فضل الاُمم
نبی کریم ﷺ سردار انبیا ہیں تو یہ امت بھی امتوں کی سردار بنائی گئی ہے، اس کو خیر امت اور فضل الاُمم کہا گیا۔
مقصدِ زندگی عبادت اور خلافت ہے، سب سے بڑے عابد دنیا میں نبی کریم ﷺ تھے اور سب سے بڑے اللہ کے نائب نبی کریم ﷺ تھے، تو ان کی امت کو بھی سب سے بڑا عابد اور سب سے بڑا نائب خداوندی بننا چاہیے۔ یہ امت اس لیے آئی ہے کہ رات دن عبادت میں مصروف رہے، رات دن اللہ تعالیٰ کی نائب بن کر مخلوق کی اصلاح کرے، یہ اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے اٹھے، اپنی زندگی اور موت کا مقصد یہ سمجھے کہ میں چاہے جیوں یا مروں، مگر نام خدا کا اونچا ہو، تو اللہ اس قوم کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا۔
ذلت و رسوائی جب ہوتی ہے جب کوئی خدا کے نام کو چھوڑ کر اپنی برتری چاہے، اپنے عیش کو آگے رکھے۔ خدا کی طرف سے اس کی مدد نہیں ہوتی۔ اس پر دشمن اقوام مسلط کی جاتی ہیں، جو اس کو غلامی میں بھی جکڑ دیتی ہیں۔ لیکن جو کہے مجھے ملک و دولت مقصود نہیں، مجھے اللہ کا نام اونچا کرنا ہے، میری دولت، میری جان اور خاندان اس کے لیے وقف ہے، اس نصب العین کے تحت زندگی ہوگی، وہ باعزت ہوگی، موت ہوگی وہ بھی باعزت ہوگی۔ انسان کو اصل میں عزت کی زندگی کے لیے اللہ کا نائب بناکر بھیجا گیا ہے، دنیا میں ذلیل ہونے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔
سب سے بڑے خلیفہ خداوندی اور عابد خداوندی نبی کریم ﷺ ہیں۔ جیسے وہ سردار انبیا ہیں تو یہ امت بھی امتوں کی سردار بنائی گئی ہے، اس کو خیر امت اور فضل الاُمم کہا گیا۔ مگر افضلیت کیوں ہے، کھانے پینے اور دولت کی وجہ سے نہیں، اس وجہ سے کہ اس کا کام یہ ہے کہ یہ دنیا کی قوموں کی اصلاح کرے، دنیا کی قوموں میں جو کھوٹ ہے اس کو رفع کرے اور اگر یہ دنیا کی قوموں کی نقالی کرنے لگے کہ جو کھوٹ ان کے اندر ہے وہ اپنے اندر لے لے تو پھر یہ اصلاح کیا کرے گی۔ اس کا حاصل تو یہ نکلا کہ دوسری قومیں اس پر غالب آئیںگی۔ یہ صرف ایک چیز سے غالب آسکتی ہے وہ یہ کہ یہ کلمۂ خداوندی کو اونچا کرنے کا نصب العین لے کر چلے۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
''تم دنیا کی قوموں پر دولت سے غالب نہیں آسکتے، دولت دوسروں کے پاس زیادہ ہے۔ تعداد میں تم دنیا پر غالب نہیں آسکتے، اہل باطل کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے اور رہے گی، تم اگر دنیا کی قوموں پر غالب آؤگے تو اخلاق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے غالب آؤ گے، کردار سے غالب آؤگے دین کو لے کر اٹھوگے تو غالب آؤگے، اس لیے سب سے بڑھ کر تمہارے پاس حجت دین ہے، اس سے بڑھ کر کوئی حجت نہیں۔''
قرآن کریم میں فرمایا گیا، اگر ہم ان مسلمانوں کو طاقت و اقتدار اور بادشاہت دے دیں تو ان کا مقصد کھانا پینا نہیں ہوگا، ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ترجمانی ہوگا۔ یہ نمازوں کا نظام قائم کریں گے، صدقات پر دنیا کو مائل کریں گے، اچھی باتوں کا آرڈر جاری کریں گے، برائیوں سے دنیا کو روکیں گے، یہ ان کا کام ہوگا۔ معلوم ہوا سلطنت دینے کا بڑا مقصد امر بالمعروف کا نظام قائم کرنا اور منکرات کو دنیا سے مٹانا ہے۔
