انٹارکٹیکا کبھی سبزے سے ڈھکا تھا
سرد اور بے آب و گیاہ براعظم کے فوسلز کیا بتاتے ہیں؟
انٹارکٹیکا: ہمارے کرۂ ارض کی ایک ایسی سرد اور بے آب و گیاہ سرزمین ہے جس کے موجودہ حالات تو یہ بتاتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے ہی ایسی بے روح اور بے جان زمین رہی ہے جہاں نہ کچھ اگتا تھا اور نہ ہی یہاں جان دار مخلوق رہتی تھی اور یہ کہ یہ جگہ ہمیشہ سے اجاڑ اور سنسان تھی، مگر اس خطے میں حال ہی میں کی جانے والی نئی تحقیق اور ریسرچ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انٹارکٹیکا کی سرزمین ہمیشہ سے ہی ایسی نہیں تھی، بلکہ اس پر ایک شان دار دور ایسا بھی گزرا ہے جب یہ پورا خطہ سبز درختوں اور نباتات کے شان دار سبز کمبل سے ڈھکا ہوا تھا۔
یہاں ماضی میں مختلف النوع جانور بھی پائے جاتے تھے اور اس کی سرزمین پر شان دار ہرے بھرے درخت بھی سر اٹھائے بڑی شان سے کھڑے تھے اور اس خطے کی شان و شوکت کو بڑھا رہے تھے۔ اس دور میں یہ شان دار علاقہ اپنی مثال آپ تھا، اس کے بعد ایسا کیا ہوا، کیسے ہوا اور کون سے عوامل یہاں پیدا ہوئے جن کی وجہ سے یہ خطہ ایک سرد اور بے جان خطہ بن گیا جو زندگی کی ہر طرح کی حرارت سے محروم ہوگیا، نہ یہاں کچھ اگتا ہے اور نہ نباتات، پیڑ پودے پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ماہرین شروع سے ہی یہاں ری سرچ کررہے ہیں اور وہ عوامل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جنہوں نے اس سرد خطے کو اس حال کو پہنچایا کہ یہاں آنا، یہاں کی سیر کرنا یا اس جگہ سے استفادہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا چلا گیا۔
پھر انٹارکٹیکا کی سرزمین برف کی تہہ چڑھا ہوا ایک ایسا براعظم بن گئی جس کے بارے میں اس دور یعنی عہد جدید کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ جنت کا ایک نہایت حسین اور دیدہ زیب جنگلاتی نمونہ ہے جو اس کرۂ ارض پر کچھ اس طرح نمودار ہوا ہے کہ اہل دنیا اس کے سحر میں کھوکر رہ گئے اور اس سے نکل نہیں پارہے، انہیں اس کے بے مثال حسن پر یقین ہی نہیں آتا۔
انٹارکٹیکا آیا کہاں سے اور کیسے ہماری زمین پر نمودار ہوا، اس کے بارے میں سب سے پہلے یہ تصور ایک برطانوی مہم جو رابرٹ فالکن اسکاٹ نے پیش کیا تھا، جس نے سب سے پہلے قطب جنوبی کی ایک دشوار گزار مہم کے دوران کچھ پودوں کے فوسلز (حجریوں) کا پتا لگایا تھا، جو اس کی ٹھوس شہادت پیش کررہے تھے کہ ماضی میں زمین کا یہ انوکھا خطہ طرح طرح کے پودوں، درختوں اور نباتات سے بھرا ہوا تھا اور اس سرزمین کی قدرتی خوب صورتی لاجواب تھی جسے دیکھ کر اس زمانے کے لوگ بھی حیران ہوتے ہوں گے۔
یہ سب اہل دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس سے شدید طور پر متاثر بھی ہوئے، مگر انہوں نے اس ضمن میں نہ تو کوئی کوشش کی اور نہ ہی اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی نقل و حرکت کی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ویسے ویسے اس بارے میں تحقیق بھی ہونے لگی اور اس کے انوکھے اور منفرد نتائج بھی سامنے آتے چلے گئے۔ محققین اور ریسرچ اسکالرز اپنے اپنے نظریات اور خیالات پیش کرتے رہے اور ماضی قدیم کے بارے میں اپنے قیاسات سے اہل دنیا کو آگاہ کرتے چلے گئے۔ گویا اس طرح یہ ریسرچ ورک بڑے ٹھوس مگر مستند انداز سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد یعنی عہد جدید میں انٹارکٹیکا کے Trans-Antarctic پہاڑوں میں ماہرین اور محققین نے اس تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے اس پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔
اگر آگے جاکر ماہرین کو اس سلسلے میں کوئی نئی اور انوکھی کام یابی ملتی ہے یا انہیں اس مقام سے ناقابل یقین شواہد و نتائج ملتے ہیں تو بلاشک و شبہہ وہ تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا اور ماہرین کو کچھ ملنے کی صورت میں وہ تاریخ میں پہلے افراد ہوں گے جو لاکھوں کروڑوں سال قدیم اس زمین پر اپنے قدم رکھ سکیں گے اور چل پھر سکیں گے جہاں ان سے پہلے کبھی کسی انسان نے قدم نہیں رکھے ہوں گے۔
یہ محققین، سائنسی ماہرین اور سائنس داں انٹارکٹیکا کے ماضی بعید کی اصل یا اصلیت کو تلاش کرنے کے لیے اس کی گہرائیوں میں کھدائی کررہے ہیں اور اس خطے کی زمین کی تہوں کو اچھی طرح کھوج رہے ہیں اور کھنگال رہے ہیں، تاکہ وہ اس کے قدیم ماضی تک پہنچ سکیں اور اس کے بارے میں قدیم حقائق کا کھوج لگاکر انہیں دنیا اور اہل دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔
انہوں نے انٹارکٹیکا کے ماضی کو کھود کر باہر نکالنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے، وہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، انہی کی انتھک کوششوں سے یہ بات آشکار ہونا شروع ہوگئی ہے اور یہ حقائق سامنے آنے لگے ہیں کہ کسی دور میں اس سرزمین پر ہر طرف سبزہ اور ہریالی تھی، جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ پورا خطہ بلاشبہہ اس قدرتی حسن میں اچھی طرح لپٹا ہوا تھا اور اس قدیم حسن کو یہاں کی سرد، بے رحم اور ٹھوس چٹانوں اور پہاڑوں نے اپنی آغوش میں چھپارکھا تھا۔
یونی ورسٹی آف وسکونسن ، ملواکی کے ماہرین ارضیات ایرک گلبرانسن اور جان ازابیل اس ٹیم میں شامل تھے جس نے گذشتہ سال کے موسم گرما میں ان شواہد کی تلاش کے لیے اس عجیب و غریب خطے کے دشوار گزار پہاڑی علاقے کا سفر کیا تھا جو اس خطے کے شان دار ماضی کے حقائق دنیا کے سامنے لانے والے تھے اور جنہوں نے اس سارے کام اور سفر کو ماہرین کے لیے نہایت آسان بنادیا تھا۔ اس کے بعد اس خطے کا زندہ اور جان دار ماضی ایک حقیقت کی صورت میں ساری دنیا کے سامنے آجاتا۔ اس کے نتیجے میں زمانۂ قدیم کے اس تصور کی توثیق ہوجاتی کہ یہ خطہ نہایت زرخیز اور پیداواری ماضی سے آراستہ تھا جو بعد میں اہل دنیا کے سامنے آجاتا اور وہ بھی انٹارکٹیکا کی اصل اور خالص تاریخ سے آگاہ ہوجاتے۔
انٹارکٹیکا کے پراسرار پہاڑ، پہاڑیاں اور کھلی ہوئی چٹانیں اپنی جگہ جس انداز سے سر اٹھائے کھڑی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ خطہ اپنے دامن میں بہت سی خاص باتیں اور ناقابل یقین حقائق چھپائے ہوئے ہے جن کا بہرصورت دنیا کے سامنے آنا ضروری ہے۔
انٹارکٹیکا کی سرزمین پر یہ تمام پراسرار پہاڑ، پہاڑیاں اور کھلی ہوئی چٹانیں وہ واحد کھلی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں ماہرین ارض یا ارضیات کے زمرے میں شمار کرتے ہیں ورنہ باقی سب چیزیں تو برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی چیز کھلی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ وہ کھلی ہوئی چٹانیں یا پہاڑ ماہرین ارضیات اور paleobotanists (ماہرین رکازی نباتیات) کو وہ بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ سب لوگ ان مقامات سے زمین پر پائے جانے والے فوسلز (حجریات) زمین سے کھود کر نکالتے ہیں۔ پھر ان پر تجربات بھی کرتے ہیں اور ان کے ماضی کے بارے میں ٹھوس ری سرچ بھی کرتے ہیں جس سے انہیں اس خطے کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ وہ نادر موقع ہوتا ہے جو ماہرین کو وہ معلومات فراہم کرتا ہے کہ وہ ایک دم خطے کے ماضی میں غوطہ لگالیتے ہیں اور اندر کی دنیا کے بارے میں سب کچھ حقائق جان کر دنیا اور اہل دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ ان فوسلز کے علاوہ ایک اور اہم کام یابی بھی سائنس دانوں کو اس خطے سے اس طرح ملتی ہے کہ یہاں پائی جانے والی بہت سی چٹانوں کی تشکیل اس دور قدیم کو ظاہر کرتی ہے جو ان کے دور قدیم میں معدوم ہونے کے وقت سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ وقت اصل میں قدیم ارضیاتی زمانے کا آخری دور تھا۔ یہ وہ دور قدیم تھا جسے اہل دنیا نے صحیح انداز سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
واضح رہے کہ جب یہ دور آیا تھا تو اس کے نتیجے میں کرۂ ارض کی 90 فی صد بحری زندگی تباہ ہوگئی تھی۔ یہ کوئی معمولی نقصان نہیں تھا، بلکہ بہت بڑی تباہی تھی جو اب تک کے معلوم زمانے کی سب سے بڑی تباہی تھی جس نے اتنا شدید نقصان پہنچایا کہ بہت کچھ تباہ و برباد کرڈالا۔
گذشتہ سال اپنے ہنگامی اقدامات اور تیز کاموں کے دوران گلبرنسن اور ازابیل نے 13 فوسلائزڈ (حجریاتی) درختوں کی باقیات بھی تلاش کرڈالیں جن کا تعلق 260 ملین برس سے بھی زیادہ قدیم دور سے تھا۔ یہ وہ دور تھا جس کا تعلق قدیم ارضیاتی دور کے خاتمے سے لگ بھگ 8 سال پہلے سے تھا۔مسلمہ طور پر ان درختوں میں ایک قسم Glossopteris قسم کے درخت کی ہے جو اس دور میں پورے کرۂ ارض پر چھایا ہوا تھا۔ یہ درخت کی وہ قسم ہے جس کے بیج بھی ہیں اور لمبی زبان کی شکل کے پتے اور پتیاں بھی ہیں۔
