سامراجیت کی بدلتی شکلیں
عالمی سامراج نے دنیا کے انسانوں کو تقسیم کرکے رنگ ونسل اور مذہب،فرقہ اور زبان و لسان کی بنیاد پر سرحدیں قائم کردی ہیں۔
عالمی سامراج کا گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ رنگ تو گرگٹ بھی بدلتا ہے اور آکٹوپس بھی۔ مگر فرق یہ ہے کہ گرگٹ چھپنے کے لیے اور آکٹوپس شکار کو پکڑنے کے لیے رنگ بدلتے ہیں۔ پہلے عالمی سامراج جس طرح ویتنام، کوریا، زمبابوے، جنوبی افریقہ وغیرہ پر حملہ آور ہوتا تھا اب وہ اپنے پینترے بدل رہا ہے۔ کریمیا کے مسئلے پر بھاگ کھڑا ہوا، شام سے دستبردار ہونا پڑا، یمن میں بھی شکست سے دوچار ہے، افغانستان اور عراق سے بھی بھاگنے کا راستہ تلاش کررہا ہے۔
اس صورتحال میں امریکی سامراج کی لبنان میں مختلف کمیونٹی میں تضادات پھیلا کر آپس میں دست و گریباں کرنے کی کوششوں کو لبنانی صدر حریری نے ناکام بنادی۔ ادھر داعش کو شام اور عراق سے شکست کے بعد اب امریکی سامراج کو اسلحہ کی فروخت اور میدان جنگ کی تلاش تھی۔ اسرائیل میں 17 لاکھ شہری غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان میں یہودی، مسلمان، عیسائی اور دروز سب شامل ہیں، اس کے علاوہ اسرائیل میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی کرپشن کے خلاف بائیں بازو کا اتحاد سراپا احتجاج ہے، تل ابیب میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے بیت المقدس کے مشرقی حصے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں بجلی، سیوریج اور پانی کی مصنوعی قلت پیدا کردی ہے، یہ عمل فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہے، جب کہ بیت المقدس کے مغربی حصے میں یہودیوں کی نئی بستیاں آباد کی جارہی ہیں۔
اس ناانصافی اور جبر کے خلاف بیت المقدس میں بائیں بازو کی نو جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا ہے، جس میں دو کمیونسٹ پارٹیاں بھی شامل ہیں۔ سوشلسٹ کوریا پر بار بار حملے کی دھمکیاں دے کر امریکا کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے متنازع مسئلے کو چھیڑا ہے اور اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ ہے کہ بیت المقدس تینوں مذاہب یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ مقدس مقام ہے۔ سو اس مسئلے کو امریکا نے متنازع بنا کر مذاہب کے درمیان لڑائی جھگڑے کو جنم دیا ہے۔
ایک تو پہلے سے ہی مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی سے دنیا بھر کے عوام پریشان ہیں، اس جلتی ہوئی آگ پر پانی چھڑکنے کے بجائے اس پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دے کر صدر ٹرمپ نے درحقیقت اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافع میں اضافے کی راہ دکھائی ہے۔ واضح رہے کہ امریکا کی صنعتی پیداوار میں ستر فیصد پیداوار اسلحہ کی ہے۔ اس اسلحے کی خرید و فروخت سے امریکی معیشت کو تقویت ملتی ہے اور امریکی سرمایہ داروں کو لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ایک جانب کروڑوں انسانوں کی جان جاتی رہی تو دوسری جانب اسلحہ سازوں کے منافع میں زبردست اضافہ بھی ہوا۔ اب امریکی سامراج کا ویتنام، کوریا، لاؤس، کمبوڈیا، افریقہ، چلی اور دنیا بھر میں اسلحے کی فروخت کا سلسلہ بند ہوکر افغانستان، عراق، شام لبنان، لیبیا، مصر اور یمن میں منتقل ہوا۔ اب عراق، شام اور لبنان سے انتہاپسندوں کا تقریباً خاتمہ ہوا ہے۔
امریکا کو اسلحے کی فروخت اور استعمال کے نئے میدان چاہئیں۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے کو تسلیم کیا ہے۔ اس کے ردعمل میں اسرائیل اور فلسطین کی کمیونسٹ پارٹیوں نے مشترکہ طور پر اسرائیل کا دارالخلافہ تیل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔
درحقیقت عالمی سامراج پسماندہ ملکوں کے قدرتی وسائل اور پیداوار پر قبضہ جمانے اور وہاں کی دولت کو لوٹنے کے لیے عوام کو رنگ و نسل، مذاہب اور فرقوں میں بانٹ کر لڑواتا ہے۔
