مظلوم پولیس
ملک بھر میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پولیس محض چند اضلاع تک محدود ہے۔
لاہور:
ملک بھر میں آزاد کشمیر سمیت چھ علاقوں کی پولیس کام کررہی ہے، جس میں پنجاب پولیس ملک کی سب سے بڑی پولیس ہے ،جس پر رشوت کے الزامات اور جس کی شکایات بھی بہت زیادہ ہیں اور کراچی پولیس کمائی کرنے میں ملک میں سرفہرست ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں کراچی پولیس میں شمولیت کو ترجیح دی جاتی ہے، جس میں شمولیت سے ترقی جلد اور کمائی بھی سب سے زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ کراچی پولیس میں تبادلے کے لیے رشوت اور سیاسی اثر و رسوخ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ملک بھر میں کراچی پولیس کے لیے دبئی بنا ہوا ہے۔
کراچی میں نچلی سطح کے اکثر اہلکار لکھ پتی، انسپکٹر و ڈی ایس پی کروڑ پتی جب کہ اس سے اوپر پولیس افسران ارب پتی بنے ہوئے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل میں کراچی پولیس سب سے زیادہ بدنام ہے، جس نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ان کے بھائی کو بھی نہیں بخشا تھا اور کلفٹن میں میر مرتضیٰ بھٹو کو جو ممتاز سیاسی شخصیت بھی تھے سرعام قتل کردیا تھا۔
اس اہم قتل میں متعدد پولیس افسران ملوث تھے، مگر مقدمات میں انھیں سزا نہیں ہوئی بلکہ انھیں ترقیاں اور اعلیٰ عہدوں سے نوازا گیا، جب کہ راولپنڈی کے دو اعلیٰ افسروں کو بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملوث نہ ہونے کے باوجود سزا ملی، کیونکہ میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل سیاسی طور پر ماورائے عدالت قتل بھی تھا جب کہ بے نظیر بھٹو کا قتل دہشت گردی تھی، جس کا پیشگی الزام خود محترمہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف پر لگاچکی تھیں۔
ملک بھر میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پولیس محض چند اضلاع تک محدود ہے اور بلوچستان پولیس کی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے بھی کوئی منفی رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی۔ دہشت گردی کے سلسلے میں بلوچستان اور کے پی کے پولیس سب سے زیادہ نشانہ بنی ہیں، جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے اور ایک سپاہی سے لے کر ایڈیشنل آئی جی پولیس تک دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جب کہ پنجاب پولیس بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہی اور وہاں بھی کافی جانی نقصان ہوچکا ہے اور اجتماعی طور پر بھی پولیس دہشت گردی کا متعدد بار نشانہ بنائی گئی، جب کہ آزاد کشمیر اور گلگت کی پولیس کافی حد تک محفوظ رہی ہے ۔
پولیس دہشت گردی کا یہاں تک شکار ہوئی کہ کراچی آپریشن میں شریک پولیس افسروں اور سپاہیوں کو نہ صرف چن چن کر مارا گیا، بلکہ مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے لیے موجود ایک مشہور پولیس انسپکٹر کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 1992 کے بعد جو آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے خلاف شروع کیا گیا تھا، جس کو پولیس نے سیاسی بناکر ایک سیاسی جماعت کے خلاف بنادیا تھا، جس میں بے گناہوں کو دن دیہاڑے جعلی مقابلوں میں مارا گیا اور اصل ذمے دار روپوش اور کراچی سے فرار ہوکر محفوظ رہے تھے اور یہ آپریشن پولیس کی کمائی کا سب سے بڑا اور بہترین ذریعہ تھا، جس میں پولیس نے لوگوں کو زندگی بخشنے اور جھوٹے مقدمات سے بچانے کے نام پر اربوں روپے رشوت وصول کی تھی۔
آج کل کراچی کا نہایت بااثر ایس ایس پی مذہبی جماعتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے، جس نے کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کو مبینہ مقابلوں میں ہلاک کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی ایما پر نومبر میں اسٹار گیٹ میں بے گناہوں پر فائرنگ کی گئی تھی، جس میں ایک شخص ہلاک ہوا، جس پر احتجاج کے بعد ایک ایس ایس پی کے اس عہدے سے ہٹائے جانے اور دوبارہ وہیں تعینات ہونے کا ریکارڈ رکھنے والے ایس ایس پی کو ایک بار پھر ہٹادیا گیا ہے، جو اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے باعث جلد ہی دوبارہ تعینات ہوگا۔