اسی کا نام خلافت ہے۔ دنیا کے اقوام کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں، کسی کا مقصد دولت، کسی کا روٹی، کسی کا اقتدار، جب کہ اسلام اور مسلمانوں کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے جب نبوت کے بعد خلافت ربانی کا کام شروع کیا اور اسلام کی دعوت دی تو پورا مکہ، حجاز اور ساری قوم آپ کی دشمن تھی، عزیز اقربا دشمن، صرف تین آدمی مسلمان ہوئے، بوڑھوں میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور لڑکوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، باقی سارا خاندان دشمن، لیکن آپؐ نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ پورے استقلال کے ساتھ اس کلمہ کو لے کر چلے، قوت مکہ والوں کے ہاتھ میں تھی، تعداد ان کی زیادہ تھی، دوسری طرف تیرہ آدمی۔ جب مسلمان ہوئے تو دار ارقم میں اندر سے زنجیر لگاکر نماز پڑھی جاتی تھی۔ خطرے کی وجہ سے مسلمان باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
ناداری اور مفلسی کا عالم تھا۔ افلاس کا یہ عالم کہ کھانے کو نہ ملے، اس کے باوجود زندگی کا مقصد یہ تھا کہ اس کلمہ کو اونچا کرنا ہے، ہم خواہ مٹیں یا رہیں۔ تیرہ برس کے بعد پورا مکہ اور پورا حجاز اسلام میں داخل ہوا۔ یہی قوم جو اقلیت میں تھی اکثریت میں آگئی۔ وہ قوم جو بے شوکت تھی، ساری شوکتیں اس کے ہاتھ میں آگئیں اور جو قومیں شیر بنی ہوئی تھیں وہ اس کے سامنے جھک گئیں۔
حضرت اقدس ﷺ جب اپنے منصب نبوت میں مشغول ہوئے تو اپنی دعوت کو دین و دنیا کے جامع اصول پر قائم فرمایا، ہر ایک کے لیے تقسیم کار متعین فرما کر کامیابیوں اور ترقی کے مدارج طے کرادیے، کوئی صاحب وضو، کوئی صاحب فراش و نعلین، کوئی گھوڑے کے اصطبل اور کوئی دربانی کا شرف رکھتا تھا، تمام شعبۂ حیات جن کا تصور کیا جاسکتا ہے حضورؐ کی حیات طیبہ میں موجود نظر آتے ہیں۔ تمام چیزوں کے دفاتر اور کاروبار سے حضورؐ کا زمانہ خالی نہیں تھا، ہر ایک آپؐ پر جان نثار تھا۔ اس وقت کے حالات کتابوں کے ذریعے ہم کو بہت دیر سے پہنچے، کیونکہ کتابیں تو بعد میں تدوین ہوئیں اور ان کتابوں میں جو تمدن اسلامی کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے وہ سلطنت اموی اور عباسی سے متعلق ہے، بعض اوقات عیسائی وغیرہ بنو عباس کے اسلامی شہروں میں آتے تھے اور اپنے طور طریقے جو یونان اور فارس کے تمدن سے ہم آہنگ تھے مسلمانوں میں جاری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
بعض اہل شام کے رسائل سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انھوں نے اپنے مذہب کو پھیلانے کی کوشش کی۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ اہل کتاب نے جہالت سے فائدہ اٹھاکر سیرت اور احادیث کو مسلمانوں سے ترک کروایا۔ اسلامی تمدن تو ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا اور یہی شریعت ہی تمام ترقیات کا عنوان ہے۔ علم، ادب، فلسفہ، صنعت، تجارت، زراعت، ہر ہر شعبہ میں صحابہ کرامؓ ہی کی اقتدا کی جاتی تھی۔ قرآن کریم نے انسانی بھائی چارہ اور آزاد قسم کے نفع بخش طریقے بتائے اور صرف دس سال میں زندگی کو بام ترقی پر پہنچادیا۔
ابن خلدون نے کہا اس دور کے مذاہب میں کوئی علم والے نہیں تھے، نہ تو صنعت اور کاریگری میں، لیکن اللہ جل شانہ کے اوامر اور نواہی کو سیکھنے سکھانے میں لگے رہتے تھے، علم کو سینہ بہ سینہ منتقل کیا کرتے تھے، تعلیم اور تالیف و تدوین سے نا آشنا تھے، اس طرف رجوع نہیں کرتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ نہ ہی حاجت پیش آتی تھی۔ حضور ﷺ کا دور اس عروج پر پہنچا کہ اس کی مثال نہیں ملتی، صرف دس سال میں لوگوں کے اندر ہر حیثیت سے مثلاً علم، کتابی یا تربیتی، ہر عنوان سے ایک جامع قوت اور عظیم الشان اتحاد ان میں پیدا ہوگیا تھا، دعوت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔ اس مختصر عرصے میں ایسا نظام حکومت معاشرہ میں پیش کیا کہ دوسری قومیں سیکڑوں سال میں بھی نہ کرسکیں۔