اس جھگڑے میں فریقین کو اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسلحہ کی پیداوار سب سے زیادہ امریکا میں ہوتی ہے۔ اس اسلحے کے عوض امریکی سامراج اور دیگر عالمی سامراج پسماندہ ملکوں سے معدنیات، تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر لے جاتا ہے۔ تیل اور گیس پسماندہ ملکوں کی بڑی پیداوار ہے۔ سعودی عرب، ایران، افغانستان، عرب امارات، برما، عراق، لیبیا وغیرہ میں گیس اور تیل پیدا ہوتا ہے اور ان پر امریکا، چین اور فرانس قابض ہیں۔ جب ان کے مفادات ٹکراتے ہیں تو یہ ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں، سستے داموں میں قدرتی وسائل خریدتے ہیں اور مہنگے داموں میں اسلحہ بیچتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل سامراجی تسلط سے آزادی اور دنیا کو ایک کرنے میں مضمر ہے۔
عالمی سامراج نے دنیا کے انسانوں کو تقسیم کرکے رنگ و نسل اور مذہب، فرقہ اور زبان و لسان کی بنیاد پر سرحدیں قائم کردی ہیں۔ دنیا ایک تھی، کوئی طبقہ تھا اور نہ کوئی ریاست۔ صاحب جائیداد طبقات نے دنیا کو تقسیم کیا۔ کچھ لوگوں کو برہمن، سردار، وڈیرہ، ارب پتی اور کھرب پتی بنا دیا اور بیشتر لوگوں کو مزدور، کسان، دھوبی، گاڑی بان، نائی، چمار، موچی، کمی، ہاری، مسلی، بھنگی بنادیا۔ اسی بنیاد پر دولت مندوں کو عقل مند اور استحصال زدہ لوگوں کو کم عقل اور نیچ قرار دیا۔ غیر طبقاتی سماج پچاس ہزار برس پر مشتمل تھا، جب کہ طبقاتی سماج چھ ہزار سال پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں مہرگڑھ، بلوچستان، موئنجوداڑو، سندھ اور ہڑپہ و ٹیکسلا، پنجاب میں چھ سات ہزار سال قبل غیر طبقاتی یعنی امداد باہمی یا کمیون کا نظام رائج تھا۔ سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر کھاتے تھے۔ ہر چند کہ اس وقت کمپیوٹر تھا، ہوائی جہاز تھا اور نہ ایٹم بم۔ اس جدید دور میں صرف بھوک سے روزانہ 75 ہزار انسان مر جاتے ہیں، جب کہ اسی دنیا میں روزانہ اربوں میٹرک ٹن کھانا ضایع ہوجاتا ہے اور چند لوگ دنیا کی بیشتر دولت کے مالک ہیں۔ یہ ساری برائی طبقاتی نظام کی دین ہے۔
امریکا اور اسرائیل میں لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں اور دوسری طرف امریکا کے 68 بحری بیڑے دنیا کے سات سمندروں میں لنگر انداز ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ امریکی فوج اسرائیل میں ہے اور دوسرے نمبر پر سعودی عرب میں۔ اس لیے دنیا کی تمام پیداواری قوتیں، شہری اور محنت کش عوام صاحب جائیداد طبقات سے جائیداد چھین لیں گے، پھر کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ اس لیے کہ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے۔ وکٹرہیوگو نے کہا تھا کہ جب جائیداد، ملکیت، خاندان، فوج، پولیس، عدالت، میڈیا اور ریاست کا خاتمہ ہوگا تب لوگ جینے لگیں گے۔
اس صورتحال میں امریکی سامراج کی لبنان میں مختلف کمیونٹی میں تضادات پھیلا کر آپس میں دست و گریباں کرنے کی کوششوں کو لبنانی صدر حریری نے ناکام بنادی۔ ادھر داعش کو شام اور عراق سے شکست کے بعد اب امریکی سامراج کو اسلحہ کی فروخت اور میدان جنگ کی تلاش تھی۔ اسرائیل میں 17 لاکھ شہری غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان میں یہودی، مسلمان، عیسائی اور دروز سب شامل ہیں، اس کے علاوہ اسرائیل میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی کرپشن کے خلاف بائیں بازو کا اتحاد سراپا احتجاج ہے، تل ابیب میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے بیت المقدس کے مشرقی حصے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں بجلی، سیوریج اور پانی کی مصنوعی قلت پیدا کردی ہے، یہ عمل فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہے، جب کہ بیت المقدس کے مغربی حصے میں یہودیوں کی نئی بستیاں آباد کی جارہی ہیں۔
اس ناانصافی اور جبر کے خلاف بیت المقدس میں بائیں بازو کی نو جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا ہے، جس میں دو کمیونسٹ پارٹیاں بھی شامل ہیں۔ سوشلسٹ کوریا پر بار بار حملے کی دھمکیاں دے کر امریکا کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے متنازع مسئلے کو چھیڑا ہے اور اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ ہے کہ بیت المقدس تینوں مذاہب یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ مقدس مقام ہے۔ سو اس مسئلے کو امریکا نے متنازع بنا کر مذاہب کے درمیان لڑائی جھگڑے کو جنم دیا ہے۔
