ماہر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی کی ایک خواہش

کیوں انیس تم لوگ کیا میچ بند کرا سکتے ہو؟ یہ آواز آج بھی کان میں پھر گونج رہی ہے۔


Anis Baqar December 15, 2017
[email protected]

لاہور: تقریباً پچاس برس بیت چکے، یہ صدر ایوب خان کے آخری دنوں کی بات تھی اور یحییٰ خان کی آمد آمد قریب تھی۔ کراچی یونیورسٹی بشمول ملحقہ تعلیمی ادارے پانچ ماہ سے مقفل تھے۔ سرسید گرلز کالج ناظم آباد میں اساتذہ کی بھوک ہڑتال کے دن تھے۔ یہ میڈم انیتا غلام علی کی زیر قیادت رواں دواں تھی۔ غالباً یہ ہڑتال کا چھٹا دن تھا۔ چونکہ تعلیمی ادارے بند تھے، اس لیے روزانہ طلبا کی اکثریت سرسید کالج کا دن میں ایک چکر ضرور لگا لیتی تھی اور طلبا تنظیمیں تو ضرور ایک بار پروفیسر صاحبہ کو سلام عقیدت پیش کرتی تھیں۔

اسی دوران ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال کی کال دے دی گئی تھی۔ ہڑتال مکمل تھی، نظم و ضبط میں کراچی کا جلوہ تھی، وہ کراچی جس میں کبھی پندرہ فیصد بنگالی مقیم تھے، جن میں 5 فیصد تعلیم یافتہ سرکاری و غیر سرکاری ملازمین بنگالی تھے، اس وقت تک افغانستان سے آمدورفت زیادہ نہ تھی، بنگال ہمارا ساتھی دل اور جمہوریت کی اصل جان تھی۔

کراچی کی آبادی 65 لاکھ کے قرب و جوار میں تھی، تو اس ماحول میں ہڑتال جاری تھی۔ اس روز جو طلبا سرسید کالج تک آئے تو میڈم انیتا غلام علی نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا، پہلے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر شہنشاہ حسین سے انھوں نے فرمایا کہ شہر میں ہڑتال تو کامیاب ہے، مگر نیشنل اسٹیڈیم میں ایم سی سی اور پاکستان کا میچ جاری ہے، میرے کہنے پر بھی انھوں نے آج بند نہ کیا، وہ چاہتے تو آج کے بجائے کل میچ جاری رکھتے، مگر انھوں نے نہایت سختی سے منع کردیا، لہٰذا آج ضروری ہے کہ میچ بند ہو تاکہ ہڑتال کا تاثر مضبوط ہو۔

لہٰذا پہلے میں نے اپنی خواہش کا اظہار شہنشاہ حسین سے کیا جو آئی سی بی انٹر کالجیٹ باڈی کے سابق چیئرمین تھے اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چیئرمین تھے، ان سے کہا، وہ گئے اپنا قافلہ لے کر، مگر 12 بجے تک واپس آگئے، وہ اسٹیڈیم سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر لاٹھی چارج کے حملے میں پسپا ہوگئے اور طلبا بکھر گئے، چوٹیں الگ آئیں، مگر گرفتاریاں نہ ہوئیں۔ اس پسپائی نے اساتذہ کو کافی تشویش میں مبتلا کردیا، اب ہم لوگ وہاں موجود تھے، شہنشاہ حسین جا چکے تھے مگر ان کی تنظیم کے تمام لوگ اردگرد موجود تھے، لہٰذا میڈم نے راقم (اس وقت این ایس ایف کے قائم مقام صدر) سے ارشاد فرمایا۔ کیوں انیس تم لوگ کیا میچ بند کرا سکتے ہو؟ یہ آواز آج بھی کان میں پھر گونج رہی ہے۔