ذرا غور کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل چہار طرف ویرانہ، ہلاکت، ظلمت، مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی تھی، یہاں تک کہ رومی سلطنت ہار گئی اور اہل فارس ناکام ہوگئے۔ طویل جنگ و جدال، جہالت کا دور دورہ تھا، قبائلی عرب کی ناکامی اور ان کی جہالت، کفر و ضلالت کو بھی پیش نظر رکھیے، اس اثناء میں یہ نور نبوت کا شعلہ جلوہ گر ہوا اور عالم کو روشن کردیا۔ بنیادی حقوق کی نشر و اشاعت، لوگوں کی تعلیم و تربیت دیکھتے دیکھتے مکمل ہوگئی۔
ذلت و رسوائی جب ہوتی ہے جب کوئی خدا کے نام کو چھوڑ کر اپنی برتری چاہے، اپنے عیش کو آگے رکھے۔ خدا کی طرف سے اس کی مدد نہیں ہوتی۔ اس پر دشمن اقوام مسلط کی جاتی ہیں، جو اس کو غلامی میں بھی جکڑ دیتی ہیں۔ لیکن جو کہے مجھے ملک و دولت مقصود نہیں، مجھے اللہ کا نام اونچا کرنا ہے، میری دولت، میری جان اور خاندان اس کے لیے وقف ہے، اس نصب العین کے تحت زندگی ہوگی، وہ باعزت ہوگی، موت ہوگی وہ بھی باعزت ہوگی۔ انسان کو اصل میں عزت کی زندگی کے لیے اللہ کا نائب بناکر بھیجا گیا ہے، دنیا میں ذلیل ہونے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔
سب سے بڑے خلیفہ خداوندی اور عابد خداوندی نبی کریم ﷺ ہیں۔ جیسے وہ سردار انبیا ہیں تو یہ امت بھی امتوں کی سردار بنائی گئی ہے، اس کو خیر امت اور فضل الاُمم کہا گیا۔ مگر افضلیت کیوں ہے، کھانے پینے اور دولت کی وجہ سے نہیں، اس وجہ سے کہ اس کا کام یہ ہے کہ یہ دنیا کی قوموں کی اصلاح کرے، دنیا کی قوموں میں جو کھوٹ ہے اس کو رفع کرے اور اگر یہ دنیا کی قوموں کی نقالی کرنے لگے کہ جو کھوٹ ان کے اندر ہے وہ اپنے اندر لے لے تو پھر یہ اصلاح کیا کرے گی۔ اس کا حاصل تو یہ نکلا کہ دوسری قومیں اس پر غالب آئیںگی۔ یہ صرف ایک چیز سے غالب آسکتی ہے وہ یہ کہ یہ کلمۂ خداوندی کو اونچا کرنے کا نصب العین لے کر چلے۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
''تم دنیا کی قوموں پر دولت سے غالب نہیں آسکتے، دولت دوسروں کے پاس زیادہ ہے۔ تعداد میں تم دنیا پر غالب نہیں آسکتے، اہل باطل کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے اور رہے گی، تم اگر دنیا کی قوموں پر غالب آؤگے تو اخلاق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے غالب آؤ گے، کردار سے غالب آؤگے دین کو لے کر اٹھوگے تو غالب آؤگے، اس لیے سب سے بڑھ کر تمہارے پاس حجت دین ہے، اس سے بڑھ کر کوئی حجت نہیں۔''
قرآن کریم میں فرمایا گیا، اگر ہم ان مسلمانوں کو طاقت و اقتدار اور بادشاہت دے دیں تو ان کا مقصد کھانا پینا نہیں ہوگا، ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ترجمانی ہوگا۔ یہ نمازوں کا نظام قائم کریں گے، صدقات پر دنیا کو مائل کریں گے، اچھی باتوں کا آرڈر جاری کریں گے، برائیوں سے دنیا کو روکیں گے، یہ ان کا کام ہوگا۔ معلوم ہوا سلطنت دینے کا بڑا مقصد امر بالمعروف کا نظام قائم کرنا اور منکرات کو دنیا سے مٹانا ہے۔
اسی کا نام خلافت ہے۔ دنیا کے اقوام کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں، کسی کا مقصد دولت، کسی کا روٹی، کسی کا اقتدار، جب کہ اسلام اور مسلمانوں کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے جب نبوت کے بعد خلافت ربانی کا کام شروع کیا اور اسلام کی دعوت دی تو پورا مکہ، حجاز اور ساری قوم آپ کی دشمن تھی، عزیز اقربا دشمن، صرف تین آدمی مسلمان ہوئے، بوڑھوں میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور لڑکوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، باقی سارا خاندان دشمن، لیکن آپؐ نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ پورے استقلال کے ساتھ اس کلمہ کو لے کر چلے، قوت مکہ والوں کے ہاتھ میں تھی، تعداد ان کی زیادہ تھی، دوسری طرف تیرہ آدمی۔ جب مسلمان ہوئے تو دار ارقم میں اندر سے زنجیر لگاکر نماز پڑھی جاتی تھی۔ خطرے کی وجہ سے مسلمان باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