یہ مثال ہے سندھ میں پولیس کے سیاسی ہونے کی کہ عدالت بھی اس ایس ایس پی کے خلاف ریمارکس دے چکی ہے اور اس کے خلاف کئی انکوائریاں بھی چل رہی ہیں مگر سندھ کی نہایت اہم سیاسی شخصیت کا پسندیدہ ایس ایس پی اپنے عہدے پر ہمیشہ واپس آیا اور کوئی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا ہے۔
کے پی کے پولیس کو غیر سیاسی بنادینے اور بہترین کارکردگی کی دعویدار کے پی کے حکومت اور عمران خان اپنی پولیس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے جس کی تردید ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعہ نے کردی، جہاں پولیس نے علی امین گنڈاپور کا یہاں تک ساتھ دیا کہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی بھی پولیس پر پھٹ پڑے۔ کے پی کے پولیس پر مسلسل حملے ہورہے ہیں اور بڑا جانی نقصان ہوچکا ہے مگر وہ بہترین کارکردگی کہیں نظر نہیں آئی جس کی تعریفیں ہورہی ہیں۔
اسلام آباد پولیس صوبے کی نہیں وفاق کی پولیس ہے، جہاں سیاسی مداخلت کم اور حکمران پارٹی کی مداخلت زیادہ رہی ہے اور یہ پولیس ملک بھر میں سب سے مظلوم ہے جو سیاسی و مذہبی تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی آرہی ہے اور آئے دن کے چھوٹے بڑے دھرنے پولیس کی جان نہیں چھوڑ رہے اور اس کے لیے عذاب بن چکے ہیں اور پولیس کو کارکردگی دکھانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
اسلام آباد پولیس حکمرانوں کو پروٹوکول دینے ہی میں مصروف نظر آتی ہے اور عید بقر عید کے موقع پر جب حکمران اور اعلیٰ افسران اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں، مگر اسلام آباد میں موجود سفارتخانوں کے عملے کو سیکیورٹی فراہم کرنا اسلام آباد پولیس کی سب سے اہم ذمے داری ہے، اس لیے پولیس کو آرام کم ہی ملتا ہے، سیاسی اور مذہبی دھرنوں میں حکمران مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں اور سزا پولیس کا مقدر بنتی آرہی ہے۔
عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں میں پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ ایس ایس پی بھی دھرنے والوں کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنے تھے اور اب دھرنے میں غریب پولیس اہلکاروں پر ماہ ربیع الاول میں تشدد کیا گیا اور انھیں جانی نقصان پہنچایا گیا جس کی مثال کسی صوبے میں نہیں ملتی۔
دھرنوں میں وفاقی حکومت پولیس کو تو استعمال کرتی ہے مگر ان کے تحفظ پر توجہ دی جاتی ہے، نہ ان کی خوراک و رہائش کا خیال رکھا جاتا ہے، جس کا ثبوت حالیہ دھرنے میں 173 پولیس اہلکاروں کا زخمی ہونا ہے، جو سیاست کے لیے مگر مذہبی جنونیوں کے تشدد سے زخمی ہوئے، جس میں حکومتی نااہلی ایک اہم عنصر بنی۔
دھرنے والوں نے اپنے حالیہ دھرنے میں بے گناہ پولیس والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، وہ بھی مسلمان اور اپنے نبی کے ماننے والے تھے، جو سخت سردی میں سرکاری ڈیوٹی دیتے رہے اور دھرنے کے رہنما پولیس والوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے رہے، مگر انھوں نے اپنی مرضی سے کسی پر تشدد نہیں کیا مگر ان کے ساتھ دھرنے والوں نے دشمنوں جیسا سلوک کیا اور مزید زیادتی یہ ہوئی کہ زخمی اہلکاروں کا اچھے اسپتالوں میں سرکاری علاج کرانے کے بجائے زخمیوں کو ان کے گھروں کو بھجوا دیا گیا اورحکومتی وزراء کو ان کی عیادت یا ان کی کارکردگی سراہنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ ایک ٹی وی پر زخمی پولیس اہلکاروں کے دکھائے گئے بیانات ان کی مظلومیت کا واضح ثبوت ہیں۔
اسلام آباد پولیس کو ہر بڑی گاڑی والا وی آئی پی لگتا ہے اور انھیں احتیاط سے انھیں چیک کرنا پڑتا ہے کہ کہیں کسی کا استحقاق مجروح نہ ہوجائے، جب کہ دیگر صوبوں میں ایسا نہیں ہے اور اسلام آباد پولیس کی شکایات بھی دوسروں سے کم ہیں اور وہ کمائی میں بھی سب سے پیچھے اور مظلومیت میں سب سے آگے ہیں، جن کی وفاقی حکومت بھی جائز مدد یا حوصلہ افزائی نہیں کرتی اور یہی ہمارا المیہ ہے۔
ملک بھر میں آزاد کشمیر سمیت چھ علاقوں کی پولیس کام کررہی ہے، جس میں پنجاب پولیس ملک کی سب سے بڑی پولیس ہے ،جس پر رشوت کے الزامات اور جس کی شکایات بھی بہت زیادہ ہیں اور کراچی پولیس کمائی کرنے میں ملک میں سرفہرست ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں کراچی پولیس میں شمولیت کو ترجیح دی جاتی ہے، جس میں شمولیت سے ترقی جلد اور کمائی بھی سب سے زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ کراچی پولیس میں تبادلے کے لیے رشوت اور سیاسی اثر و رسوخ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ملک بھر میں کراچی پولیس کے لیے دبئی بنا ہوا ہے۔
کراچی میں نچلی سطح کے اکثر اہلکار لکھ پتی، انسپکٹر و ڈی ایس پی کروڑ پتی جب کہ اس سے اوپر پولیس افسران ارب پتی بنے ہوئے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل میں کراچی پولیس سب سے زیادہ بدنام ہے، جس نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ان کے بھائی کو بھی نہیں بخشا تھا اور کلفٹن میں میر مرتضیٰ بھٹو کو جو ممتاز سیاسی شخصیت بھی تھے سرعام قتل کردیا تھا۔
اس اہم قتل میں متعدد پولیس افسران ملوث تھے، مگر مقدمات میں انھیں سزا نہیں ہوئی بلکہ انھیں ترقیاں اور اعلیٰ عہدوں سے نوازا گیا، جب کہ راولپنڈی کے دو اعلیٰ افسروں کو بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملوث نہ ہونے کے باوجود سزا ملی، کیونکہ میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل سیاسی طور پر ماورائے عدالت قتل بھی تھا جب کہ بے نظیر بھٹو کا قتل دہشت گردی تھی، جس کا پیشگی الزام خود محترمہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف پر لگاچکی تھیں۔
ملک بھر میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پولیس محض چند اضلاع تک محدود ہے اور بلوچستان پولیس کی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے بھی کوئی منفی رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی۔ دہشت گردی کے سلسلے میں بلوچستان اور کے پی کے پولیس سب سے زیادہ نشانہ بنی ہیں، جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے اور ایک سپاہی سے لے کر ایڈیشنل آئی جی پولیس تک دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جب کہ پنجاب پولیس بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہی اور وہاں بھی کافی جانی نقصان ہوچکا ہے اور اجتماعی طور پر بھی پولیس دہشت گردی کا متعدد بار نشانہ بنائی گئی، جب کہ آزاد کشمیر اور گلگت کی پولیس کافی حد تک محفوظ رہی ہے ۔
پولیس دہشت گردی کا یہاں تک شکار ہوئی کہ کراچی آپریشن میں شریک پولیس افسروں اور سپاہیوں کو نہ صرف چن چن کر مارا گیا، بلکہ مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے لیے موجود ایک مشہور پولیس انسپکٹر کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 1992 کے بعد جو آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے خلاف شروع کیا گیا تھا، جس کو پولیس نے سیاسی بناکر ایک سیاسی جماعت کے خلاف بنادیا تھا، جس میں بے گناہوں کو دن دیہاڑے جعلی مقابلوں میں مارا گیا اور اصل ذمے دار روپوش اور کراچی سے فرار ہوکر محفوظ رہے تھے اور یہ آپریشن پولیس کی کمائی کا سب سے بڑا اور بہترین ذریعہ تھا، جس میں پولیس نے لوگوں کو زندگی بخشنے اور جھوٹے مقدمات سے بچانے کے نام پر اربوں روپے رشوت وصول کی تھی۔
آج کل کراچی کا نہایت بااثر ایس ایس پی مذہبی جماعتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے، جس نے کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کو مبینہ مقابلوں میں ہلاک کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی ایما پر نومبر میں اسٹار گیٹ میں بے گناہوں پر فائرنگ کی گئی تھی، جس میں ایک شخص ہلاک ہوا، جس پر احتجاج کے بعد ایک ایس ایس پی کے اس عہدے سے ہٹائے جانے اور دوبارہ وہیں تعینات ہونے کا ریکارڈ رکھنے والے ایس ایس پی کو ایک بار پھر ہٹادیا گیا ہے، جو اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے باعث جلد ہی دوبارہ تعینات ہوگا۔
یہ مثال ہے سندھ میں پولیس کے سیاسی ہونے کی کہ عدالت بھی اس ایس ایس پی کے خلاف ریمارکس دے چکی ہے اور اس کے خلاف کئی انکوائریاں بھی چل رہی ہیں مگر سندھ کی نہایت اہم سیاسی شخصیت کا پسندیدہ ایس ایس پی اپنے عہدے پر ہمیشہ واپس آیا اور کوئی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا ہے۔
کے پی کے پولیس کو غیر سیاسی بنادینے اور بہترین کارکردگی کی دعویدار کے پی کے حکومت اور عمران خان اپنی پولیس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے جس کی تردید ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعہ نے کردی، جہاں پولیس نے علی امین گنڈاپور کا یہاں تک ساتھ دیا کہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی بھی پولیس پر پھٹ پڑے۔ کے پی کے پولیس پر مسلسل حملے ہورہے ہیں اور بڑا جانی نقصان ہوچکا ہے مگر وہ بہترین کارکردگی کہیں نظر نہیں آئی جس کی تعریفیں ہورہی ہیں۔
اسلام آباد پولیس صوبے کی نہیں وفاق کی پولیس ہے، جہاں سیاسی مداخلت کم اور حکمران پارٹی کی مداخلت زیادہ رہی ہے اور یہ پولیس ملک بھر میں سب سے مظلوم ہے جو سیاسی و مذہبی تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی آرہی ہے اور آئے دن کے چھوٹے بڑے دھرنے پولیس کی جان نہیں چھوڑ رہے اور اس کے لیے عذاب بن چکے ہیں اور پولیس کو کارکردگی دکھانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
اسلام آباد پولیس حکمرانوں کو پروٹوکول دینے ہی میں مصروف نظر آتی ہے اور عید بقر عید کے موقع پر جب حکمران اور اعلیٰ افسران اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں، مگر اسلام آباد میں موجود سفارتخانوں کے عملے کو سیکیورٹی فراہم کرنا اسلام آباد پولیس کی سب سے اہم ذمے داری ہے، اس لیے پولیس کو آرام کم ہی ملتا ہے، سیاسی اور مذہبی دھرنوں میں حکمران مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں اور سزا پولیس کا مقدر بنتی آرہی ہے۔
عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں میں پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ ایس ایس پی بھی دھرنے والوں کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنے تھے اور اب دھرنے میں غریب پولیس اہلکاروں پر ماہ ربیع الاول میں تشدد کیا گیا اور انھیں جانی نقصان پہنچایا گیا جس کی مثال کسی صوبے میں نہیں ملتی۔
دھرنوں میں وفاقی حکومت پولیس کو تو استعمال کرتی ہے مگر ان کے تحفظ پر توجہ دی جاتی ہے، نہ ان کی خوراک و رہائش کا خیال رکھا جاتا ہے، جس کا ثبوت حالیہ دھرنے میں 173 پولیس اہلکاروں کا زخمی ہونا ہے، جو سیاست کے لیے مگر مذہبی جنونیوں کے تشدد سے زخمی ہوئے، جس میں حکومتی نااہلی ایک اہم عنصر بنی۔
دھرنے والوں نے اپنے حالیہ دھرنے میں بے گناہ پولیس والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، وہ بھی مسلمان اور اپنے نبی کے ماننے والے تھے، جو سخت سردی میں سرکاری ڈیوٹی دیتے رہے اور دھرنے کے رہنما پولیس والوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے رہے، مگر انھوں نے اپنی مرضی سے کسی پر تشدد نہیں کیا مگر ان کے ساتھ دھرنے والوں نے دشمنوں جیسا سلوک کیا اور مزید زیادتی یہ ہوئی کہ زخمی اہلکاروں کا اچھے اسپتالوں میں سرکاری علاج کرانے کے بجائے زخمیوں کو ان کے گھروں کو بھجوا دیا گیا اورحکومتی وزراء کو ان کی عیادت یا ان کی کارکردگی سراہنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ ایک ٹی وی پر زخمی پولیس اہلکاروں کے دکھائے گئے بیانات ان کی مظلومیت کا واضح ثبوت ہیں۔
اسلام آباد پولیس کو ہر بڑی گاڑی والا وی آئی پی لگتا ہے اور انھیں احتیاط سے انھیں چیک کرنا پڑتا ہے کہ کہیں کسی کا استحقاق مجروح نہ ہوجائے، جب کہ دیگر صوبوں میں ایسا نہیں ہے اور اسلام آباد پولیس کی شکایات بھی دوسروں سے کم ہیں اور وہ کمائی میں بھی سب سے پیچھے اور مظلومیت میں سب سے آگے ہیں، جن کی وفاقی حکومت بھی جائز مدد یا حوصلہ افزائی نہیں کرتی اور یہی ہمارا المیہ ہے۔