ایک تو پہلے سے ہی مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی سے دنیا بھر کے عوام پریشان ہیں، اس جلتی ہوئی آگ پر پانی چھڑکنے کے بجائے اس پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دے کر صدر ٹرمپ نے درحقیقت اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافع میں اضافے کی راہ دکھائی ہے۔ واضح رہے کہ امریکا کی صنعتی پیداوار میں ستر فیصد پیداوار اسلحہ کی ہے۔ اس اسلحے کی خرید و فروخت سے امریکی معیشت کو تقویت ملتی ہے اور امریکی سرمایہ داروں کو لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ایک جانب کروڑوں انسانوں کی جان جاتی رہی تو دوسری جانب اسلحہ سازوں کے منافع میں زبردست اضافہ بھی ہوا۔ اب امریکی سامراج کا ویتنام، کوریا، لاؤس، کمبوڈیا، افریقہ، چلی اور دنیا بھر میں اسلحے کی فروخت کا سلسلہ بند ہوکر افغانستان، عراق، شام لبنان، لیبیا، مصر اور یمن میں منتقل ہوا۔ اب عراق، شام اور لبنان سے انتہاپسندوں کا تقریباً خاتمہ ہوا ہے۔
امریکا کو اسلحے کی فروخت اور استعمال کے نئے میدان چاہئیں۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے کو تسلیم کیا ہے۔ اس کے ردعمل میں اسرائیل اور فلسطین کی کمیونسٹ پارٹیوں نے مشترکہ طور پر اسرائیل کا دارالخلافہ تیل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔
درحقیقت عالمی سامراج پسماندہ ملکوں کے قدرتی وسائل اور پیداوار پر قبضہ جمانے اور وہاں کی دولت کو لوٹنے کے لیے عوام کو رنگ و نسل، مذاہب اور فرقوں میں بانٹ کر لڑواتا ہے۔
اس جھگڑے میں فریقین کو اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسلحہ کی پیداوار سب سے زیادہ امریکا میں ہوتی ہے۔ اس اسلحے کے عوض امریکی سامراج اور دیگر عالمی سامراج پسماندہ ملکوں سے معدنیات، تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر لے جاتا ہے۔ تیل اور گیس پسماندہ ملکوں کی بڑی پیداوار ہے۔ سعودی عرب، ایران، افغانستان، عرب امارات، برما، عراق، لیبیا وغیرہ میں گیس اور تیل پیدا ہوتا ہے اور ان پر امریکا، چین اور فرانس قابض ہیں۔ جب ان کے مفادات ٹکراتے ہیں تو یہ ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں، سستے داموں میں قدرتی وسائل خریدتے ہیں اور مہنگے داموں میں اسلحہ بیچتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل سامراجی تسلط سے آزادی اور دنیا کو ایک کرنے میں مضمر ہے۔
عالمی سامراج نے دنیا کے انسانوں کو تقسیم کرکے رنگ و نسل اور مذہب، فرقہ اور زبان و لسان کی بنیاد پر سرحدیں قائم کردی ہیں۔ دنیا ایک تھی، کوئی طبقہ تھا اور نہ کوئی ریاست۔ صاحب جائیداد طبقات نے دنیا کو تقسیم کیا۔ کچھ لوگوں کو برہمن، سردار، وڈیرہ، ارب پتی اور کھرب پتی بنا دیا اور بیشتر لوگوں کو مزدور، کسان، دھوبی، گاڑی بان، نائی، چمار، موچی، کمی، ہاری، مسلی، بھنگی بنادیا۔ اسی بنیاد پر دولت مندوں کو عقل مند اور استحصال زدہ لوگوں کو کم عقل اور نیچ قرار دیا۔ غیر طبقاتی سماج پچاس ہزار برس پر مشتمل تھا، جب کہ طبقاتی سماج چھ ہزار سال پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں مہرگڑھ، بلوچستان، موئنجوداڑو، سندھ اور ہڑپہ و ٹیکسلا، پنجاب میں چھ سات ہزار سال قبل غیر طبقاتی یعنی امداد باہمی یا کمیون کا نظام رائج تھا۔ سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر کھاتے تھے۔ ہر چند کہ اس وقت کمپیوٹر تھا، ہوائی جہاز تھا اور نہ ایٹم بم۔ اس جدید دور میں صرف بھوک سے روزانہ 75 ہزار انسان مر جاتے ہیں، جب کہ اسی دنیا میں روزانہ اربوں میٹرک ٹن کھانا ضایع ہوجاتا ہے اور چند لوگ دنیا کی بیشتر دولت کے مالک ہیں۔ یہ ساری برائی طبقاتی نظام کی دین ہے۔
امریکا اور اسرائیل میں لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں اور دوسری طرف امریکا کے 68 بحری بیڑے دنیا کے سات سمندروں میں لنگر انداز ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ امریکی فوج اسرائیل میں ہے اور دوسرے نمبر پر سعودی عرب میں۔ اس لیے دنیا کی تمام پیداواری قوتیں، شہری اور محنت کش عوام صاحب جائیداد طبقات سے جائیداد چھین لیں گے، پھر کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ اس لیے کہ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے۔ وکٹرہیوگو نے کہا تھا کہ جب جائیداد، ملکیت، خاندان، فوج، پولیس، عدالت، میڈیا اور ریاست کا خاتمہ ہوگا تب لوگ جینے لگیں گے۔