یہ پتے اور پتیاں موسم گرما کے خاتمے پر یقینی طور پر گر جاتے ہیں۔ کسی دور میں Permian Antarctic میں Glossopteris نامی یہ درخت اس پورے خطے کا بادشاہ تھا۔ درختوں کے جنگلات اس زمانے میں پورے کے پورے براعظم پر دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس جگہ سے یہ جنگلات جنوبی امریکا، افریقا، انڈیا اور آسٹریلیاں تک بھی پھیلتے چلے گئے اور انہوں نے ایک بہت وسیع و عریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اتنی زبردست وسعت اختیار کی کہ ہر طرف سبز قدرتی کمبل بچھادیے۔
کسی زمانے میں زمین کے یہ مختلف النوع اور غیرمتساوی ٹکڑے ایک اور واحد جڑا ہوا خطہ ہوتے تھے، گویا یہ پورا ایک علاقہ تھا جسے ایک طرح سے ایک قدیم سپر کنٹیننٹ یا سپر براعظم سمجھنا چاہیے جسے Gondwana کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ درحقیقت Glossopteris نامی یہ درخت اس بات کا بالکل عیاں اور ٹھوس ثبوت ہیں کہ کسی زمانے میں Gondwana واقعی اس کرۂ ارض پر اپنا وجود رکھتا تھا۔ ایک حقیقت یہ بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ یہ وہ درخت تھے کہ اگر وہ زمین کے مختلف حصوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط و منسلک ہوتے تو زمین کے مختلف مقامات پر ان کا وجود یقینی ہوتا۔
٭قطبی درخت یا Polar Trees:
انٹارکٹیکا میں وجود رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ وہاں ایسا ماحول نہ ہوتا جو آج کے دور میں دکھائی دے رہا ہے۔ آج جس طرح مختلف درخت اور پیڑ پودے انٹارکٹیکا میں دکھائی نہیں دے رہے، اس کے پس پردہ بھی وہی عوامل ہیں جن کی وجہ سے ماضی بعید کے درخت، پیڑ پودے اور نباتات کے میدان اجڑے اور انٹارکٹیکا کا خطہ ہر طرح کی ہریالی سے محروم ہوگیا، بالکل اسی طرح بعد کے دور میں بھی ہوا ہے۔
سب سے اہم اور بنیادی سبب اس خطے میں چھے ماہ روشنی اور چھے ماہ تاریکی کا قدرتی نظام ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ درختوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے یا اس سرزمین پر اپنے آپ کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے ایسا کوئی نظام تلاش کرنا تھا جس میں وہ نصف برس تک تاریکی میں رہنے والے اس براعظم میں اپنا وجود برقرار رکھیں۔
ظاہر ہے سورج کی روشنی درختوں اور پیڑ پودوں کی خوراک ہے اور اس کے بغیر وہ غذائیت کی کمی کا شکار ہوسکتے تھے جو وہ ہوئے اور آنے والے وقتوں میں انہوں نے اس کمی کا خمیازہ بھگتا۔ مگر کچھ محفوظ کیے گئے درخت کچھ ایسے حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں جان کر ہمارے قارئین حیران رہ جائیں گے کہ ان درختوں نے ان حالات میں اس سرزمین پر اپنا وجود کیسے برقرار رکھا۔
اس ضمن میں جو حقائق ہم تک سائنس دانوں کے توسط سے پہنچے، ان میں درختوں پر پائے جانے والے دائرے بھی ہیں اور فوسلز میں محفوظ شدہ انفرادی سیلز بھی۔ ان کی مدد سے ماہرین کو ان درختوں کی عمر اور تاریخ جاننے میں مدد ملتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ تاریخ میں وہ کون کون سے ادوار تھے جب انہوں نے پرورش پائی اور کب کب انہوں نے آرام کیا اور پھر خود کو بدلتے ہوئے موسموں کے مطابق ڈھالا اور ان موسموں سے ہم آہنگ بھی کیا۔
پھر ان کے درمیان پائے جانے والے فرق اور اختلافات بھی ظاہر ہوئے یعنی جب یہ پرورش پارہے تھے تو یہ بڑے تھے اور جب آرام کی پوزیشن میں تھے تو یہ چھوٹے تھے۔ یہ بات پارک یونی ورسٹی کی ایک ماہر رکازی نباتیات Patty Ryberg نے کہی تھی کہ اس طرح کا کوئی فرقGlossopteris درختوں کے درمیان نہیں پایا جاتا۔Patty Ryberg اس ریسرچ ٹیم کا حصہ بھی ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے:''انٹارکٹکا درختوں میں بڑے سیلز ہوتے ہیں۔ یہ بغیر رکے چھے ماہ تک مسلسل دوڑتے رہتے ہیں۔ اب ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اس مقام پر کیسے اگتے ہیں۔''
لگ بھگ 252 ملین سال پہلے کسی دور کے عظیم الشان درختوں کی یہ بے مثال قسم Permian معدومیت کے آخری دور میں یکایک غائب ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی اس دور کی دیگر لاتعداد اقسام بھی غائب ہوتی چلی گئیں۔ اس ساری تباہی کا ذمے دار کون تھا؟ اس سوال کے جواب سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔
٭آب و ہوا کی تبدیلی:
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس خطے میں جہاں آج کا روس موجود ہے، اس میں آتش فشانی نقل و حرکت کی وجہ سے جو علاقہ وجود میں آیا، وہ سائبیریا کی آتش فشانی چٹانیں ہیں۔ ان میں سے CO2 گیس کے اخراج سے پورے کرۂ ارض کا ماحول گرم ہوگیا جس سے سمندروں میں بھی انوکھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور ان کے مطابق زمین پر زندگی نے بھی اپنا چولا بدلا اور نئے نئے روپ اختیار کیے۔
بہرحال اس ساری نقل و حرکت کی وجہ سے یہ خطہ زندگی گزارنے کے قابل بن سکا اور اس نے اپنے آپ کو اس دور کی کیفیت کے مطابق ڈھال لیا۔ اس کے ماحولیاتی نتائج بڑے تباہ کن تھے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کرۂ ارض پر زندگی میں یہ سب تبدیلیاں دس ملین سال پہلے وجود میں آئیں جن سے سنبھلنے میں انسان کو بہت وقت لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمین سے Glossopteris درخت بالکل ہی نیست و نابود ہوگئے۔
اس پورے اہم واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے بالکل پہلے اور بالکل بعد چٹانوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے راز کھل سکتے ہیں اور کئی اہم چیزوں کا انکشاف ہوسکتا ہے۔ یہ ساری تبدیلیاں جو ماحول اور وقت کے حوالے سے زیادہ اہم ہیں، ماہرین کو یہ آئیڈیا ملتا ہے کہ زمین پر ہونے والی مکمل تباہی کا یہ واقعہ کس طرح ظہور پذیر ہوا تھا اور پھر یہ سب چیزیں کس طرح وسعت پاتی چلی گئی تھیں۔
Ryberg اور Isbell آج کل نیوزی لینڈ میں ہیں اور وہ موسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے منتظر ہیں تاکہ انٹارکٹیکا میں ان کا تحقیقی کام جاری رہ سکے۔گلبرانسن بھی چند ہفتوں میں آجائے گا پھر انہوں نے مل کر ایک بار پھر Tran-Antarctic mountains کی طرف واپسی کا ارادہ کیا ہے۔اس خطے کی بے تحاشا ٹھنڈ اور خوف ناک تنہائی میں یہ سب لوگ ان جنگلوں کے بھوت پریتوں کے درمیان اور مردہ روحوں کے ساتھ ساتھ چل پھر سکیں گے اور یہ اس خطے کے سبز دور کے ٹھوس شواہد بھی تلاش کرسکیں گے۔
٭مختلف لوگوں کی آراء:
انٹارکٹیکا میں فوسلز درختوں کی موجودگی کے حوالے سے دنیا کے مختلف لوگوں نے اپنی اپنی آراء پیش کی ہیں۔ ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ انٹارکٹیکا میں اگر فوسلز درخت موجود ہیں تو یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ جس خطے میں کسی زمانے میں اگتے تھے، وہ قطب جنوبی ہی ہو۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس براعظمی طاق یا الماری پر یہ کسی زمانے میں اگتے تھے، ممکن ہے انہیں تعمیری یا عمارتی قوتیں لائی ہوں یا پھر یہ اس دور میں زمین پر پیدا ہوئے ہوں گے جب زمینوں کا محوری جھکاؤ مختلف تھا۔ایک بات ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا نہیں سوچنا چاہیے اور نہ ہی حساب لگانا چاہیے کہ ان ادوار میں انٹارکٹیکا کہاں تھا۔ سائنسی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ زمین 250ملین سال قبل ایک بہت زیادہ گرم سائیکل میں تھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مقام نہایت شدید سرد آب و ہوا میں واقع تھا۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس خطے کے درخت چھے ماہ تاریکی اور چھے ماہ روشنی کے سائیکل میں رہے تھے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی قیاس ہے کہ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ درخت جب اگنے شروع ہوئے تو انٹارکٹیکا زیادہ شمال کی طرف تھا اور آہستہ آہستہ اس وقت مرنے لگا جب خشکی کا وہ ٹکڑا جس پر یہ اگے ہوئے تھے، آہستہ آہستہ جنوب کی طرف کھسکتا چلا گیا جہاں اسے ایک ناممکن اور سخت آب و ہوا سے مقابلہ کرنا پڑا۔
ایک ماہر سائنس داں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ انٹارکٹیکا ہمیشہ سے قطب جنوبی میں تھا۔ میں نے پڑھا ہے کہ کافی حد تک شمال میں تھا جہاں پورے سال سورج کی روشنی چمکتی رہتی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انٹارکٹیکا میں Transantarcticپہاڑوں میں کوئلے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں وہاں کی macerals کا معائنہ کرنا ہوگا۔
بہرحال انٹارکٹیکا پر کروڑوں سال پہلے ایسی ہی ہری بھری اور زرخیز زندگی تھی جیسے اس وقت ہمارے کرۂ ارض پر ہے یا اس زندگی کی شکل ہماری زمین کی زندگی کی موجودہ شکل سے مختلف تھی، اس بارے میں فی الحال قطعی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے، سائنس دانوں اور ماہرین ابھی تک اندازوں اور قیاسات سے کام چلارہے ہیں، مگر حال ہی میں انٹارکٹیکا میں کی جانے والی تازہ سائنسی ریسرچ اور کھدائی کا کام آگے چل کر ہمارے ماہرین کے بہت سے سوالوں کے جواب دے دے گا اور ہم اس خطۂ بے آب و گیاہ کی اصلیت کے بارے میں بہت کچھ جان سکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں صبر کے ساتھ انتظار کرنا ہوگا۔
یہاں ماضی میں مختلف النوع جانور بھی پائے جاتے تھے اور اس کی سرزمین پر شان دار ہرے بھرے درخت بھی سر اٹھائے بڑی شان سے کھڑے تھے اور اس خطے کی شان و شوکت کو بڑھا رہے تھے۔ اس دور میں یہ شان دار علاقہ اپنی مثال آپ تھا، اس کے بعد ایسا کیا ہوا، کیسے ہوا اور کون سے عوامل یہاں پیدا ہوئے جن کی وجہ سے یہ خطہ ایک سرد اور بے جان خطہ بن گیا جو زندگی کی ہر طرح کی حرارت سے محروم ہوگیا، نہ یہاں کچھ اگتا ہے اور نہ نباتات، پیڑ پودے پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ماہرین شروع سے ہی یہاں ری سرچ کررہے ہیں اور وہ عوامل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جنہوں نے اس سرد خطے کو اس حال کو پہنچایا کہ یہاں آنا، یہاں کی سیر کرنا یا اس جگہ سے استفادہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا چلا گیا۔
پھر انٹارکٹیکا کی سرزمین برف کی تہہ چڑھا ہوا ایک ایسا براعظم بن گئی جس کے بارے میں اس دور یعنی عہد جدید کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ جنت کا ایک نہایت حسین اور دیدہ زیب جنگلاتی نمونہ ہے جو اس کرۂ ارض پر کچھ اس طرح نمودار ہوا ہے کہ اہل دنیا اس کے سحر میں کھوکر رہ گئے اور اس سے نکل نہیں پارہے، انہیں اس کے بے مثال حسن پر یقین ہی نہیں آتا۔
انٹارکٹیکا آیا کہاں سے اور کیسے ہماری زمین پر نمودار ہوا، اس کے بارے میں سب سے پہلے یہ تصور ایک برطانوی مہم جو رابرٹ فالکن اسکاٹ نے پیش کیا تھا، جس نے سب سے پہلے قطب جنوبی کی ایک دشوار گزار مہم کے دوران کچھ پودوں کے فوسلز (حجریوں) کا پتا لگایا تھا، جو اس کی ٹھوس شہادت پیش کررہے تھے کہ ماضی میں زمین کا یہ انوکھا خطہ طرح طرح کے پودوں، درختوں اور نباتات سے بھرا ہوا تھا اور اس سرزمین کی قدرتی خوب صورتی لاجواب تھی جسے دیکھ کر اس زمانے کے لوگ بھی حیران ہوتے ہوں گے۔
یہ سب اہل دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس سے شدید طور پر متاثر بھی ہوئے، مگر انہوں نے اس ضمن میں نہ تو کوئی کوشش کی اور نہ ہی اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی نقل و حرکت کی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ویسے ویسے اس بارے میں تحقیق بھی ہونے لگی اور اس کے انوکھے اور منفرد نتائج بھی سامنے آتے چلے گئے۔ محققین اور ریسرچ اسکالرز اپنے اپنے نظریات اور خیالات پیش کرتے رہے اور ماضی قدیم کے بارے میں اپنے قیاسات سے اہل دنیا کو آگاہ کرتے چلے گئے۔ گویا اس طرح یہ ریسرچ ورک بڑے ٹھوس مگر مستند انداز سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد یعنی عہد جدید میں انٹارکٹیکا کے Trans-Antarctic پہاڑوں میں ماہرین اور محققین نے اس تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے اس پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔
اگر آگے جاکر ماہرین کو اس سلسلے میں کوئی نئی اور انوکھی کام یابی ملتی ہے یا انہیں اس مقام سے ناقابل یقین شواہد و نتائج ملتے ہیں تو بلاشک و شبہہ وہ تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا اور ماہرین کو کچھ ملنے کی صورت میں وہ تاریخ میں پہلے افراد ہوں گے جو لاکھوں کروڑوں سال قدیم اس زمین پر اپنے قدم رکھ سکیں گے اور چل پھر سکیں گے جہاں ان سے پہلے کبھی کسی انسان نے قدم نہیں رکھے ہوں گے۔
یہ محققین، سائنسی ماہرین اور سائنس داں انٹارکٹیکا کے ماضی بعید کی اصل یا اصلیت کو تلاش کرنے کے لیے اس کی گہرائیوں میں کھدائی کررہے ہیں اور اس خطے کی زمین کی تہوں کو اچھی طرح کھوج رہے ہیں اور کھنگال رہے ہیں، تاکہ وہ اس کے قدیم ماضی تک پہنچ سکیں اور اس کے بارے میں قدیم حقائق کا کھوج لگاکر انہیں دنیا اور اہل دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔
انہوں نے انٹارکٹیکا کے ماضی کو کھود کر باہر نکالنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے، وہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، انہی کی انتھک کوششوں سے یہ بات آشکار ہونا شروع ہوگئی ہے اور یہ حقائق سامنے آنے لگے ہیں کہ کسی دور میں اس سرزمین پر ہر طرف سبزہ اور ہریالی تھی، جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ پورا خطہ بلاشبہہ اس قدرتی حسن میں اچھی طرح لپٹا ہوا تھا اور اس قدیم حسن کو یہاں کی سرد، بے رحم اور ٹھوس چٹانوں اور پہاڑوں نے اپنی آغوش میں چھپارکھا تھا۔
یونی ورسٹی آف وسکونسن ، ملواکی کے ماہرین ارضیات ایرک گلبرانسن اور جان ازابیل اس ٹیم میں شامل تھے جس نے گذشتہ سال کے موسم گرما میں ان شواہد کی تلاش کے لیے اس عجیب و غریب خطے کے دشوار گزار پہاڑی علاقے کا سفر کیا تھا جو اس خطے کے شان دار ماضی کے حقائق دنیا کے سامنے لانے والے تھے اور جنہوں نے اس سارے کام اور سفر کو ماہرین کے لیے نہایت آسان بنادیا تھا۔ اس کے بعد اس خطے کا زندہ اور جان دار ماضی ایک حقیقت کی صورت میں ساری دنیا کے سامنے آجاتا۔ اس کے نتیجے میں زمانۂ قدیم کے اس تصور کی توثیق ہوجاتی کہ یہ خطہ نہایت زرخیز اور پیداواری ماضی سے آراستہ تھا جو بعد میں اہل دنیا کے سامنے آجاتا اور وہ بھی انٹارکٹیکا کی اصل اور خالص تاریخ سے آگاہ ہوجاتے۔
انٹارکٹیکا کے پراسرار پہاڑ، پہاڑیاں اور کھلی ہوئی چٹانیں اپنی جگہ جس انداز سے سر اٹھائے کھڑی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ خطہ اپنے دامن میں بہت سی خاص باتیں اور ناقابل یقین حقائق چھپائے ہوئے ہے جن کا بہرصورت دنیا کے سامنے آنا ضروری ہے۔
انٹارکٹیکا کی سرزمین پر یہ تمام پراسرار پہاڑ، پہاڑیاں اور کھلی ہوئی چٹانیں وہ واحد کھلی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں ماہرین ارض یا ارضیات کے زمرے میں شمار کرتے ہیں ورنہ باقی سب چیزیں تو برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی چیز کھلی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ وہ کھلی ہوئی چٹانیں یا پہاڑ ماہرین ارضیات اور paleobotanists (ماہرین رکازی نباتیات) کو وہ بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ سب لوگ ان مقامات سے زمین پر پائے جانے والے فوسلز (حجریات) زمین سے کھود کر نکالتے ہیں۔ پھر ان پر تجربات بھی کرتے ہیں اور ان کے ماضی کے بارے میں ٹھوس ری سرچ بھی کرتے ہیں جس سے انہیں اس خطے کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ وہ نادر موقع ہوتا ہے جو ماہرین کو وہ معلومات فراہم کرتا ہے کہ وہ ایک دم خطے کے ماضی میں غوطہ لگالیتے ہیں اور اندر کی دنیا کے بارے میں سب کچھ حقائق جان کر دنیا اور اہل دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ ان فوسلز کے علاوہ ایک اور اہم کام یابی بھی سائنس دانوں کو اس خطے سے اس طرح ملتی ہے کہ یہاں پائی جانے والی بہت سی چٹانوں کی تشکیل اس دور قدیم کو ظاہر کرتی ہے جو ان کے دور قدیم میں معدوم ہونے کے وقت سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ وقت اصل میں قدیم ارضیاتی زمانے کا آخری دور تھا۔ یہ وہ دور قدیم تھا جسے اہل دنیا نے صحیح انداز سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
واضح رہے کہ جب یہ دور آیا تھا تو اس کے نتیجے میں کرۂ ارض کی 90 فی صد بحری زندگی تباہ ہوگئی تھی۔ یہ کوئی معمولی نقصان نہیں تھا، بلکہ بہت بڑی تباہی تھی جو اب تک کے معلوم زمانے کی سب سے بڑی تباہی تھی جس نے اتنا شدید نقصان پہنچایا کہ بہت کچھ تباہ و برباد کرڈالا۔
گذشتہ سال اپنے ہنگامی اقدامات اور تیز کاموں کے دوران گلبرنسن اور ازابیل نے 13 فوسلائزڈ (حجریاتی) درختوں کی باقیات بھی تلاش کرڈالیں جن کا تعلق 260 ملین برس سے بھی زیادہ قدیم دور سے تھا۔ یہ وہ دور تھا جس کا تعلق قدیم ارضیاتی دور کے خاتمے سے لگ بھگ 8 سال پہلے سے تھا۔مسلمہ طور پر ان درختوں میں ایک قسم Glossopteris قسم کے درخت کی ہے جو اس دور میں پورے کرۂ ارض پر چھایا ہوا تھا۔ یہ درخت کی وہ قسم ہے جس کے بیج بھی ہیں اور لمبی زبان کی شکل کے پتے اور پتیاں بھی ہیں۔
یہ پتے اور پتیاں موسم گرما کے خاتمے پر یقینی طور پر گر جاتے ہیں۔ کسی دور میں Permian Antarctic میں Glossopteris نامی یہ درخت اس پورے خطے کا بادشاہ تھا۔ درختوں کے جنگلات اس زمانے میں پورے کے پورے براعظم پر دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس جگہ سے یہ جنگلات جنوبی امریکا، افریقا، انڈیا اور آسٹریلیاں تک بھی پھیلتے چلے گئے اور انہوں نے ایک بہت وسیع و عریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اتنی زبردست وسعت اختیار کی کہ ہر طرف سبز قدرتی کمبل بچھادیے۔
کسی زمانے میں زمین کے یہ مختلف النوع اور غیرمتساوی ٹکڑے ایک اور واحد جڑا ہوا خطہ ہوتے تھے، گویا یہ پورا ایک علاقہ تھا جسے ایک طرح سے ایک قدیم سپر کنٹیننٹ یا سپر براعظم سمجھنا چاہیے جسے Gondwana کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ درحقیقت Glossopteris نامی یہ درخت اس بات کا بالکل عیاں اور ٹھوس ثبوت ہیں کہ کسی زمانے میں Gondwana واقعی اس کرۂ ارض پر اپنا وجود رکھتا تھا۔ ایک حقیقت یہ بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ یہ وہ درخت تھے کہ اگر وہ زمین کے مختلف حصوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط و منسلک ہوتے تو زمین کے مختلف مقامات پر ان کا وجود یقینی ہوتا۔
٭قطبی درخت یا Polar Trees:
انٹارکٹیکا میں وجود رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ وہاں ایسا ماحول نہ ہوتا جو آج کے دور میں دکھائی دے رہا ہے۔ آج جس طرح مختلف درخت اور پیڑ پودے انٹارکٹیکا میں دکھائی نہیں دے رہے، اس کے پس پردہ بھی وہی عوامل ہیں جن کی وجہ سے ماضی بعید کے درخت، پیڑ پودے اور نباتات کے میدان اجڑے اور انٹارکٹیکا کا خطہ ہر طرح کی ہریالی سے محروم ہوگیا، بالکل اسی طرح بعد کے دور میں بھی ہوا ہے۔
سب سے اہم اور بنیادی سبب اس خطے میں چھے ماہ روشنی اور چھے ماہ تاریکی کا قدرتی نظام ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ درختوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے یا اس سرزمین پر اپنے آپ کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے ایسا کوئی نظام تلاش کرنا تھا جس میں وہ نصف برس تک تاریکی میں رہنے والے اس براعظم میں اپنا وجود برقرار رکھیں۔
ظاہر ہے سورج کی روشنی درختوں اور پیڑ پودوں کی خوراک ہے اور اس کے بغیر وہ غذائیت کی کمی کا شکار ہوسکتے تھے جو وہ ہوئے اور آنے والے وقتوں میں انہوں نے اس کمی کا خمیازہ بھگتا۔ مگر کچھ محفوظ کیے گئے درخت کچھ ایسے حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں جان کر ہمارے قارئین حیران رہ جائیں گے کہ ان درختوں نے ان حالات میں اس سرزمین پر اپنا وجود کیسے برقرار رکھا۔
اس ضمن میں جو حقائق ہم تک سائنس دانوں کے توسط سے پہنچے، ان میں درختوں پر پائے جانے والے دائرے بھی ہیں اور فوسلز میں محفوظ شدہ انفرادی سیلز بھی۔ ان کی مدد سے ماہرین کو ان درختوں کی عمر اور تاریخ جاننے میں مدد ملتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ تاریخ میں وہ کون کون سے ادوار تھے جب انہوں نے پرورش پائی اور کب کب انہوں نے آرام کیا اور پھر خود کو بدلتے ہوئے موسموں کے مطابق ڈھالا اور ان موسموں سے ہم آہنگ بھی کیا۔
پھر ان کے درمیان پائے جانے والے فرق اور اختلافات بھی ظاہر ہوئے یعنی جب یہ پرورش پارہے تھے تو یہ بڑے تھے اور جب آرام کی پوزیشن میں تھے تو یہ چھوٹے تھے۔ یہ بات پارک یونی ورسٹی کی ایک ماہر رکازی نباتیات Patty Ryberg نے کہی تھی کہ اس طرح کا کوئی فرقGlossopteris درختوں کے درمیان نہیں پایا جاتا۔Patty Ryberg اس ریسرچ ٹیم کا حصہ بھی ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے:''انٹارکٹکا درختوں میں بڑے سیلز ہوتے ہیں۔ یہ بغیر رکے چھے ماہ تک مسلسل دوڑتے رہتے ہیں۔ اب ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اس مقام پر کیسے اگتے ہیں۔''
لگ بھگ 252 ملین سال پہلے کسی دور کے عظیم الشان درختوں کی یہ بے مثال قسم Permian معدومیت کے آخری دور میں یکایک غائب ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی اس دور کی دیگر لاتعداد اقسام بھی غائب ہوتی چلی گئیں۔ اس ساری تباہی کا ذمے دار کون تھا؟ اس سوال کے جواب سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔
٭آب و ہوا کی تبدیلی:
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس خطے میں جہاں آج کا روس موجود ہے، اس میں آتش فشانی نقل و حرکت کی وجہ سے جو علاقہ وجود میں آیا، وہ سائبیریا کی آتش فشانی چٹانیں ہیں۔ ان میں سے CO2 گیس کے اخراج سے پورے کرۂ ارض کا ماحول گرم ہوگیا جس سے سمندروں میں بھی انوکھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور ان کے مطابق زمین پر زندگی نے بھی اپنا چولا بدلا اور نئے نئے روپ اختیار کیے۔