جواب، کیوں نہیں میڈم کوشش کریں گے، مگر ایک گھنٹے بعد ہی آپ کو جواب دے سکتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ این ایس ایف کی ورکنگ کمیٹی کے 6 ارکان وہاں موجود تھے اور نائب صدر خالد شیخ جو اب حیات نہیں۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں میٹنگ ختم ہوئی، جس میں تمام ارکان نے میڈم کی خواہش پر چلنے کا اظہار کیا اور جلوس کے راستے پر میری تجویز پر پوری طرح سے عمل کرنے پر خوش دلی سے مان لیا کہ براستہ لیاری ندی سے یعنی سرسید کے بعد گولیمار پھر ندی کے ناہموار راستے سے سفر ہوگا۔ اب میڈم انیتا کے پاس حاضر ہوئے، جواب ہاں تھا۔

پھر طلبا کی تعداد کا اندازہ لگایا۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب طلبا تھے۔ اب سفر شروع ہوا، گولیمار کی سڑک پر ہوتے ہوئے مارچ کیا۔ طلبا کی اسپیڈ تیز تھی، صرف ایک پرچم سرخ رنگ کا این ایس ایف کا ڈاکٹر اقبال کے ہاتھوں میں، جلوس کی پشت پر ٹرک پر سوار پولیس مین۔ تقریباً 20 منٹ میں لیاری ندی آگئی۔ ہم لوگوں نے ندی میں اترنا شروع کردیا، پولیس یہ سمجھ کر کہ لڑکے بھاگ گئے وہاں سے چلی گئی۔ اب کوئی بھی ہمارے ساتھ نہ تھا۔ پون گھنٹے میں لیاری ندی کا وہ نالا آگیا جو نیشنل اسٹیڈیم سے جاکر ملتا ہے، اب منزل قریب تھی، اب ہم اسٹیڈیم کی پہاڑی کے پاس تھے۔ مگر اب یہ نالے بھر گئے ہیں، ہر جگہ آباد ہوگئی ہے صرف پہاڑی موجود ہے۔

غرض ہم اسٹیڈیم کے دروازے پر آگئے۔ جہاں چند نیم فوجی جوان تھے، جنھوں نے دروازہ کھول دیا، جو لوگ ساتھ آئے تھے ان میں سے نصف تو میچ دیکھنے بیٹھ گئے، لہٰذا یہ صورتحال بڑی تشویشناک تھی کہ تقریباً تیس ہزار کا مجمع اور چند سو ان کو بے دخل کرنے پہنچے تھے۔ اب کیا کرنا ہے؟

خالد شیخ نے کہا صرف تمبو کے بانس کھینچ کر اور پچ کو خراب کیے بغیر میچ ختم نہیں ہوگا، لہٰذا چند لڑکے پچ پر پہنچ گئے ایک کے ہاتھ میں سرخ جھنڈا تھا۔ ایلن نوٹ 99 پر ایم سی سی کی جانب سے بیٹنگ کر رہے تھے۔ ایک خیال آیا کہ ایک رن بننے دیتے ہیں۔ کسی ساتھی نے آواز دی ایک سیکنڈ گنوایا تو ہم سب گئے، پچ کھود دو، وکٹ سے پچ کھو دی گئی، ایلن نوٹ واپس گئے اور میچ ختم ہوگیا۔ ٹی وی پر یہ منظر دیکھے جا رہے تھے۔ میڈم انیتا کی یہ خواہش تو پوری ہوگئی مگر ایلن نوٹ کی سنچری جو ان کی پہلی سنچری تھی، مکمل نہ ہوئی، اس کا افسوس بہت دنوں تک پیچھا کرتا رہا۔

