کیا غالباً بھارت کو خوف تھا کہ کہیں بنگال کے دونوں حصوں کے جذبات دوبارہ نہ بھڑک اٹھیں اور وہ دوبارہ متحد ہونے کے بارے میں سوچنے لگیں۔
یہی وجہ تھی کہ بھارت میں بنگلادیش کا ذکر کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ بنگالی صحافیوں کے لیے بھی بنگلادیش کے قیام کے بعد ان کی جدوجہد کا مشن مکمل ہو چکا تھا' انھیں اب بنگلادیشیوں کی قربانیوں کو اجاگر کرنا چاہیے تھا اور بھارتی فوج کے تعاون کا ذکر کرنا چاہیے تھا جس نے مکتی باہنی کے شانہ بشانہ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔
آزادی کی جنگ کے دوران بھارتی کابینہ میں بنگلادیش ڈیسک کے انچارج ڈی پی دھرنے مجھے بھارت کے بنگلادیش کی ترقی کے لیے شروع کیے جانے والے پانچ سالہ منصوبے سے پہلو تہی کرنے کا تاثر دیا جس سے ڈھاکا کو بہت مایوسی ہوئی تھی۔ ڈی پی دھر کی زیادہ توجہ اس بات پر تھی کہ کہیں بنگلادیش میں پھر سے کوئی بغاوت نہ ہو جائے اور عوامی لیگ کی حکومت کا تختہ نہ الٹ دیا جائے۔ دھر نے بتایا کہ بھارتی فوج جلد بنگلادیش سے واپس چلی جائے گی۔
جب مجیب کے خلاف بغاوت ہوئی تو ٹینک استعمال کیے گئے۔ نئی دہلی نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ اس نے بنگلادیش کے حالات پر مناسب توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے وہاں بغاوت ہو گئی۔ ٹینکوں کے حملے میں مجیب الرحمن اور ان کی پوری فیملی کو ہلاک کر دیا گیا۔ صرف ان کی بیٹی شیخ حسینہ بچ سکیں کیونکہ وہ حملے کے وقت جرمنی میں تھیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں۔
جب بنگلادیش کا قیام عمل میں آ گیا تو بھارت نے ڈھاکا سے قصداً دوری اختیار کر لی کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا تھا۔ لیکن پاکستان نے بھارت کے پاکستان کو دولخت کرنے کی کارروائی کو کبھی فراموش نہ کیا۔ مشرقی پاکستان کے مغربی پاکستان سے الگ ہونے کا پاکستان کے حکمرانوں کے ذہن پر بہت گہرا اثر تھا۔
پاکستان نے طویل عرصے تک بنگلادیش کو تسلیم نہ کیا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اعلان کیا کہ وہ بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے جب تک کہ بھارت ماؤنٹ بیٹن کے فارمولے کے تحت تقسیم برصغیر کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اس منصوبے میں مشرقی پاکستان کو پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ میری ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ براڈ لینڈ میں ملاقات ہوئی جہاں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد قیام پذیر تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے بھٹو کو خبردار کیا تھا کہ مشرقی پاکستان 25 کے بعد پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا اور ایسا ہی ہوا اور اس کی پیش گوئی سچ ثابت ہو گئی۔ لارڈ ریڈ کلف جس نے تقسیم کے لیے برصغیر کے نقشے پر خط کھینچا تھا مجھے بتایا کہ اسے مشرق میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی مگر مغربی حصے کے حوالے سے لہت مشکلات تھیں۔
مشرقی پاکستان کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ملک کی ترقی کی شرح 30 سال تک چھ فیصد پر برقرار رکھی۔ ان کی گارمنٹس انڈسٹری کی دنیا بھر میں پذیرائی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود غربت کا مسئلہ حسینہ مخالف قوتوں کی طرف سے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مخالفین میں پاکستان کی حامی اور بنیاد پرست قوتیں شامل ہیں۔ پاکستان بنگلہ دیشیوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہتے تو زیادہ بہتر تھا، اور وہاں بعض لوگ اس بات سے متاثر بھی ہیں جس کی وجہ سے وہاں بھارت دشمنی کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے مگر دہلی حکومت کو بنگلادیش کے حالات خراب کرنے کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔
بنگلہ دیشیوں کا خواب اقتصادی اعتبار سے اتنا کامیاب نہیں ہوا جتنی ان کی توقع تھی۔ وہاں پڑھے لکھے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 40 فیصد سے متجاوز ہے اور ملک میں ترقی کی وہ رفتار نہیں جس کی توقع کی جا رہی تھی اس وجہ سے مایوسی بہت گہری ہے لیکن وہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادی حالت بھی بنگلادیش سے کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ دہلی حکومت حسینہ شیخ کی عوامی لیگ اور خالدہ ضیا کی بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی دشمنی کے نتائج سے خود کو بچانا چاہتی ہے اس کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ ان دونوں بیگمات کی جاری لڑائی کے ملک کی ترقی پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
خالدہ ضیاء نے حالیہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا جس وجہ سے شیخ حسینہ پر ناکامی کے الزامات میں کمی آ رہی ہے۔ مگر اب بی این پی میں بھی تقسیم کا عمل شروع ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ پارٹی ملک میں دوسری پوزیشن سے گر کر تیسری پوزیشن پر آ گئی ہے۔ خالدہ ضیاء پر حکمران جماعت عوامی لیگ الزام لگاتی ہے کہ وہ مذہب کو استعمال کر رہی ہے جب کہ خالدہ ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ البتہ جماعت اسلامی اور اس کی ہم نوا جماعتیں بی این پی کے ساتھ انتخابی اتحاد میں شریک ہیں ان پر بنیاد پرستی کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن خالدہ ضیاء کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ عوامی لیگ سے بھی زیادہ آزادی کی جنگ لڑنے والے شامل ہیں لیکن آزادی دشمن فورسز کی ان کا ساتھ دینے کی بات بھی غلط نہیں۔
عام طور پر سمجھا جا رہا ہے کہ اگر خالدہ اقتدار میں آ گئیں تو انتہا پسند اور پاکستان نواز طاقتیں زور پکڑ لیں گی لیکن بھارت کے لیے ایسا ہونا اچھی بات نہیں ہو گی جس کے لیے لامحالہ مشکل پیدا ہو جائے گی کیونکہ بھارت کا خیال ہے کہ پاکستان بی این پی کو بھارت کے خلاف اکسا رہا ہے اور بھارت کے شمال مشرق میں اٹھنے والی شورشوں کی وجہ بھی یہی ہے۔ متذکرہ صورتحال سے بنگلادیش کی آزاد خیال فورسز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ وہ آزادی مخالف فورسز کو طاقت پکڑتے نہیں دیکھ سکتیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)