بہرحال اس ساری نقل و حرکت کی وجہ سے یہ خطہ زندگی گزارنے کے قابل بن سکا اور اس نے اپنے آپ کو اس دور کی کیفیت کے مطابق ڈھال لیا۔ اس کے ماحولیاتی نتائج بڑے تباہ کن تھے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کرۂ ارض پر زندگی میں یہ سب تبدیلیاں دس ملین سال پہلے وجود میں آئیں جن سے سنبھلنے میں انسان کو بہت وقت لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمین سے Glossopteris درخت بالکل ہی نیست و نابود ہوگئے۔
اس پورے اہم واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے بالکل پہلے اور بالکل بعد چٹانوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے راز کھل سکتے ہیں اور کئی اہم چیزوں کا انکشاف ہوسکتا ہے۔ یہ ساری تبدیلیاں جو ماحول اور وقت کے حوالے سے زیادہ اہم ہیں، ماہرین کو یہ آئیڈیا ملتا ہے کہ زمین پر ہونے والی مکمل تباہی کا یہ واقعہ کس طرح ظہور پذیر ہوا تھا اور پھر یہ سب چیزیں کس طرح وسعت پاتی چلی گئی تھیں۔
Ryberg اور Isbell آج کل نیوزی لینڈ میں ہیں اور وہ موسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے منتظر ہیں تاکہ انٹارکٹیکا میں ان کا تحقیقی کام جاری رہ سکے۔گلبرانسن بھی چند ہفتوں میں آجائے گا پھر انہوں نے مل کر ایک بار پھر Tran-Antarctic mountains کی طرف واپسی کا ارادہ کیا ہے۔اس خطے کی بے تحاشا ٹھنڈ اور خوف ناک تنہائی میں یہ سب لوگ ان جنگلوں کے بھوت پریتوں کے درمیان اور مردہ روحوں کے ساتھ ساتھ چل پھر سکیں گے اور یہ اس خطے کے سبز دور کے ٹھوس شواہد بھی تلاش کرسکیں گے۔
٭مختلف لوگوں کی آراء:
انٹارکٹیکا میں فوسلز درختوں کی موجودگی کے حوالے سے دنیا کے مختلف لوگوں نے اپنی اپنی آراء پیش کی ہیں۔ ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ انٹارکٹیکا میں اگر فوسلز درخت موجود ہیں تو یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ جس خطے میں کسی زمانے میں اگتے تھے، وہ قطب جنوبی ہی ہو۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس براعظمی طاق یا الماری پر یہ کسی زمانے میں اگتے تھے، ممکن ہے انہیں تعمیری یا عمارتی قوتیں لائی ہوں یا پھر یہ اس دور میں زمین پر پیدا ہوئے ہوں گے جب زمینوں کا محوری جھکاؤ مختلف تھا۔ایک بات ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا نہیں سوچنا چاہیے اور نہ ہی حساب لگانا چاہیے کہ ان ادوار میں انٹارکٹیکا کہاں تھا۔ سائنسی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ زمین 250ملین سال قبل ایک بہت زیادہ گرم سائیکل میں تھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مقام نہایت شدید سرد آب و ہوا میں واقع تھا۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس خطے کے درخت چھے ماہ تاریکی اور چھے ماہ روشنی کے سائیکل میں رہے تھے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی قیاس ہے کہ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ درخت جب اگنے شروع ہوئے تو انٹارکٹیکا زیادہ شمال کی طرف تھا اور آہستہ آہستہ اس وقت مرنے لگا جب خشکی کا وہ ٹکڑا جس پر یہ اگے ہوئے تھے، آہستہ آہستہ جنوب کی طرف کھسکتا چلا گیا جہاں اسے ایک ناممکن اور سخت آب و ہوا سے مقابلہ کرنا پڑا۔
ایک ماہر سائنس داں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ انٹارکٹیکا ہمیشہ سے قطب جنوبی میں تھا۔ میں نے پڑھا ہے کہ کافی حد تک شمال میں تھا جہاں پورے سال سورج کی روشنی چمکتی رہتی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انٹارکٹیکا میں Transantarcticپہاڑوں میں کوئلے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں وہاں کی macerals کا معائنہ کرنا ہوگا۔
بہرحال انٹارکٹیکا پر کروڑوں سال پہلے ایسی ہی ہری بھری اور زرخیز زندگی تھی جیسے اس وقت ہمارے کرۂ ارض پر ہے یا اس زندگی کی شکل ہماری زمین کی زندگی کی موجودہ شکل سے مختلف تھی، اس بارے میں فی الحال قطعی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے، سائنس دانوں اور ماہرین ابھی تک اندازوں اور قیاسات سے کام چلارہے ہیں، مگر حال ہی میں انٹارکٹیکا میں کی جانے والی تازہ سائنسی ریسرچ اور کھدائی کا کام آگے چل کر ہمارے ماہرین کے بہت سے سوالوں کے جواب دے دے گا اور ہم اس خطۂ بے آب و گیاہ کی اصلیت کے بارے میں بہت کچھ جان سکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں صبر کے ساتھ انتظار کرنا ہوگا۔