ہمیں معذرت بری کیوں لگتی ہے
کارگل مہم شروع کرنے پر کسی نے معذرت نہیں کی۔
KOHAT:
پاکستانی معاشرے میں پانچ حرفی لفظ معذرت شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی غلط کام کیا ہے تو وہ اس پر ندامت کا اظہارکررہا ہے۔ پاکستان کے نظام اقدار میں غلطی کا اعتراف نہیں کیا جاتا اور جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ان میں اس خوبی کا شدید فقدان ہے۔
آئیے چند ایسی واضح مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں جن میں بعض طاقتور گروپوں اور اداروں کی طرف سے ایسی غلطیاں کی گئیں جن سے قوم کو عظیم نقصان اٹھانا پڑا۔ تازہ ترین مثال حکومت، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک لبیک یا رسول اﷲ کے شرکا کے درمیان طے پانے والا چھ نکاتی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے میں کہیں یہ معذرت نہیں کی گئی کہ فیض آباد میں دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے لاکھوں عوام کو تکلیف اٹھانا پڑی۔ یہ اطلاعات بھی ملیں کہ دو افراد اس وجہ سے دم توڑ گئے کہ وہ طبی امداد کے لیے بروقت اسپتال نہ پہنچ سکے۔
تحریک لبیک کی قیادت یہ کہہ سکتی ہے کہ ان کے کارکن ایک مقدس مقصد کے لیے احتجاج کر رہے تھے اس لیے دونوں شہروں کے درمیان آنے جانے والے لوگوں کو اگر کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو یہ محض ایک معمولی سی قربانی تھی۔ جن لوگوں کو تکلیف اٹھانا پڑی اگر انھوں نے تحریک لبیک کے ڈنڈا برداروںکے خوف کے بجائے رضاکارانہ طور پر یہ قربانی دی ہوتی تو یہ دلیل مانی جاسکتی تھی۔
اسی طرح سے حکومت نے بھی، اس سے قطع نظر کہ دھرنا دینے والوں کے مطالبات قبول کرنے میں تاخیر پر ان لوگوں سے کوئی معذرت نہیں کی جو مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ حکومت نے معاہدے میں یہ شق شامل کرکے کہ تحریک لبیک ''ان (زاہد حامد) کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی'' واضح طور پر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ تحریک لبیک یا کسی دوسرے عالم دین کو فتویٰ جاری کرنے کا اختیار ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ اب فرد اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان نہیں رہا۔ اس سے ایک اور پیر صاحب کو یہ دعویٰ کرنے کی شہ ملی کہ وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ پنجاب کے وزیر قانون سچے مسلمان ہیں یا نہیں۔
حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جس کے طویل المدت مضمرات ہیں اور اس طرح ایک غلط مثال قائم کی گئی۔ ایک اور مثال پر غور کیجیے، نواز شریف نااہلی کیس میں فاضل عدالت نے لفظ ''قابل وصول'' کا مطلب تلاش کرنے کے لیے ٹیکس قوانین میں دیے گئے معنی پر انحصار کرنے کے بجائے ڈکشنری کا سہارا لیا۔ جب نواز شریف کے وکلا نے نظرثانی درخواست دائر کی تو اس کی سماعت بھی انھی جج صاحبان نے کی، اگرچہ یہ ایک معمول ہے مگر پھر بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نظرثانی درخواست کی سماعت کسی دوسری بنچ کو کرنا چاہیے تھی، کیونکہ ہم ججوں سے جو بہرحال انسان ہیں، یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی انا سے بالاتر ہوجائیں گے اور معذرت کریں گے کہ ان کا پہلا فیصلہ درست نہیں تھا۔
جسٹس افتخار چوہدری نے کمرشل کیسز میں تین ایسے فیصلے دیے جن کی بلوغت سے عاری میڈیا اور سیاست دانوں نے تعریف کی مگر بالآخر ان سے قوم کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ان مقدمات میں ریکوڈک کیس، اسٹیل ملز کیس اور کارکے کیس شامل ہے، مگر عدلیہ کے معزز جج صاحبان میں یہ تسلیم کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے کہ ان سے غلطی ہوئی۔
اب کچھ سیاسی فیصلوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان غلط فیصلوں کے لیے قیادت کی طرف سے معذرت واجب ہے۔ محمد علی جناح کی حکومت کی طرف سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف اردو ہی ملک کی قومی زبان ہوگی، مشرقی بنگال کے لوگوں نے اس فیصلے کو نہیں مانا، اس متنازع فیصلہ پر احتجاج کیا اور اپنی جانیں قربان کیں۔ بالآخر حکومت کو بنگالی کو بھی قومی زبان کی حیثیت دینے پر رضامند ہونا پڑا۔ اس پر کسی نے معذرت نہ کی اور یہ نہ کہا کہ پہلا فیصلہ غلط تھا۔
