سُرخ تاریخ کا سنہرا باب

دنیا کی پہلی اشتراکی ریاست کے قیام میں عورتوں کا کردار۔


صالحہ اطہر December 17, 2017
سرمایہ داری نظام کی وجہ سے عورت مزدور کو کم زور ورکرز کے طور پر مانا جاتا تھا۔ فوٹو؛ فائل

KARACHI: انقلاب روس کی 100ویں سال گرہ دنیا بھر میں بہت زور شور سے منائی گئی ہے۔

سب کی کوشش رہی کہ اس وقت کے حالات ا ور واقعات پر روشنی ڈالی جائے، تاکہ دنیا کے سامنے انقلاب کی جدوجہد کو ظاہر کیا جائے اور یاد کیا جارہا ہے کہ روس میں انقلاب سے پہلے سیاسی و معاشی ا ور سماجی حالات کیا تھے؛ کس طرح کی تحریکیں وجود میں آئیں ا اور کن طبقوں نے انقلاب میں حصہ لیا۔ یہ بھی ذکر ہو رہا ہے کہ خاص طور پر مزدور، کسان، طلبہ، عورت ا ور دانشور بہت پیش پیش رہے جن کی جدوجہد اور انقلابی سوچ نے انقلاب کی راہ نکالی۔ تمام پہلوؤں کی تفصیل اجاگر کی جارہی ہے۔

اسی دوران عورتوں کا سوال بھی آیا۔ کیا عورتیں اس جدوجہد میں شامل رہیں ؟ اگر ہاں تو کس طرح؟

عورتیں دنیا بھر میں کم اجرت پر کام والی مانی جاتی ہیں۔ جہاں جہاں سرمایہ داری نظام ہے وہاں سب سے زیادہ عورت کم اجرت پر زیادہ اوقات میں زیادہ کام پر دستیاب ہوتی ہے۔ اسی طرح روس کی عورتیں بھی اسی نظام کا شکار تھیں اور وہاں کی عورتیں بھی گارمنٹ فیکٹریز میں کام کرتی تھیں۔ وہ اپنے مسائل سے نجات کے لیے مستقل جدوجہد کر رہی تھیں۔ ان عورتوں کے مطالبات تھے کہ:

* ان کی اجرت مرد مزدور کے برابر کی جائے ؛

* کام کے اوقات آٹھ گھنٹے کیے جائیں؛

* ہفتہ میں ایک دن چھٹی دی جائے؛

* زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے؛

* اجرت ضروریات کے مطابق رکھی جائے۔ کام کی جگہ محفوظ بنائی جائے۔

اور دیگر مطالبات بھی رکھے گئے تھے۔

فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتیں دنیا بھر میں جدوجہد کر رہی تھیں، جن میں امریکا کی عورتیں بھی پیش پیش تھیں۔ یہ مطالبات صرف روس کی عورتوں ہی کے نہیں تھے بلکہ دنیا بھر میں جہاں عورتیں مختلف فیکٹریوں میں کام کر رہی تھیں۔ وہ سب ان مسائل کا شکار تھیں، کیوںکہ یہ مطالبات دنیا بھر میں نہیں مانے جا رہے تھے اس لئے ہڑتالیں دنیا میں ہر جگہ جا ری تھیں۔ دنیا کے بیشتر شہروں میں مظاہرے ہورہے تھے۔ روس میں بھی مظاہرے ا ور ہڑتالیں جاری تھیں۔

ایک سو سال قبل 23 فروری 1917کو روس کے انقلاب کی حمایت میں پچاس ہزار عورتیں فیکٹریوں سے سڑکوں پر نکل آئیں اور زار کی حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ یہ دن عورتوں کا عالمی دن تھا جو دنیا میں پہلی دفعہ روس میں منایا جارہا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا انقلابی مظاہرہ تھا، جس میں روس کی ٹیکسٹائل ورکر عورتوں کی طرف سے زار کی حکومت کی طرف سے ہو نے والی زیادتیوں ا ور ناانصافیوں کے خلاف ہڑتال کی کال دی تھی۔ اس تحریک میں نہ صرف عورتیں بڑی تعداد میں تھیں بلکہ مرد مزدور ا ور تمام عوام شامل تھے۔

