رحمت اللعالمین ﷺ
ہر نبی کی صفات کا مجموعہ بناکر خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو دنیا میں بھیجا گیا۔
KARACHI:
اللہ کی جانب سے بھیجے جانے والے انبیاء و مرسلینؑ کی چارہ گری کے باوجود جب سسکتی ہوئی انسانیت کے دکھوں اور مرض میں کمی نہ آئی تو خداوند عالم نے انسانیت کی مسیحائی کے لیے اپنی اولین تخلیق کو لباس بشر میں دنیا میں بھیجا تاکہ اللہ کی ہدایت کی تکمیل ہوجائے۔
آدمؑ کی طرح صفا و پاکیزگی، نوحؑ کی نرمی و سادگی، ابراہیمؑ کی حلت و محبت، اسمٰعیلؑ کی رضا و خوش نودی، یوسف ؑ کی طرح حسن و زیبائی، موسیٰ ؑ کی طرح تکلم، داؤدؑ کی طرح لحن اور عیسٰیؑ کی طرح کرامت، بزرگی و مسیحائی غرضے کہ ہر نبی کی صفات کا مجموعہ بناکر خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو دنیا میں بھیجا گیا۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول ؐ خدا ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں میری عزت و حرمت یہ بھی ہے کہ میں مختون اور ناف بریدہ پیدا ہوا اور کسی نے میرے ستر کو نہ دیکھا۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے گرد رکھے ہوئے تمام بُت منہ کے بل گر پڑے اور شام ہوتے ہی آسمان سے آواز آئی حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹ جانے والا ہی تھا۔ اس رات تمام دنیا روشن ہوگئی۔ پتھر اور درخت بہ زبان حال خوشی کااظہار کرنے لگے۔ زمین و آسمان میں موجود ہر شے خدا کی تسبیح کرنے لگی اور شیطان حواس باختہ ہوکر بھاگا بھاگا پھرنے لگا۔
تاریخ خمیس میں ہے کہ جب رسالت مآب ؐ دنیا میں تشریف لائے تو حضرت عبدالمطلب نے اونٹوں کی قربانی کا حکم دیا۔ چناں چہ اونٹ ذبح کیے گئے اور قریش کے تمام لوگوں کو دعوت دی گئی۔ حضرت عبدالمطلب نے فرمایا کہ شان کبیر میرا یہ فرزند عظیم مرتبے والا ہے، کہہ کر پہلی نعت کہی۔ اور حضرت ابوطالب نے پہلی محفل میلاد کا انعقاد کرکے تمام اہل مکہ کو دعوت دی۔ کتب میں حضرت عبدالمطلب کے درج ذیل اشعار بھی مذکور ہیں۔
ترجمہ: '' میں خدا کی تعریف کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا جو اپنی قوم میں پاک و پاکیزہ ہے، وہ اپنے گہوارے میں غلاموں کی حفاظت میں آرام کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ جو رکن و مقام کا مالک ہے اس کو اپنی پناہ میں رکھے، یہاں تک کہ میں اپنی آنکھوں سے اسے جوان دیکھوں اور خدا اسے اس کے بُرا چاہنے والے حاسدوں سے محفوظ رکھے اور ان کے شریک سے بھی جو اس کا اچھا نہیں چاہتے ہیں۔''
احتجاج طبرسی میں حضرت علیؓ کا ایک یہودی سے طویل مکالمہ ہے جس کا کچھ حصہ یہ ہے کہ یہودی نے کہا کہ آپ اپنے دین کو ہمارے اور مسیحی دین سے برتر سمجھتے ہیں حالاں کہ حضر ت عیسیٰ نے گہوارے میں کلام کیا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا بالکل درست ہے لیکن تمھیں معلوم نہیں کہ ہمارے نبی ؐ نے بھی کلام کیا تھا جب آپؐ صد ف عفت سے عالم وجود میں تشریف لائے تو آپ ؐ نے اپنا بایاں ہاتھ زمیں پر رکھا اور دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کو بلند کرکے لا الہ الا ﷲ انا محمد رسول اللہ پڑھا۔ آپؐ کی جبین مبین سے ایسا نور ظاہر ہوا کہ تمام اہل مکہ نے شام، بصرہ، یمن کے تمام محلات بہ چشم خود دیکھے اور اتنا نور تھا جسے دیکھ کر تمام جن و انس گھبرا گئے۔
حضرت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں: '' اللہ نے آدم سے لے کر بعد میں جتنے نبی مبعوث کیے سب سے اس بات کا عہد لیا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور آپؐ کی مدد کرنا۔ تمام انبیاء یہ عہد اپنی قوم سے لیا کرتے تھے۔ ''
حضرت حسان بن ثابت ؓسے روایت ہے کہ میں ایک مضبوط اور توانا لڑکا تھا کہ جب ایک یہودی کو صبح سویرے مدینہ منورہ میں زور زور سے چلاتے ہوئے دیکھا وہ پکار رہا تھا: '' اے گروہ یہود وہ ستارہ جس کو احمد ؐکی ولادت کی علامت سمجھا جاتا تھا آج رات طلوع ہوگیا ہے۔'' (سیرت سید الانبیاءؐ، ابن جوزی)
شیخ صدوق ؒحضرت ابن عباس ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ جب بنی قریظہ کے کعب ابن سعد کو سزائے موت کے لیے گرفتار کیا گیا تو حضور ؐ نے اسے بلوایا۔ آپ ؐ نے اس سے پوچھا: ''اے کعب! کیا تجھ کو ابن حواش کی وصیت سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا ؟ ابن حواش جو شام سے آیا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے شراب کو ترک کردیا، عیش و عشرت کو خیرباد کہہ دیا، فقر اختیار کرلیا اور خرما کھانا شروع کردیا ہے، اس پیغمبر کے انتظار میں جن کے مبعوث ہونے کا وقت آن پہنچا ہے، وہ مکہ سے ہجرت کرکے اس مدینہ میں آئیں گے، خشک روٹی اور خرما ان کی غذا ہوگی، برہنہ خچر (بغیر زین ) پر سوار ہوں گے ان کی آنکھوں میں سرخی ہوگی ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، کسی دشمن کی پروا نہیں کریں گے، ان کی حکومت ہر اس مقام تک ہوگی جہاں تک گھوڑوں کے پاؤں پہنچ سکیں گے۔''
کعب نے جواب دیا: ''یامحمد ؐ ایسا ہی ہے اگر یہودی یہ نہ کہتے کہ موت کے خوف سے ایمان لے آیا ہے تو میں ضرور ایمان لے آتا۔ میں اب تک یہودیوں کے دین پر زندہ رہا ہوں لہذا اسی پر مرتا ہوں۔'' چناں چہ اس کی گردن اڑا دی گئی۔
ابن عساکر اپنی تاریخ میں جہلمہ ابن عرفتہ کا یہ مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ جہلمہ کا بیان ہے کہ میں ایک بار عین قحط کے موسم میں مکہ گیا۔ قریش سخت مصیبت میں تھے۔ ان میں سے ایک نے صلاح دی کہ لات و عزیٰ سے فریاد کی جائے، تیسرے نے کہا کہ منات سے چارہ جوئی کی جائے، ان میں سے ایک معزز اور صاحب الرائے بزرگ بول اٹھا کہ مجھے اس امر کا کامل یقین ہے کہ ابھی تم لوگوں میں ایک بزرگ ایسا موجود ہے جو سلسلہ ابراہیمی کا بقیہ اور نسل اسماعیلی کا خلاصہ ہے۔ اس کی طرف کیوں نہ رجو ع کیا جائے۔ سب نے کہا کہ کیا تمہارا اشارہ ابو طالب کی طرف ہے۔
اس نے جواب دیا ہاں۔ جہلمہ کا بیان ہے کہ یہ سن کر سب کھڑے ہوگئے۔ ہم سب مل کر ابوطالب کے مکان پر آئے اور فریاد کی کہ اے ابوطالب ہر طرف سے قحط عظیم آگیا ہے اور اہل و عیال کی بربادی کا وقت پہنچ گیا ہے۔ سب کو سیراب کیجیے۔ یہ سنتے ہی ابوطالب باہر نکل آئے۔ آپ کے ساتھ ایک کم سن بچہ تھا جو جناب رسالت مآب ؐ تھے۔ ان کا روئے منور آفتاب کی طرح روشن تھا۔ ابوطالب اس صاحب زادے کو انگلی پکڑائے خانہ کعبہ میں آئے اور رکن کعبہ سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئے اور اس بچے کی انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف بلند کردیا اور طلبِ باران کی دعا کی۔ فورا بادل نمودار ہوئے اور تھوڑی دیر بعد ایسا مینہ برسا کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا اور تمام صحرا و بیاباں سرسبز و شاداب ہوگئے۔
اس موقع پر حضرت ابوطالب نے شانِ مصطفوی ؐ میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایا جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے وہ یہ ہے کہ
'' محمد ؐ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیموں کے لیے جائے پناہ ہے اور بیواؤں کا پردہ ہے۔
بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا س کے پاس پناہ لیتے ہیں۔ وہ اس کے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتے ہیں۔
وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَو برابر بھی ادھر ادھر نہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک و شبہ کا خوف نہیں ہے ۔
وہ ایک بزرگ انسان ہے جس کا شمار سب سے مرتبے والے سرداروں میں ہوتا ہے۔ وہ اس خاندان بنو ہاشم سے ہے جو بڑائیوں کے میدان میں برتری کا مالک ہے۔
میں نے اس سے ہمیشہ دوست داروں او ر محبّوں کی طرح محبّت رکھی ہے، وہ ہمیشہ ہی اپنے محبت کرنے والوں کی سربلندی کا موجب بنا ہے۔
وہ ہمارے درمیان اس قدر شرافت اور اعتبار کا مالک ہے کہ ہر تجاوز کرنے والے کی شرافت اور رتبہ اس سے کم تر ہے۔''
آنحضرتؐ کے اس اعجاز کو صاحبِ ملل و نحل شھرستانی اور دوسرے علماء نے بھی نقل کیا ہے۔
جس نبی کے وسیلے سے بارشیں اور رحمتیں برستی ہیں آج بدقسمتی سے اس خاتم الانبیاءؐ کی امت بحران در بحران سے دوچار ہے اور اغیار اسے پامال کیے جارہے ہیں، جس کا بنیادی سبب نبی کریم ؐ کی تعلیمات افکار سے دوری ہے۔ وہ ہستی جس کے وسیلے سے اللہ نے انبیائے کرامؑ کی مشکلیں آسان کیں اگر آج بھی امت مسلمہ اسی دامن مصطفویؐ سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ استوار کرلے تو کامرانیاں اور کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں گی۔
اللہ کی جانب سے بھیجے جانے والے انبیاء و مرسلینؑ کی چارہ گری کے باوجود جب سسکتی ہوئی انسانیت کے دکھوں اور مرض میں کمی نہ آئی تو خداوند عالم نے انسانیت کی مسیحائی کے لیے اپنی اولین تخلیق کو لباس بشر میں دنیا میں بھیجا تاکہ اللہ کی ہدایت کی تکمیل ہوجائے۔
آدمؑ کی طرح صفا و پاکیزگی، نوحؑ کی نرمی و سادگی، ابراہیمؑ کی حلت و محبت، اسمٰعیلؑ کی رضا و خوش نودی، یوسف ؑ کی طرح حسن و زیبائی، موسیٰ ؑ کی طرح تکلم، داؤدؑ کی طرح لحن اور عیسٰیؑ کی طرح کرامت، بزرگی و مسیحائی غرضے کہ ہر نبی کی صفات کا مجموعہ بناکر خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو دنیا میں بھیجا گیا۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول ؐ خدا ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں میری عزت و حرمت یہ بھی ہے کہ میں مختون اور ناف بریدہ پیدا ہوا اور کسی نے میرے ستر کو نہ دیکھا۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے گرد رکھے ہوئے تمام بُت منہ کے بل گر پڑے اور شام ہوتے ہی آسمان سے آواز آئی حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹ جانے والا ہی تھا۔ اس رات تمام دنیا روشن ہوگئی۔ پتھر اور درخت بہ زبان حال خوشی کااظہار کرنے لگے۔ زمین و آسمان میں موجود ہر شے خدا کی تسبیح کرنے لگی اور شیطان حواس باختہ ہوکر بھاگا بھاگا پھرنے لگا۔
تاریخ خمیس میں ہے کہ جب رسالت مآب ؐ دنیا میں تشریف لائے تو حضرت عبدالمطلب نے اونٹوں کی قربانی کا حکم دیا۔ چناں چہ اونٹ ذبح کیے گئے اور قریش کے تمام لوگوں کو دعوت دی گئی۔ حضرت عبدالمطلب نے فرمایا کہ شان کبیر میرا یہ فرزند عظیم مرتبے والا ہے، کہہ کر پہلی نعت کہی۔ اور حضرت ابوطالب نے پہلی محفل میلاد کا انعقاد کرکے تمام اہل مکہ کو دعوت دی۔ کتب میں حضرت عبدالمطلب کے درج ذیل اشعار بھی مذکور ہیں۔
ترجمہ: '' میں خدا کی تعریف کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا جو اپنی قوم میں پاک و پاکیزہ ہے، وہ اپنے گہوارے میں غلاموں کی حفاظت میں آرام کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ جو رکن و مقام کا مالک ہے اس کو اپنی پناہ میں رکھے، یہاں تک کہ میں اپنی آنکھوں سے اسے جوان دیکھوں اور خدا اسے اس کے بُرا چاہنے والے حاسدوں سے محفوظ رکھے اور ان کے شریک سے بھی جو اس کا اچھا نہیں چاہتے ہیں۔''
احتجاج طبرسی میں حضرت علیؓ کا ایک یہودی سے طویل مکالمہ ہے جس کا کچھ حصہ یہ ہے کہ یہودی نے کہا کہ آپ اپنے دین کو ہمارے اور مسیحی دین سے برتر سمجھتے ہیں حالاں کہ حضر ت عیسیٰ نے گہوارے میں کلام کیا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا بالکل درست ہے لیکن تمھیں معلوم نہیں کہ ہمارے نبی ؐ نے بھی کلام کیا تھا جب آپؐ صد ف عفت سے عالم وجود میں تشریف لائے تو آپ ؐ نے اپنا بایاں ہاتھ زمیں پر رکھا اور دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کو بلند کرکے لا الہ الا ﷲ انا محمد رسول اللہ پڑھا۔ آپؐ کی جبین مبین سے ایسا نور ظاہر ہوا کہ تمام اہل مکہ نے شام، بصرہ، یمن کے تمام محلات بہ چشم خود دیکھے اور اتنا نور تھا جسے دیکھ کر تمام جن و انس گھبرا گئے۔
حضرت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں: '' اللہ نے آدم سے لے کر بعد میں جتنے نبی مبعوث کیے سب سے اس بات کا عہد لیا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور آپؐ کی مدد کرنا۔ تمام انبیاء یہ عہد اپنی قوم سے لیا کرتے تھے۔ ''
حضرت حسان بن ثابت ؓسے روایت ہے کہ میں ایک مضبوط اور توانا لڑکا تھا کہ جب ایک یہودی کو صبح سویرے مدینہ منورہ میں زور زور سے چلاتے ہوئے دیکھا وہ پکار رہا تھا: '' اے گروہ یہود وہ ستارہ جس کو احمد ؐکی ولادت کی علامت سمجھا جاتا تھا آج رات طلوع ہوگیا ہے۔'' (سیرت سید الانبیاءؐ، ابن جوزی)
شیخ صدوق ؒحضرت ابن عباس ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ جب بنی قریظہ کے کعب ابن سعد کو سزائے موت کے لیے گرفتار کیا گیا تو حضور ؐ نے اسے بلوایا۔ آپ ؐ نے اس سے پوچھا: ''اے کعب! کیا تجھ کو ابن حواش کی وصیت سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا ؟ ابن حواش جو شام سے آیا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے شراب کو ترک کردیا، عیش و عشرت کو خیرباد کہہ دیا، فقر اختیار کرلیا اور خرما کھانا شروع کردیا ہے، اس پیغمبر کے انتظار میں جن کے مبعوث ہونے کا وقت آن پہنچا ہے، وہ مکہ سے ہجرت کرکے اس مدینہ میں آئیں گے، خشک روٹی اور خرما ان کی غذا ہوگی، برہنہ خچر (بغیر زین ) پر سوار ہوں گے ان کی آنکھوں میں سرخی ہوگی ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، کسی دشمن کی پروا نہیں کریں گے، ان کی حکومت ہر اس مقام تک ہوگی جہاں تک گھوڑوں کے پاؤں پہنچ سکیں گے۔''
کعب نے جواب دیا: ''یامحمد ؐ ایسا ہی ہے اگر یہودی یہ نہ کہتے کہ موت کے خوف سے ایمان لے آیا ہے تو میں ضرور ایمان لے آتا۔ میں اب تک یہودیوں کے دین پر زندہ رہا ہوں لہذا اسی پر مرتا ہوں۔'' چناں چہ اس کی گردن اڑا دی گئی۔
ابن عساکر اپنی تاریخ میں جہلمہ ابن عرفتہ کا یہ مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ جہلمہ کا بیان ہے کہ میں ایک بار عین قحط کے موسم میں مکہ گیا۔ قریش سخت مصیبت میں تھے۔ ان میں سے ایک نے صلاح دی کہ لات و عزیٰ سے فریاد کی جائے، تیسرے نے کہا کہ منات سے چارہ جوئی کی جائے، ان میں سے ایک معزز اور صاحب الرائے بزرگ بول اٹھا کہ مجھے اس امر کا کامل یقین ہے کہ ابھی تم لوگوں میں ایک بزرگ ایسا موجود ہے جو سلسلہ ابراہیمی کا بقیہ اور نسل اسماعیلی کا خلاصہ ہے۔ اس کی طرف کیوں نہ رجو ع کیا جائے۔ سب نے کہا کہ کیا تمہارا اشارہ ابو طالب کی طرف ہے۔
اس نے جواب دیا ہاں۔ جہلمہ کا بیان ہے کہ یہ سن کر سب کھڑے ہوگئے۔ ہم سب مل کر ابوطالب کے مکان پر آئے اور فریاد کی کہ اے ابوطالب ہر طرف سے قحط عظیم آگیا ہے اور اہل و عیال کی بربادی کا وقت پہنچ گیا ہے۔ سب کو سیراب کیجیے۔ یہ سنتے ہی ابوطالب باہر نکل آئے۔ آپ کے ساتھ ایک کم سن بچہ تھا جو جناب رسالت مآب ؐ تھے۔ ان کا روئے منور آفتاب کی طرح روشن تھا۔ ابوطالب اس صاحب زادے کو انگلی پکڑائے خانہ کعبہ میں آئے اور رکن کعبہ سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئے اور اس بچے کی انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف بلند کردیا اور طلبِ باران کی دعا کی۔ فورا بادل نمودار ہوئے اور تھوڑی دیر بعد ایسا مینہ برسا کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا اور تمام صحرا و بیاباں سرسبز و شاداب ہوگئے۔
اس موقع پر حضرت ابوطالب نے شانِ مصطفوی ؐ میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایا جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے وہ یہ ہے کہ
'' محمد ؐ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیموں کے لیے جائے پناہ ہے اور بیواؤں کا پردہ ہے۔
بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا س کے پاس پناہ لیتے ہیں۔ وہ اس کے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتے ہیں۔
وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَو برابر بھی ادھر ادھر نہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک و شبہ کا خوف نہیں ہے ۔
وہ ایک بزرگ انسان ہے جس کا شمار سب سے مرتبے والے سرداروں میں ہوتا ہے۔ وہ اس خاندان بنو ہاشم سے ہے جو بڑائیوں کے میدان میں برتری کا مالک ہے۔
میں نے اس سے ہمیشہ دوست داروں او ر محبّوں کی طرح محبّت رکھی ہے، وہ ہمیشہ ہی اپنے محبت کرنے والوں کی سربلندی کا موجب بنا ہے۔
وہ ہمارے درمیان اس قدر شرافت اور اعتبار کا مالک ہے کہ ہر تجاوز کرنے والے کی شرافت اور رتبہ اس سے کم تر ہے۔''
آنحضرتؐ کے اس اعجاز کو صاحبِ ملل و نحل شھرستانی اور دوسرے علماء نے بھی نقل کیا ہے۔
جس نبی کے وسیلے سے بارشیں اور رحمتیں برستی ہیں آج بدقسمتی سے اس خاتم الانبیاءؐ کی امت بحران در بحران سے دوچار ہے اور اغیار اسے پامال کیے جارہے ہیں، جس کا بنیادی سبب نبی کریم ؐ کی تعلیمات افکار سے دوری ہے۔ وہ ہستی جس کے وسیلے سے اللہ نے انبیائے کرامؑ کی مشکلیں آسان کیں اگر آج بھی امت مسلمہ اسی دامن مصطفویؐ سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ استوار کرلے تو کامرانیاں اور کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں گی۔