مشرقی بنگال کو سب سے بڑے صوبے کی حیثیت سے محروم کرنے کے لیے ون یونٹ بنانے پر کسی نے معذرت نہیں کی۔ 1956 کے آئین کو جو قیام پاکستان کے سات سال بعد بنایا گیا تھا، دفن کرنے پر کسی کے منہ سے لفظ ندامت ادا نہ ہوا۔ کسی نے اس بات پر بھی معذرت نہ کی کہ 1958 میں مارشل لا کا نفاذ غلط تھا، جس نے ملک میں جمہوری عمل کی افزائش کو روک دیا اور مشرقی بنگال کے عوام کو مزید الگ تھلگ کردیا۔ 1965 میں کشمیر میں خفیہ جنگ شروع کرنے کی غلطی کو کسی نے کبھی قبول نہیں کیا، جس کا نتیجہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگ کی صورت میں نکلا۔ جنگ کے سترہ روز بعد پاکستان کو جنگ بندی کرنا پڑی، کیونکہ ہمارے جنگی وسائل ختم ہوچکے تھے اور اگر یہ جنگ مزید جاری رہتی تو ہمیں شکست ہوسکتی تھی۔
کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ وہ بنگلہ دیش کے عوام کا نو آبادی کی حیثیت سے استحصال کرنے اور پھر آپریشن کرنے پر ان سے معافی مانگتا۔
اسٹیبلشمنٹ میں کسی کے پاس یہ قبول کرنے کی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ جنرل ضیا کی حکومت کی طرف سے افغان جنگ میں کودنا پاکستان کی عظیم ترین غلطی تھی۔ ضیا کی اس مہم کے باعث پاکستان پچھلی تین دہائیوں سے لہولہان ہیں۔ اسلحہ و گولہ بارود کا پھیلاؤ اور ملکی سیاست میں تشدد کا شامل ہونا ضیا کی جہادی مہم کا براہ راست نتیجہ ہے۔
کارگل مہم شروع کرنے پر کسی نے معذرت نہیں کی۔ جب ہم کارگل کی لڑائی ہارنے لگے تو ہمیں بھارت کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے انکل سام کے پاس بھاگنا پڑا۔ میں یہاں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے غیر ریاستی اداکاروں کی ان متعدد مہمات کا ذکر نہیں کر رہا جن کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ہماری سیاسی حکومت کی امن کوششیں تباہ ہوئیں۔
مشکل یہ ہے کہ چونکہ ہم معذرت اور اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے ہم اپنی اصلاح کے قابل نہیں ہوسکے اور ابھی تک یہ شور مچا رہے ہیں کہ ہم بین الاقوامی سازش کا شکار ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔
پاکستانی معاشرے میں پانچ حرفی لفظ معذرت شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی غلط کام کیا ہے تو وہ اس پر ندامت کا اظہارکررہا ہے۔ پاکستان کے نظام اقدار میں غلطی کا اعتراف نہیں کیا جاتا اور جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ان میں اس خوبی کا شدید فقدان ہے۔
آئیے چند ایسی واضح مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں جن میں بعض طاقتور گروپوں اور اداروں کی طرف سے ایسی غلطیاں کی گئیں جن سے قوم کو عظیم نقصان اٹھانا پڑا۔ تازہ ترین مثال حکومت، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک لبیک یا رسول اﷲ کے شرکا کے درمیان طے پانے والا چھ نکاتی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے میں کہیں یہ معذرت نہیں کی گئی کہ فیض آباد میں دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے لاکھوں عوام کو تکلیف اٹھانا پڑی۔ یہ اطلاعات بھی ملیں کہ دو افراد اس وجہ سے دم توڑ گئے کہ وہ طبی امداد کے لیے بروقت اسپتال نہ پہنچ سکے۔
تحریک لبیک کی قیادت یہ کہہ سکتی ہے کہ ان کے کارکن ایک مقدس مقصد کے لیے احتجاج کر رہے تھے اس لیے دونوں شہروں کے درمیان آنے جانے والے لوگوں کو اگر کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو یہ محض ایک معمولی سی قربانی تھی۔ جن لوگوں کو تکلیف اٹھانا پڑی اگر انھوں نے تحریک لبیک کے ڈنڈا برداروںکے خوف کے بجائے رضاکارانہ طور پر یہ قربانی دی ہوتی تو یہ دلیل مانی جاسکتی تھی۔
اسی طرح سے حکومت نے بھی، اس سے قطع نظر کہ دھرنا دینے والوں کے مطالبات قبول کرنے میں تاخیر پر ان لوگوں سے کوئی معذرت نہیں کی جو مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ حکومت نے معاہدے میں یہ شق شامل کرکے کہ تحریک لبیک ''ان (زاہد حامد) کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی'' واضح طور پر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ تحریک لبیک یا کسی دوسرے عالم دین کو فتویٰ جاری کرنے کا اختیار ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ اب فرد اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان نہیں رہا۔ اس سے ایک اور پیر صاحب کو یہ دعویٰ کرنے کی شہ ملی کہ وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ پنجاب کے وزیر قانون سچے مسلمان ہیں یا نہیں۔
حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جس کے طویل المدت مضمرات ہیں اور اس طرح ایک غلط مثال قائم کی گئی۔ ایک اور مثال پر غور کیجیے، نواز شریف نااہلی کیس میں فاضل عدالت نے لفظ ''قابل وصول'' کا مطلب تلاش کرنے کے لیے ٹیکس قوانین میں دیے گئے معنی پر انحصار کرنے کے بجائے ڈکشنری کا سہارا لیا۔ جب نواز شریف کے وکلا نے نظرثانی درخواست دائر کی تو اس کی سماعت بھی انھی جج صاحبان نے کی، اگرچہ یہ ایک معمول ہے مگر پھر بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نظرثانی درخواست کی سماعت کسی دوسری بنچ کو کرنا چاہیے تھی، کیونکہ ہم ججوں سے جو بہرحال انسان ہیں، یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی انا سے بالاتر ہوجائیں گے اور معذرت کریں گے کہ ان کا پہلا فیصلہ درست نہیں تھا۔
جسٹس افتخار چوہدری نے کمرشل کیسز میں تین ایسے فیصلے دیے جن کی بلوغت سے عاری میڈیا اور سیاست دانوں نے تعریف کی مگر بالآخر ان سے قوم کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ان مقدمات میں ریکوڈک کیس، اسٹیل ملز کیس اور کارکے کیس شامل ہے، مگر عدلیہ کے معزز جج صاحبان میں یہ تسلیم کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے کہ ان سے غلطی ہوئی۔
اب کچھ سیاسی فیصلوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان غلط فیصلوں کے لیے قیادت کی طرف سے معذرت واجب ہے۔ محمد علی جناح کی حکومت کی طرف سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف اردو ہی ملک کی قومی زبان ہوگی، مشرقی بنگال کے لوگوں نے اس فیصلے کو نہیں مانا، اس متنازع فیصلہ پر احتجاج کیا اور اپنی جانیں قربان کیں۔ بالآخر حکومت کو بنگالی کو بھی قومی زبان کی حیثیت دینے پر رضامند ہونا پڑا۔ اس پر کسی نے معذرت نہ کی اور یہ نہ کہا کہ پہلا فیصلہ غلط تھا۔
مشرقی بنگال کو سب سے بڑے صوبے کی حیثیت سے محروم کرنے کے لیے ون یونٹ بنانے پر کسی نے معذرت نہیں کی۔ 1956 کے آئین کو جو قیام پاکستان کے سات سال بعد بنایا گیا تھا، دفن کرنے پر کسی کے منہ سے لفظ ندامت ادا نہ ہوا۔ کسی نے اس بات پر بھی معذرت نہ کی کہ 1958 میں مارشل لا کا نفاذ غلط تھا، جس نے ملک میں جمہوری عمل کی افزائش کو روک دیا اور مشرقی بنگال کے عوام کو مزید الگ تھلگ کردیا۔ 1965 میں کشمیر میں خفیہ جنگ شروع کرنے کی غلطی کو کسی نے کبھی قبول نہیں کیا، جس کا نتیجہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگ کی صورت میں نکلا۔ جنگ کے سترہ روز بعد پاکستان کو جنگ بندی کرنا پڑی، کیونکہ ہمارے جنگی وسائل ختم ہوچکے تھے اور اگر یہ جنگ مزید جاری رہتی تو ہمیں شکست ہوسکتی تھی۔
کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ وہ بنگلہ دیش کے عوام کا نو آبادی کی حیثیت سے استحصال کرنے اور پھر آپریشن کرنے پر ان سے معافی مانگتا۔
اسٹیبلشمنٹ میں کسی کے پاس یہ قبول کرنے کی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ جنرل ضیا کی حکومت کی طرف سے افغان جنگ میں کودنا پاکستان کی عظیم ترین غلطی تھی۔ ضیا کی اس مہم کے باعث پاکستان پچھلی تین دہائیوں سے لہولہان ہیں۔ اسلحہ و گولہ بارود کا پھیلاؤ اور ملکی سیاست میں تشدد کا شامل ہونا ضیا کی جہادی مہم کا براہ راست نتیجہ ہے۔
کارگل مہم شروع کرنے پر کسی نے معذرت نہیں کی۔ جب ہم کارگل کی لڑائی ہارنے لگے تو ہمیں بھارت کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے انکل سام کے پاس بھاگنا پڑا۔ میں یہاں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے غیر ریاستی اداکاروں کی ان متعدد مہمات کا ذکر نہیں کر رہا جن کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ہماری سیاسی حکومت کی امن کوششیں تباہ ہوئیں۔
مشکل یہ ہے کہ چونکہ ہم معذرت اور اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے ہم اپنی اصلاح کے قابل نہیں ہوسکے اور ابھی تک یہ شور مچا رہے ہیں کہ ہم بین الاقوامی سازش کا شکار ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