قانون سب کے لیے

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے بہت صحیح فرمایا ہے کہ جہاں بھی ظلم ہوگا قانون اس کی مدد کو پہنچے گا۔


سیدہ شہلا رضا December 15, 2017

یہ واقعہ اگر سندھ کے کسی شہر میں ہوتا تو وہ ہنگامہ ہوتا کہ الامان۔ ہر چینل اس پر ایک نہیں بلکہ کئی پروگرام کرتا۔ خود ساختہ مستند تجزیہ کار اس پر ایسے تبصرے کرتے کہ اﷲ کی پناہ اور تمام اینکر اور تمام تجزیہ کار اس ایک بات پر متفق ہوتے کہ ''سندھ کی حکومت کو فوری طور پر برطرف کیاجائے'' دوسری جانب خواتین کی حقوق کی چیمپئن این جی اوز بھی ریلیاں نکال کر یہی مطالبہ دہراتیں، بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ اس واقعے پر فائیو اسٹار ہوٹلز میں سمینارز بھی کرواتیں اور مطالبہ ان کا بھی وہی ہوتا جو باقی لوگ کررہے ہوتے۔

لیکن معاملہ چونکہ انوکھے لاڈلے کا تھا، اس لیے اس پر تقریباً ہر زبان پر ابلے پڑ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس پر بات ضرور ہوئی لیکن اس شدت سے نہیں جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ ایک گروپ یہاں بھی ایسا تھا جس نے معاملہ دبانے کی کوشش کی یا پھر حقائق کو کسی اور جانب موڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب معاملے نے سیاسی رخ اختیار کیا تو لوگ اصل موضوع سے ہٹ کر کسی اور طرح کی بات کرنے لگے۔ کسی کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ ایک لڑکی کو برہنہ حالت میں بازار میں گھمایاگیا اور بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی کہ مظلوم لڑکی کی صرف فریاد نہیں سنی گئی، بلکہ اس خاندان کے خلاف ایف آئی آر بھی کاٹی گئی جس کے ساتھ ظلم ہوا۔ مجرم نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ ان کی دہشت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ سب کچھ اس صوبے میں ہوا جہاں انصاف اور تبدیلی کے نام پر اقتدار حاصل کیا گیا، جہاں کے بارے میں صبح شام یہ کہا جارہا ہے کہ ''پولیس آزاد ہے'' اور ''انصاف کا بول بالا ہے''۔

میرا موضوع یہ نہیں کہ پولیس کی کارکردگی زبردست ہے یا نہیں، کیونکہ یہ حقیقت تو بنوں جیل سے لے کر اے پی ایس اور پھر مشال خان کے قتل سے ظاہر ہے۔ میرا موضوع یہ بھی نہیں کہ ایک ہی جماعت کے ایم این اے اور صوبائی وزیر کے درمیان کیا اختلافات تھے یا ہیں اور کون اس واقعے سے کیا فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے۔ میرے لیے اس بات کی بھی اہمیت نہیں ہے کہ کس نے کس کو خط لکھا اور خط میں کیا تحریر تھا، بلکہ مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ پولیس نے کسی کا دباؤ قبول کیا اور کون اپنی قیادت کے قربت کی وجہ سے سرخرو رہا۔ کہنا صرف اتنا ہے کہ کیوں یہ واقعہ ہوا؟ آخر اس خاندان سے ایسا کون سا جرم ہوا کہ انھیں اس طرح سے رسوا کیا گیا؟

میری شکایت نہ میڈیا سے ہے، نہ سکہ بند دانشوروں سے ہے اور نہ ہی ان تجزیہ کاروں سے ہے جو ایک مخصوص عینک لگا کر تبصرے فرماتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن کی سیاسی وابستگیاں ایسی ہیں، اتنی تبدیل ہیں کہ اپنے محدثین کی غلطیاں نظر انداز کرنے کو ہی وہ صحافت سمجھتے ہیں۔ جب کوئی تجزیہ کار علانیہ اس بات پر فخر کرے کہ فلاں پارٹی کا قیام میری کار میں ہوا ہے تو ایسے فرد سے کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے وہ آزادانہ تجزیہ کرسکتا ہے۔

لیکن زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے جو فون پر ملنے والی ہدایت کے تابع رہتے ہیں، ان میں وہ بھی شامل ہیں جو صرف جھوٹ گھڑتے ہیں، بلکہ اس شدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ وہ سچ دکھائی دے۔ کسی کے گھر سے بیس ارب کی خطیر رقم برآمد ہونے کی نوید سناتے ہیں لیکن یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ برآمد کرنے والوں نے وہ رقم حکومت کے خزانے میں جمع کروائی یا نہیں۔ ایک روز یہ بتانے کے بعد کہ اربوں ڈالر لے جانے والی کشتی پکڑی گئی اور پھر دو دن بعد اطلاع دیتے ہیں کہ خبر کسی افریقی ملک کی تھی۔ ایسے کینہ پرور دروغ گو افراد کے لیے بھی سچ کی توقع رکھنا عبث ہے۔

مجھے شکایت ہے تو ان برسر اقتدار افراد سے، جن کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ اس واقعے کی نہ صرف تحقیقات کرتے بلکہ ملزمان کو ایسی سزا دی جاتی کہ آیندہ کوئی بھی طاقتور اس کا تصور بھی نہ کرسکے۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس، نہ وزیراعلیٰ نے اس پر کوئی ایکشن لیا اور نہ اقتدار میں شریک اس جماعت نے لب کھولے، جو چوبیس گھنٹے ملک میں اسلام کی سربلندی کے لیے خود کو وقف کردینے کے دعوے کرتے نہیں تھکتی۔

وزیراعلیٰ کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے کہ انھیں اندازہ تھا کہ جس جانب اشارہ کیا جارہا ہے وہ کتنے طاقتور ہیں، انھیں بہت واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ اگر انھوں نے کسی بھی قسم کی کوئی پیش قدمی کی تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو خط لکھنے والے ایم این اے کا ہوا۔ انگنت پارٹیاں بدل کر وہ بالآخر اس عہدہ پر پہنچے ہیں اور یقیناً وہ اس عہدے پر اس وقت تک رہنا چاہیںگے جب تک وہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن صبح شام اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے کی بات کرنے والی جماعت کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب انتخابات چند ماہ کی دوری پر ہیں۔

اگر میں نے لینن کا یہ قول نہ پڑھا ہوتا کہ انقلاب دشمن دلفریب اور ناقابل عمل نعرے لگا کر عوام کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں کہ ان کی زندگی مزید اذیت ناک ہوجاتی ہے، تو مجھے ان سے ضرور شکایت ہوتی جو نوے دن میں تبدیلی کا نعرہ لگاکر اس مقام تک تو پہنچ گئے کہ جہاں وہ عوام کی حالت بدل سکتے تھے، لیکن ہوا اس حد تک برعکس کہ حالات اور واقعات کو جان لینے کے باوجود ان کے پیروں میں اس حد تک جنبش نہیں ہوئی کہ وہ مظلوم خاندان سے اظہار ہمدردی ہی کر لیتے۔ جب کہ کروڑوں مالیت کی گاڑیوں سے لے کر ہیلی کاپٹر اور جہاز بھی ان کی دسترس میں تھے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ یہ فرما دیتے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، یہ سب جھوٹ ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ جو فیصلہ انھوں نے کیا وہ اس بنیاد پر کیا کہ جن پر الزام لگایا جارہا ہے وہ غلط ہے اور یہ الزامات اس لیے لگائے جارہے ہیں کہ پارٹی میں پھوٹ ڈالی جائے اور یہ سب کچھ کسی کے اشارے پر کیا جارہا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے بہت صحیح فرمایا ہے کہ جہاں بھی ظلم ہوگا قانون اس کی مدد کو پہنچے گا۔ لیکن میرا سوال صرف اتنا ہے کہ یہ کب شروع ہوگا؟ کب تک میڈیا انوکھے لاڈلوں کے ناز اٹھائے گا، کب تک کسی کے اشارے پر انتظامیہ اور پولیس وہ کچھ نہیں کرے گی جو اسے کرنا چاہیے؟ کاش وہ دن میری موت سے پہلے آجائے کہ جس دن ذاتی اور سیاسی مصلحت سے بلند ہوکر سوچنا شروع کردیں، ایک بار اگر ہم نے یہ سوچنا شروع کردیا تو عمل ہونا بھی شروع ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