اور آج پچاس برس بعد بھی یہ زخم ہرا ہوگیا۔ حالانکہ کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ کوئی سانحہ رونما ہوا اور نہ طلبا تحریک پر کوئی بدنما داغ کہ کسی کا فرزند چوٹ سے معذور ہوگیا ہو، مگر اگر کوئی اس عمل کے متعلق پوچھتا ہے تو ہم میچ ختم کرانے کے کریڈٹ کو کوئی تمغہ امتیاز نہیں کہہ سکتے۔ یہ میچ کوئی آسانی سے ختم نہ ہوا، پچ کو خراب کرنا پڑا، اس وقت نیشنل اسٹیڈیم پر چھت نہ پڑی تھی، تمبو زیادہ تر حصے پر موجود تھے، چند سو متحد طلبا نے پورے اسٹیڈیم کو فکر کی یکجہتی سے منسلک کر رکھا تھا، قناتوں کے بانس کھینچ لیے گئے، جس سے پورا اسٹیڈیم مفلوج ہوکر رہ گیا تھا، مگر اس اسٹیڈیم کا میچ ختم کرانا کوئی بہتر عمل نہ تھا اور اس کے اثرات بڑے دیرپا تھے۔

کیونکہ تماش بین تفریح کی غرض سے آئے تھے، ان کو اساتذہ کی تحریک سے کوئی دشمنی نہ تھی۔ وہ عام طور پر فکری اعتبار سے رجعت پسند ٹولہ نہ تھا۔ یہ بات این ایس ایف کے اندرونی حلقے میں کوئی قابل تعریف عمل قرار نہ دیا گیا۔ البتہ اس بات کی بازگشت آتی رہی کہ لڑکوں کو لیاری ندی سے اسٹیڈیم لے جانا بڑا اچھا عمل تھا کہ لڑکوں کو کسی قسم کا جانی نقصان اٹھانا نہ پڑا، اور نظم و ضبط کا خیال رکھا گیا۔ البتہ میڈم انیتا غلام علی جب تک حیات نے ان سے وفا کی میرے اس عمل پر وہ ممنون رہیں۔

البتہ ان کی جانب سے اساتذہ کی کامیاب بھوک ہڑتال نے اور ان کی علمیت کے علاوہ سیاسی عمل نے حکومتوں میں ایک نمایاں مقام عطا کیا اور وہ ہمیشہ اچھے عہدے پر فائز رہیں۔ خصوصاً سندھ حکومت میں بھی تعلیمی میدان میں ان کا مقام بلند رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیمی اداروں کو قومیانے کی جو خدمت کی وہ کبھی فراموش نہ کی جاسکے گی، اس میں انیتا غلام علی کا کردار نمایاں اور مثبت رہا۔ وہ این ایس ایف میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہیں۔ دیگر صنعتی ادارے جو قومیائے گئے وہ ناکام ہوئے، مگر تعلیمی اداروں کو قومیانے کا عمل بہتر رہا ہے۔

بھٹو کے بعد قومیانے کے عمل کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا گیا۔ کیونکہ آج بھی بڑے تعلیمی ادارے نمایاں کارکردگی کے حامل ہیں، مگر ہماری حکومتیں تعلیمی اداروں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہیں اور تعلیمی اداروں میں طلبا یونینوں کو بحال کرنے سے گریزاں ہیں۔

صدر ضیا الحق کی مخالفت پر سب آمادہ اور جمہور کی آواز کو سب پکارتے ہیں، مگر طلبا یونین بحال نہ کرنے میں سب متحد ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی کسی بھی حکومت کا کوئی واضح منشور نہیں ہے۔ بس یہ جمہوریت کی رٹ لگانے میں مصروف ہیں۔ ان کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ عوامی راج کو کچلنا اور خاندانی جمہوریت ان کا منشور ہے، جب جمہوریت کی یاد آتی ہے تو کچھ دیر کے لیے کمزور آمریت میں جھانک لیتے ہیں، جو آج سے زیادہ جمہوری دور کا حامل تھا۔ اسی لیے آج بھی 50 برس پرانے دور میں جھانک کر کھلی ہوا میں دس منٹ کے لیے سانس لے لی، کیونکہ ان دنوں آمر عوامی تحریکوں سے لرزہ براندام تھے اور آج حاکم دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں، مگر کسی کو فرصت نہیں کہ وہ عوامی مسائل پر گفتگو بھی کرسکے، خود میرے ہاتھوں میں بھی قلم تو ہے مگر عَلم نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں