16 دسمبر تاریخ کے صفحات پر محدود
16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے 46 سال بعد بھی یہ خوف آج بھی موجود ہے۔
MARDAN:
کیا پھر 16 دسمبر کی تاریخ دوبارہ تو نہیں دہرائی جائے گی؟ 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے 46 سال بعد بھی یہ خوف آج بھی موجود ہے۔ پاکستان کو 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کی بنیاد پر ایک حقیقی وفاق ہی ملک کا مستقبل روشن کر سکتا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد بنیادی طور پر چھوٹے صوبوں کے حقوق کی جدوجہد تھی۔ مسلم لیگ کی جدوجہد کے نتیجے میں بنگال تقسیم ہوا، سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک صوبہ بنایا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ قرارداد پاکستان میں ہندوستان کی مسلم ریاستوں کے الحاق کی بنیاد پر نئی ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مگر 1947ء میں نئے ملک کے قیام کے بعد ملک کو پہلے وحداتی طرز حکومت میں تبدیل کیا گیا، پھر ون یونٹ بنا کر ایک طرف صرف چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کیے گئے، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ پہلے بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو پیغام دیا گیا کہ انھیں مغربی پاکستان کی مقتدرہ کی آمریت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
1958ء تک ملک میں سول حکومتیں قائم رہیں، مسلم لیگ کے نامزد کردہ محمد علی بوگرہ اور عوامی لیگ کے حسین شہید سہروردی مختصر عرصے کے لیے وزیراعظم رہے، اس طرح مشرقی پاکستان کے عوام کو اقتدار میں آنے کی کچھ امید باقی رہی۔ مگر جب صدر اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تو پھر خود ہی صدر بن گئے اور اپنا آئین نافذ کیا، جس کے تحت سب سے طاقتور صدر کی اپنی ذات تھی۔ اس صورتحال میں مشرقی پاکستان کے عوام کو یہ محسوس ہوا کہ اب اکثریت کے برسر اقتدار لانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ایوب حکومت نے جمہوری قوتوں کو کچلا۔ آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں۔ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا، شہری آزادیوں پر قدغن، سیاسی جماعتوں پر پابندیوں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو قیدوبند کا راستہ دکھانے کے نتیجے میں مشرقی پاکستان مایوسی اور تنہائی کا شکار ہوا۔ معاشی اور سیاسی محرومیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو انتہاپسندوں نے پر کیا۔
1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان اور ان کے حواری جرنیل عوامی لیگ کو اقتدار دینے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ مغربی پاکستان کے مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان کے ہمنوا بن گئے، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہوا۔ اس آپریشن کا آغاز عوامی لیگ کے ترجمان اخبار 'دی پیپلز' کی عمارت مسمار کرنے سے ہوا۔
جنونیت کا ایک خوفناک کھیل ہوا۔ بنگالیوں کی نسل کشی ہوئی، اقلیتی بہاری برادری کا اکثریتی بنگالی برادری سے رشتہ منقطع ہوا۔ اس بحران کے نتیجے میں بہاریوں کی کئی نسلیں برباد ہوگئیں۔ 17 دسمبر 1971ء کو ملک کے معروف اخبارات میں دو کالمی خبر مختصر انداز میں شایع ہوئی۔ ''ایسٹرن کمانڈ اور ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا اور دونوں جانب سے سیزفائر ہوگئی''۔ اس مختصر پریس نوٹ کے ذریعے 22 سال پرانے مسئلے کا حل نکل آیا۔ شیخ مجیب الرحمن جو مارچ 1971ء سے نظربند تھے رہا ہوئے اور بنگلہ دیش کے صدر بن گئے۔ پہلے پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والے ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے۔
ادھر پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کچھے پاکستان کو دوبارہ جمع کیا۔ آئین کے مسودے کی تیاری کے لیے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت ساری سیاسی قوتوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس صورتحال میں متفقہ طور پر 1973ء کا آئین نافذ ہوا۔ اس سے صوبائی خودمختاری اور بنیادی حقوق کی ضمانت حاصل ہوگئی مگر بھٹو کے آمرانہ مزاج نے صورتحال کو خراب کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی، آزادی صحافت اور بنیادی حقوق معطل ہوئے۔
اس صورتحال کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو پہنچا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا سیاہ دور آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے مذہبی انتہاپسندی کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ جمہوری قوتوں کو کمزور کیا اور معاشرے کی ہیئت کو تبدیل کردیا۔ پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، طلبا، مزدور، کسان، خواتین اور دانشوروں کی تنظیموں نے مزاحمت کی۔ 1973ء کے آئین کی بحالی کے لیے ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے۔ سیکڑوں کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھ کے عوام نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ 1988ء میں جمہوریت بحال ہوئی مگر جمہوری حکومتوں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہ ملا۔
کرپشن کا پودا مضبوط ہوا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے آزاد خارجہ پالیسی اور خطے کے ممالک سے دوستی کی پالیسی اختیار کی تو جنرل پرویز مشرف نے کارگل پر حملہ کیا اور پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف کی دہری پالیسی کے نتیجے میں دہشتگردی کی جنگ کراچی تک پہنچ گئی۔ بلوچستان میں ملک کے حامی سردار اکبر بگٹی کی ہلاکت سے صورتحال خراب ہوئی۔ بینظیر بھٹو جیسی رہنما دہشتگردی کی شکار ہوئیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے میاں نواز شریف سے ہونے والے میثاق جمہوریت پر عمل کیا، جس سے آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی اور آئین میں دی گئی مشترکہ فہرست ختم ہوئی۔
صوبوں کو 1940ء کی قرارداد کے قریب اختیارات مل گئے، صوبوں کے وہ مطالبات پورے ہوئے جن کا 1970ء میں مطالبہ کرنے پر شیخ مجیب الرحمن غدار قرار دیے گئے۔ مگر 18ویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا۔ بااثر طبقات نصاب کی تیاری کا معاملہ صوبوں کو دینے پر آمادہ نہیں، نہ ہی قدرتی وسائل پر صوبوں کے پہلے حق کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت بحران کا شکار ہوئی۔ مقتدرہ کو میاں صاحب کی بھارت سے دوستی کی پالیسی پر اعتراض ہوا۔ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ جو بلوچستان سے شروع ہوا تھا پنجاب تک پہنچ گیا۔ مسلم لیگی اراکین اسمبلی اور کارکن اس کی لپیٹ میں آگئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بے بس ہوگئیں۔
یہ محسوس ہونے لگا کہ جمہوری نظام کا راستہ تنگ ہو رہا ہے۔ 18 ویں ترمیم کو کچلنے کی سازش ہو رہی ہے۔ جمہوری نظام کا راستہ تنگ ہونے اور صوبائی خودمختاری پر ضرب لگنے کا نقصان بہت گہرا ہو گا۔ 16 دسمبر کا دن یہ احساس دلاتا ہے کہ ریاست تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے، صوبے مکمل خودمختار ہوں، ریاست کے تمام ادارے جمہوری حکومت کے زیر نگرانی کام کریں، وقت پر انتخابات منعقد ہوں اور انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ یہ سب کچھ ہو گا تو پھر 16 دسمبر کا دن تاریخ کے صفحات تک محدود ہوگا۔
کیا پھر 16 دسمبر کی تاریخ دوبارہ تو نہیں دہرائی جائے گی؟ 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے 46 سال بعد بھی یہ خوف آج بھی موجود ہے۔ پاکستان کو 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کی بنیاد پر ایک حقیقی وفاق ہی ملک کا مستقبل روشن کر سکتا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد بنیادی طور پر چھوٹے صوبوں کے حقوق کی جدوجہد تھی۔ مسلم لیگ کی جدوجہد کے نتیجے میں بنگال تقسیم ہوا، سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک صوبہ بنایا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ قرارداد پاکستان میں ہندوستان کی مسلم ریاستوں کے الحاق کی بنیاد پر نئی ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مگر 1947ء میں نئے ملک کے قیام کے بعد ملک کو پہلے وحداتی طرز حکومت میں تبدیل کیا گیا، پھر ون یونٹ بنا کر ایک طرف صرف چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کیے گئے، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ پہلے بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو پیغام دیا گیا کہ انھیں مغربی پاکستان کی مقتدرہ کی آمریت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
1958ء تک ملک میں سول حکومتیں قائم رہیں، مسلم لیگ کے نامزد کردہ محمد علی بوگرہ اور عوامی لیگ کے حسین شہید سہروردی مختصر عرصے کے لیے وزیراعظم رہے، اس طرح مشرقی پاکستان کے عوام کو اقتدار میں آنے کی کچھ امید باقی رہی۔ مگر جب صدر اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تو پھر خود ہی صدر بن گئے اور اپنا آئین نافذ کیا، جس کے تحت سب سے طاقتور صدر کی اپنی ذات تھی۔ اس صورتحال میں مشرقی پاکستان کے عوام کو یہ محسوس ہوا کہ اب اکثریت کے برسر اقتدار لانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ایوب حکومت نے جمہوری قوتوں کو کچلا۔ آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں۔ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا، شہری آزادیوں پر قدغن، سیاسی جماعتوں پر پابندیوں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو قیدوبند کا راستہ دکھانے کے نتیجے میں مشرقی پاکستان مایوسی اور تنہائی کا شکار ہوا۔ معاشی اور سیاسی محرومیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو انتہاپسندوں نے پر کیا۔
1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان اور ان کے حواری جرنیل عوامی لیگ کو اقتدار دینے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ مغربی پاکستان کے مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان کے ہمنوا بن گئے، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہوا۔ اس آپریشن کا آغاز عوامی لیگ کے ترجمان اخبار 'دی پیپلز' کی عمارت مسمار کرنے سے ہوا۔
جنونیت کا ایک خوفناک کھیل ہوا۔ بنگالیوں کی نسل کشی ہوئی، اقلیتی بہاری برادری کا اکثریتی بنگالی برادری سے رشتہ منقطع ہوا۔ اس بحران کے نتیجے میں بہاریوں کی کئی نسلیں برباد ہوگئیں۔ 17 دسمبر 1971ء کو ملک کے معروف اخبارات میں دو کالمی خبر مختصر انداز میں شایع ہوئی۔ ''ایسٹرن کمانڈ اور ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا اور دونوں جانب سے سیزفائر ہوگئی''۔ اس مختصر پریس نوٹ کے ذریعے 22 سال پرانے مسئلے کا حل نکل آیا۔ شیخ مجیب الرحمن جو مارچ 1971ء سے نظربند تھے رہا ہوئے اور بنگلہ دیش کے صدر بن گئے۔ پہلے پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والے ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے۔
ادھر پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کچھے پاکستان کو دوبارہ جمع کیا۔ آئین کے مسودے کی تیاری کے لیے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت ساری سیاسی قوتوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس صورتحال میں متفقہ طور پر 1973ء کا آئین نافذ ہوا۔ اس سے صوبائی خودمختاری اور بنیادی حقوق کی ضمانت حاصل ہوگئی مگر بھٹو کے آمرانہ مزاج نے صورتحال کو خراب کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی، آزادی صحافت اور بنیادی حقوق معطل ہوئے۔
اس صورتحال کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو پہنچا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا سیاہ دور آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے مذہبی انتہاپسندی کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ جمہوری قوتوں کو کمزور کیا اور معاشرے کی ہیئت کو تبدیل کردیا۔ پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، طلبا، مزدور، کسان، خواتین اور دانشوروں کی تنظیموں نے مزاحمت کی۔ 1973ء کے آئین کی بحالی کے لیے ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے۔ سیکڑوں کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھ کے عوام نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ 1988ء میں جمہوریت بحال ہوئی مگر جمہوری حکومتوں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہ ملا۔
کرپشن کا پودا مضبوط ہوا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے آزاد خارجہ پالیسی اور خطے کے ممالک سے دوستی کی پالیسی اختیار کی تو جنرل پرویز مشرف نے کارگل پر حملہ کیا اور پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف کی دہری پالیسی کے نتیجے میں دہشتگردی کی جنگ کراچی تک پہنچ گئی۔ بلوچستان میں ملک کے حامی سردار اکبر بگٹی کی ہلاکت سے صورتحال خراب ہوئی۔ بینظیر بھٹو جیسی رہنما دہشتگردی کی شکار ہوئیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے میاں نواز شریف سے ہونے والے میثاق جمہوریت پر عمل کیا، جس سے آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی اور آئین میں دی گئی مشترکہ فہرست ختم ہوئی۔
صوبوں کو 1940ء کی قرارداد کے قریب اختیارات مل گئے، صوبوں کے وہ مطالبات پورے ہوئے جن کا 1970ء میں مطالبہ کرنے پر شیخ مجیب الرحمن غدار قرار دیے گئے۔ مگر 18ویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا۔ بااثر طبقات نصاب کی تیاری کا معاملہ صوبوں کو دینے پر آمادہ نہیں، نہ ہی قدرتی وسائل پر صوبوں کے پہلے حق کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت بحران کا شکار ہوئی۔ مقتدرہ کو میاں صاحب کی بھارت سے دوستی کی پالیسی پر اعتراض ہوا۔ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ جو بلوچستان سے شروع ہوا تھا پنجاب تک پہنچ گیا۔ مسلم لیگی اراکین اسمبلی اور کارکن اس کی لپیٹ میں آگئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بے بس ہوگئیں۔
یہ محسوس ہونے لگا کہ جمہوری نظام کا راستہ تنگ ہو رہا ہے۔ 18 ویں ترمیم کو کچلنے کی سازش ہو رہی ہے۔ جمہوری نظام کا راستہ تنگ ہونے اور صوبائی خودمختاری پر ضرب لگنے کا نقصان بہت گہرا ہو گا۔ 16 دسمبر کا دن یہ احساس دلاتا ہے کہ ریاست تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے، صوبے مکمل خودمختار ہوں، ریاست کے تمام ادارے جمہوری حکومت کے زیر نگرانی کام کریں، وقت پر انتخابات منعقد ہوں اور انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ یہ سب کچھ ہو گا تو پھر 16 دسمبر کا دن تاریخ کے صفحات تک محدود ہوگا۔