ناداری اور مفلسی کا عالم تھا۔ افلاس کا یہ عالم کہ کھانے کو نہ ملے، اس کے باوجود زندگی کا مقصد یہ تھا کہ اس کلمہ کو اونچا کرنا ہے، ہم خواہ مٹیں یا رہیں۔ تیرہ برس کے بعد پورا مکہ اور پورا حجاز اسلام میں داخل ہوا۔ یہی قوم جو اقلیت میں تھی اکثریت میں آگئی۔ وہ قوم جو بے شوکت تھی، ساری شوکتیں اس کے ہاتھ میں آگئیں اور جو قومیں شیر بنی ہوئی تھیں وہ اس کے سامنے جھک گئیں۔
حضرت اقدس ﷺ جب اپنے منصب نبوت میں مشغول ہوئے تو اپنی دعوت کو دین و دنیا کے جامع اصول پر قائم فرمایا، ہر ایک کے لیے تقسیم کار متعین فرما کر کامیابیوں اور ترقی کے مدارج طے کرادیے، کوئی صاحب وضو، کوئی صاحب فراش و نعلین، کوئی گھوڑے کے اصطبل اور کوئی دربانی کا شرف رکھتا تھا، تمام شعبۂ حیات جن کا تصور کیا جاسکتا ہے حضورؐ کی حیات طیبہ میں موجود نظر آتے ہیں۔ تمام چیزوں کے دفاتر اور کاروبار سے حضورؐ کا زمانہ خالی نہیں تھا، ہر ایک آپؐ پر جان نثار تھا۔ اس وقت کے حالات کتابوں کے ذریعے ہم کو بہت دیر سے پہنچے، کیونکہ کتابیں تو بعد میں تدوین ہوئیں اور ان کتابوں میں جو تمدن اسلامی کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے وہ سلطنت اموی اور عباسی سے متعلق ہے، بعض اوقات عیسائی وغیرہ بنو عباس کے اسلامی شہروں میں آتے تھے اور اپنے طور طریقے جو یونان اور فارس کے تمدن سے ہم آہنگ تھے مسلمانوں میں جاری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
بعض اہل شام کے رسائل سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انھوں نے اپنے مذہب کو پھیلانے کی کوشش کی۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ اہل کتاب نے جہالت سے فائدہ اٹھاکر سیرت اور احادیث کو مسلمانوں سے ترک کروایا۔ اسلامی تمدن تو ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا اور یہی شریعت ہی تمام ترقیات کا عنوان ہے۔ علم، ادب، فلسفہ، صنعت، تجارت، زراعت، ہر ہر شعبہ میں صحابہ کرامؓ ہی کی اقتدا کی جاتی تھی۔ قرآن کریم نے انسانی بھائی چارہ اور آزاد قسم کے نفع بخش طریقے بتائے اور صرف دس سال میں زندگی کو بام ترقی پر پہنچادیا۔
ابن خلدون نے کہا اس دور کے مذاہب میں کوئی علم والے نہیں تھے، نہ تو صنعت اور کاریگری میں، لیکن اللہ جل شانہ کے اوامر اور نواہی کو سیکھنے سکھانے میں لگے رہتے تھے، علم کو سینہ بہ سینہ منتقل کیا کرتے تھے، تعلیم اور تالیف و تدوین سے نا آشنا تھے، اس طرف رجوع نہیں کرتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ نہ ہی حاجت پیش آتی تھی۔ حضور ﷺ کا دور اس عروج پر پہنچا کہ اس کی مثال نہیں ملتی، صرف دس سال میں لوگوں کے اندر ہر حیثیت سے مثلاً علم، کتابی یا تربیتی، ہر عنوان سے ایک جامع قوت اور عظیم الشان اتحاد ان میں پیدا ہوگیا تھا، دعوت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔ اس مختصر عرصے میں ایسا نظام حکومت معاشرہ میں پیش کیا کہ دوسری قومیں سیکڑوں سال میں بھی نہ کرسکیں۔
ذرا غور کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل چہار طرف ویرانہ، ہلاکت، ظلمت، مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی تھی، یہاں تک کہ رومی سلطنت ہار گئی اور اہل فارس ناکام ہوگئے۔ طویل جنگ و جدال، جہالت کا دور دورہ تھا، قبائلی عرب کی ناکامی اور ان کی جہالت، کفر و ضلالت کو بھی پیش نظر رکھیے، اس اثناء میں یہ نور نبوت کا شعلہ جلوہ گر ہوا اور عالم کو روشن کردیا۔ بنیادی حقوق کی نشر و اشاعت، لوگوں کی تعلیم و تربیت دیکھتے دیکھتے مکمل ہوگئی۔