عورتیں بھی تبدیلی چاہتی تھیں کیوںکہ وہ معاشرے کا پسا ہوا طبقہ گردانی جاتی تھیں جن کے پاس تعلیم تھی نہ ہنر۔ صرف ایک مشین کا پرزہ بن کر رہ گئی تھیں۔ روسی عورت فرسودہ رسومات، پدرسری نظام کی آلہ کار بن گئی تھی، جسے کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ اگر فیکٹری میں کام کرتی تو کم اجرت پر جہاں اس کو زیادہ سے زیادہ کام کرنا پڑتا تھا۔ علاج معالجہ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی تھی۔ فرسودہ رسم و رواج کے تحت عورتوں پر پابندیاں عاید تھیں۔ باہر نکلنے پر پابندی تھی۔ ایک خاص قسم کے لباس کی پابندی تھی۔ یہ لباس عبایہ کی شکل کا ہوتا تھا، جو پورے جسم کو ڈھانپتا تھا، جس کے ساتھ سر ڈھانپنے کے لیے ٹوپی ہوتی تھی۔ کم عمری کی شادی کا رواج تھا۔ عورتیں ذہنی و جسمانی دباؤ کا شکار تھیں۔ عموماً مسائل وہی تھے جن سے جنوبی ایشیا اور دوسرے غیرترقی یافتہ ممالک کی عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔

مزدور عورتیں متحد ہوکر اس استحصالی نظام کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں، مگر ان کی آواز طاقت کے ذریعے دبا دی جاتی یا پھر ملازمتوں سے نکال دی جاتی تھیں، کیوںکہ ملک میں کوئی قانون نہیں تھا یا سیاسی نظام نہیں تھاکہ ان کو انصاف فراہم کرتا۔

سرمایہ داری نظام کی وجہ سے عورت مزدور کو کم زور ورکرز کے طور پر مانا جاتا تھا۔ عورتیں گاہے بگاہے اپنے ان مسائل کے لیے ہڑتال ا ور مظاہرے کرتی تھیں۔ ان ہڑتالوں میں صرف ورکرز عورتوں کے کام کے مسائل ہی نہیں تھے، بلکہ معاشرے میں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں ا ور فرسودہ رسم و رواج سے چھٹکارے کی بھی جدوجہد شامل تھی۔ لیکن یہ سب زار کی حکومت میں ناممکن تھا۔ اس کے لیے حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت تھی۔ کچھ انقلابی سوچ رکھنے والی عورتوں نے یہ بیڑا اٹھایا۔ جن کے نام یہ ہیں:

Alexandra Kollontai, Inessa Armand and Nadezhda Krupskaya

انہوں نے ورکرز عورتوں کو منظم کرنا شروع کیا، کیوںکہ وہ سمجھتی تھیں کہ جب تک عورت مرد کے ساتھ انقلاب کی جدوجہد میں شامل نہیں ہوتی، انقلاب نہیں آسکتا۔ اس کے لیے تربیتی مراکز قائم کئے گئے۔ شروع میں فیکٹری ورکرز کی کم تعداد شامل ہوئی۔ زیادہ تر صرف اپنے فیکٹری کے معاملات سے واقف تھیں، ان کو انقلاب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

ان عورتوں کے ساتھ زیادہ محنت سے کام کرنے کی ضرورت تھی۔ آہستہ آہستہ تربیت نے کام دکھایا۔ 20 عورتوں کے سرکل 1890 تک قائم ہو گئے۔ ان سرکلز میں جدوجہد کرنے اور آواز بلند کرنے کی تربیت دی گئی۔ اپنے ساتھ پیش آنے والے مسائل پر بھی بحث ہوتی تھی۔ ان سے نجات کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جاتا تھا۔ اس کا مقصد انقلاب کے لیے مزدور عورت کو تیار کرنا اور ساتھ ہی عورتوں کو ان پر ہونے والے تشدد کے بارے میں آگاہی دینا ہوتا تھا۔ ان تربیتی مراکز میں مظاہرے، ہڑتالیں منظم کرنے کی بھی تربیت دی جاتی تھی۔ ساتھ ساتھ انقلابی سوچ کو بھی اجاگر کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے عورتیں بالشویک پارٹی کی طرف جانے لگیں۔

اس طرح طبقاتی شعور بھی بڑھنے لگا اور مزدوروں کا احتجاج بڑے پیمانے پر ہونے لگا۔ ریلیاں نکلنے اور ہڑتالیں ہونے لگیں۔ اس کے نتیجے میں 1890میں مزدوروں کی ایک بڑی ہڑتال ہوئی جو دو ہفتے جاری رہی، لیکن پھر بھی عورتوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس ہڑتال کے بعد عورتوں نے اپنے آپ کو اس جدوجہد سے دور کرنا شروع کردیا تھا، کیوںکہ وہ مایوسی کا شکار ہوگئی تھیں۔ مزدور لیڈر دس سال تک ا ن عورتوں کو منظم کرتے رہے۔ تربیتی مراکز میں عورتوں کی تربیت کرتے رہے، تاکہ انقلاب کی جدوجہد میں وہ اپنا مثبت رول ادا کر سکیں۔ دیکھا جائے تو پھر بھی مرد مزدور کے مقابلے میں کم منظم تھیں۔

گوکہ فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد کا موازنہ مرد مزدور کے مقابلے میں کافی زبردست نظر آتا ہے۔ 1901 تک عورت مزدوروں کی تعداد 59 فی صد بڑھ گئی، جب کہ مرد مزدوروں کی تعداد میں 29 فی صد تک اضافہ ہوا۔ یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرمایہ دار ہمیشہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے عورت کو کم اجرت کا مزدور جان کر اس کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ جب عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں بھی بڑھ گئیں۔ ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

1905 میں زارروس کے خلاف مزدوروں کی ایک بہت بڑی تحریک شروع ہوئی جو پیٹرزبرگ سے شروع ہوکر سارے ملک میں پھیل گئی۔ سوویت یونین میں مزدوروں کی تحریک تھی جو بڑی منظم اور مضبوط تھی۔ کوشش یہی تھی کہ اس تحریک سے انقلاب کی راہ نکل آئے اور اس تحریک میں عورتوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ ان مظاہروں ا ور ہڑتال کی وجہ سے مزدوروں کی ورکرز سوویٹ کا قیام عمل میںآیا۔151مرد مزدوروں اور 25 ٹیکسٹائل عورت مزدوروں نے اس میں شرکت کی۔ اس میں کاٹن ویونگ فیکٹری کی مزدور عورتیں بھی شامل تھیں۔ اس ورکرز سوویٹ میں گروپ کے باضابطہ انتخابات عمل میں آئے جن میں 15ورکنگ نمائندے منتخب ہوئے، جن میں 8 عورتیں شامل تھیں۔ اس طرح بالشویک پارٹی میں عورتوں کی تعداد62 فی صد تک بڑھ گئی۔ تعلیمی سرکل میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

اس دوران بالشویک پارٹی ا ور feminist گروپ کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ مورخ Richard Stites کہتا ہے کہ فیمینزم کے پاس کوئی خاص جامع نظریات نہیں کہ کس طرح ورکرز عورتوں کے مسائل حل کریں اور حالات سے کس طرح چھٹکارا دلائیں۔ وہ صرف عورتوں کے ساتھ ہم دردی کرسکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مارکسزم کے پاس نظریاتی طور پر مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔

وہی مسائل کا حل نکال سکتا ہے اور بالشویک پارٹی اپنے ٹھوس نظریات اور سیاسی عمل سے عورتوں کو ان کے مسائل سے نجات دلاسکتی ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ فیمینسٹ گروپ میں اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں شامل ہیں، جو مزدور عورتوں کے مسائل کی گہرائی تک نہیں جاسکتیں۔ وہ صرف ہم دردی کر سکتی ہیں، لیکن ہمارا یعنی بالشویک پارٹی کا ان عورتوں کے ساتھ ویسا ہی تعلق رہے گا جس طرح دوسری عورتوں کی انجمنوں کے ساتھ ہے۔

دوسری طرف انٹرنیشنل کمیونسٹ موومنٹ نے بھی عورتوں کے مسائل پر گہری نظر رکھی اور توجہ دی۔

اسی نکتے پر Rosa Luxemburg نے سوشل ڈیموکریسی کے پلیٹ فارم سے عورتوں کے حق رائے دہی کا مسئلہ اٹھایا۔ یہ ایک اہم مسئلہ تھا، کیوںکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ عورتیں کم زور ہوتی ہیں۔ پرانے خیالات کو اہمیت دیتی ہیں۔ مذہب سے لگاؤ ہوتا ہے ا ور یہ اپنا ووٹ دائیں بازو ہی کو ڈالیں گی۔ Clara Zetkin جو جرمن سوشلسٹ لیڈر تھیں، انھوں نے اس بات کی حمایت کی کہ عورتوں کو حق رائے دہی سے محروم نہ کیا جائے اور کہا کہ عورتوں کو ان کے مسائل سے چھٹکارا دلایا جائے، جس کی ولادیمیر لینن نے بھی حمایت کی اور کہا کہ مرد اور عورت کے درمیان ہر سطح پر مساوات قائم ہونی چاہیے۔

1903 میں دوسری انٹرنیشنل کانگریس منعقد ہوئی، جس میں لینن نے عورتوں کے حق کے لیے یہ مطالبات رکھے:

* عورتوں کے حقوق اور انہیں مسائل سے چھٹکارا دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر تحریکیں چلائی جائیں۔

* فیکٹری کے ماحول کو محفوظ بنایا جائے۔

* اجرت مرد مزدور کے برابر کی جائے۔

* زچگی کی چھٹیاں مقرر کی جائیں۔

* ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی ہونی چاہیے۔

* فیکٹریز میں ایک انسٹرکٹر مقرر کریں جس کو کام کے مطابق تنخواہ دی جائے۔ وہ فیکٹری کے اندر ماحول بہتر رکھنے کی کوشش کرے اور جنسی زیادتی و ہراساں کرنے کے واقعات پر نظر رکھے۔ کام کے اوقات کی پابندی کروائے۔

عورتوں کے مسائل پر لینن کی بیوی Nadezhda Krupskaya نے ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں فیکٹری ورکرز اور کسان عورتوں کے حقوق کے بارے بتایا۔

Krupskaya ایک انقلابی مارکسسٹ تھیں اور انقلابی جدوجہد میں پیش پیش تھیں۔ ہر مظاہرے ا ور ہڑتال میں بھی شامل ہوتی تھیں۔ وہ سینٹرل کمیٹی آف رشین سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سیکریٹری بھی رہیں۔ پارٹی کی طرف سے جو جرنل نکلتا تھا اسے بھی ایڈٹ کرتی تھیں۔ انھوں نے عورتوں کے حقوق کی لڑائی اور جدوجہد پر بہت سارے مضامین لکھے۔ ان کے ساتھ دیگر سوشلسٹ عورتیں بھی شامل ہوگئیں۔ اس کی وجہ سے فیکٹری ورکر اور کسان عورتیں منظم ہونے لگیں۔ اسی دوران ان کی ملاقات ولادیمر لینن سے ہوئی جن کی وہ بعد میں زندگی کی ساتھی بن گئیں۔

عورتوں میں مینشویک پارٹی کی طرف رحجان کم ہوتا جارہا تھا، کیوںکہ انہوں نے محسوس کیا کہ اپنے مسائل کی جدوجہد میں بالشویک پارٹی ہی ساتھ دے سکتی ہے۔ اس کے پاس منظم ا ور جامع پروگرام ہے۔ 1907میں پارٹی کی لیڈر شپ میں عورتوں کی تعداد میں 20 فی صد اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے شہر بھر میں عورتوں کے مراکز قائم ہوگئے۔ جہاں عورتوں کو جنگ کے خلاف تیار کرنے پر زور دیا جاتا تھا، بلکہ بالشویک پارٹی نے عورتوں کی انقلابی جدوجہد کا ایک گروپ تشکیل دیا جو زیرزمین کام کرتا تھا۔

جس کی نگران Rosalina Zemlyachka and Elena Stasova تھیں جو ماسکو اور پیٹرس برگ میں کام کرتی تھیں۔ عورتوں میں انقلابی کام کی معلومات کو بڑھانے کے لیے انقلابی میگزین Inessa Armand نے نکالا، جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس میگزین میں غریب اور ملازمت پیشہ عورتوں کے بارے میں مضامین ہوتے تھے۔ انھوں نے اس میگزین کے ذریعے پارٹی کے لیے بھرپورکام کیا۔ اس میگزین کا نام تھا "Rabotniska"۔ مورخین کا کہنا ہے کہ اس میگزین کی وجہ سے عورتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ سوشلزم کی جدوجہد میں ا ور تحریک بنیں انقلاب کو رونما کرنے میں۔ عورتوں کی اسی تحریک نے ٹریڈ یونین کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔

روسی انقلاب 1917کے فوراً بعد جو لوگوں کا نعرہ تھا امن، روٹی، ا ور زمین تھا انھوں نے بالشویک پارٹی سے مطالبہ کیا کہ نکولس ا ور روس کی حکومت کے خاتمہ کا اعلان ہو۔ بورژاواری صوبائی حکومتوں کا خاتمہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں مظاہرے جلوس پورے ملک میں ہورہے تھے جس میں خواتین ورکرز بھی جوش خروش سے حصہ لے رہی تھیں۔ عوامی اجلاس میں بھی شرکت کر رہی تھیں۔ کتابچے بھی تقسیم کر رہی تھیں۔ ہتھیاروں کی نقل حمل میں بھی شامل تھیں، زخمیوں کی دیکھ بھال بھی کر رہی تھیں۔ میگزین بھی شائع کیے گئے، تاکہ عوام تک انقلاب کی خبریں صحیح پہنچ سکیں اور وہ انقلابی سرگرمیوں سے آگاہ رہیں۔

دیکھا یہ گیا تھا کہ زار کے دور میں عنان حکومت چلانے میں چرچ کا بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ اس لیے انقلاب کے بعد فوراً مذہب کو ریاستی امور سے الگ کر دیا تھا۔

بالشویک پارٹی نے اقتدار لینے کے چار دن بعد فوراً مرد عورت کے درمیان مساوات کو یقینی بنایا۔ عورتوں کو سیاست میں حصہ لینے کے امکانات کو اہمیت دی گئی۔

کام کے اوقات 8گھنٹے مقرر کیے گئے۔ عورتوں پر رائج تمام پابندیاں ختم کردی گئیں۔ زمین کی ملکیت میں مردوں کے برابر کا حق منظور کیا گیا۔ عورتوں کی معاشرتی زندگی میں نمایاں تبدیلیاں لائی گئیں۔ طے کیا گیا کہ شادی عورت مرد کی باہمی رضامندی سے ہوگی۔ طلاق بھی باہمی رضامندی سے طے کرنے کا قانون بنایا۔ اسقاط حمل کی بھی اجازت دی گئی۔ زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹی منظور کی گئی۔

ہسپتالوں میں زچگی وارڈ قائم کیے گئے۔ تمام بچوں کو یکساں علاج کی سہولت مہیا کی۔ تعلیم کو عام کیا گیا، جس کے لئے پورے ملک میں ہر ضلع شہر میں اسکول کھولے گئے۔ عورت مزدور کے بچوں کے دیکھ بھال کے لیے بچوں کی نگہداشت کے مراکز قائم کیے گئے۔ عورتوں کی تربیت کے مراکز بھی بنائے گئے۔ عورتوں پر گھر کی ذمہ داری کم کرنے کے لیے عوامی کچن شروع کیے گئے۔

ان عورتوں کو جو سوشلزم سے ناواقف تھیں، لیکن سیاست میں آنا چاہتی تھیں۔ ا ن کو اپنے پروگرام میں شامل کیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ عورتیں سوشلزم میں شامل ہوجائیں۔ اس طرح پہلی سوویٹ یونین کی سفیر Kollontai کو بنایا گیا۔

انقلاب کے بعد ملک میں عوام و مزدور کی ترقی کے لیے بہت سارے اقدامات کیے گئے۔ تمام پرانے قوانین کو ختم کردیا گیا۔ تمام عمارتوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہوچکا تھا۔ بہت ساری عمارتوں میں عورتوں کے لیے فلاحی مراکز بنا دیے گئے تھے۔ حکومتی کام کے سیکریٹریٹ بھی بنائے گئے، جن میں عورتوں کا شعبہ بنادیا گیا۔

تبدیلی کا عمل اس وقت ہی ممکن ہوتا ہے جب معاشرے میں ا ور ملک میں ایسی عوامی پالیسیاں نافذ کی جائیں جہاں جبر نہ ہو، استحصالی نظام نہ ہو، ضرورت کے مطابق اجرت مقرر ہو، کام کے اوقات مقرر ہوں، صحت و تعلیم کا انتظام حکومت کی ذمہ داری ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں