عہدِ جدید اور ادب کے زوال کا مسئلہ

عہدِ جدید کی عمل پسند زندگی میں ادب کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔

آج خوشی دراصل ایک خوش وقتی قسم کی شے ہو کر رہ گئی ہے اور خوش حالی ایک مصنوعی عمل۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
ہمارے یہاں اب کتابیں اور خصوصاً ادب پڑھنے کا رُجحان تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ہمارا ادب اصل میں زوال آمادہ ہے۔ ادب سے اب لوگوں کو بالکل دل چسپی نہیں رہی۔ علم و ادب کی باتیں اب تو قصۂ پارینہ ہوچکی ہیں۔ ترقی کے ذرائع اور تبدیلی کی رفتار نے ادب کو ازکار رفتہ شے بنا کر رکھ دیا ہے۔ ماننا چاہیے کہ ہمارا ادب زمانے کے تغیرات کا ساتھ دینے سے قاصر رہا ہے۔

عہدِ جدید کی عمل پسند زندگی میں ادب کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ یہ اور ایسی ہی دوسری بہت سی باتیں آئے دن آپ کے اور ہمارے کان میں پڑتی رہتی ہیں۔ یہ سب باتیں خواہ کتنے ہی مختلف لہجوں میں کہی گئی ہوں اور ان کے چاہے کتنے ہی متنوع محرکات ہوں، مگر ان سب کا بالکلیہ مفہوم ایک ہی سامنے آتا ہے، یہ کہ ادب پر زوال آچکا ہے، یعنی معاشرے کو آج ادب کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس قسم کے بیانات انھی لوگوں کی طرف سے خاصے اور خود اہلِ ادب اور بالخصوص ان لوگوں کی طرف سے بہت زیادہ آنے لگے ہیں جنھوں نے عمر بھر ادب کا کام کیا ہے، اسی سے نام کمایا اور بہت کچھ پایا ہے۔ چناںچہ ہم اس طرح کے بیانات سے اتفاق کریں یا اختلاف، مگر اتنی بات بالکل واضح ہے کہ اب یہ مسئلہ ہے بہرحال غور طلب، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کے بارے میں ایک بار ٹھنڈے دل سے غور کریں اور کسی فیصلہ کن مرحلے تک آئیں تاکہ یہ روز روز کی جھک جھک ختم ہو۔

دیکھا جائے تو ادب کے زوال کا یہ مسئلہ ہمارے یہاں نیا نہیں ہے، بلکہ گزشتہ کم و بیش چھے سات دہائیوں میں یہ سوال متعدد بار اٹھایا جاچکا ہے۔ اردو تنقید و ادب کے کتنے ہی دوسرے اہم اور فکرانگیز سوالوں کی طرح یہ سوال بھی سب سے پہلے اب سے ساٹھ پینسٹھ برس قبل محمد حسن عسکری نے اٹھایا تھا- اور اس شدت سے اٹھایا تھا کہ اس کی گونج اب تک اردو ادب کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ عسکری صاحب نے اردو ادب کی موت کا اعلان کردیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہمارا اجتماعی شعور ادب کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بلکہ شاید اس سے ڈرتا ہے۔ انھوں نے اگر ایک طرف سماج کی ادب سے بے نیازی کے اس رویے کو محسوس کیا تھا تو دوسری طرف ان کے نزدیک اس کا ایک اہم تر سبب یہ بھی تھا کہ ادیب اپنی تخلیقی صلاحیت سے صحیح معنوں میں کام نہیں لے رہے تھے اور ان کے لیے ادب زندگی کے مطالبات کا سامنا کرنے کا نہیں بلکہ اُن سے بچنے، بھاگنے اور انھیں اپنے شعور میں نہ آنے دینے کا ایک حربہ بن گیا تھا۔

یار لوگ عسکری صاحب کے فقروں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر لے اُڑے اور اُس مقصد، اُس روح اور اُس جذبے کو فراموش کردیا جو دراصل اُن کے اس بیان کا محرک تھا، حالاںکہ عسکری صاحب نے صاف صاف لکھا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں اردو ادب کی موت کا اعلان کرکے بے چارے اردو کے ادیبوں سے زندگی کا آخری سہارا بھی چھینے لے رہا ہوں، لیکن میں تو اس امکان پر غور کر رہا ہوں کہ اردو ادب دوبارہ زندہ بھی ہوسکتا ہے یا نہیں۔ انھوں نے یہ بات ڈھکے چھپے انداز میں نہیں، بلکہ کھلے بندوں کہی تھی کہ اگر موجودہ ادیبوں کو قربان کردینے سے ادب میں پھر جان آجائے تو یہ سودا گھاٹے کا نہیں رہے گا-

یعنی مسئلہ ادب کی موت پر ماتم داری کا نہیں تھا اُن کے نزدیک، بلکہ سوال ادب کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکنے کا تھا۔ لہٰذا جاننے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سوال اصل میں مرنے کی نہیں بلکہ پھر سے جی اٹھنے کی خواہش کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ خیر، ایک عسکری صاحب کیا، کرنے والوں نے تو کلامِ الٰہی تک کے ساتھ یہ کیا کہ کسی نکتے کو اُس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے مطلب کے معانی و مفاہیم اخذ کیے اور پھر انھی کا خوب خوب چرچا کیا۔ ظاہر ہے، ایسی صورتِ حال پیدا کرنے والوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کی کوششوں کو اُن کی اصل روح سے الگ کرکے کچھ اور مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ بہرحال، یہ ایک الگ بحث طلب موضوعِ گفتگو ہے، سو آیئے اپنے مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔

بعد ازاں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے ہاتھ یہ مشغلہ خوب آیا کہ جب جس کے جی میں آئی، اٹھا اور لگا ادب کے زوال کا نعرہ لگانے۔ یوں تو من حیث الکل ادب کے زوال کا مسئلہ بھی موضوعِ گفتگو بنا، لیکن غزل اور افسانے پر تو خوب ہی نزلہ گرا۔ کسی نے غزل کو نیم وحشی صنفِ سخن کہا تو کسی نے اپنے تئیں افسانے کے مردے کی تدفین کے فرضِ کفایہ کو فرضِ عین گردانا۔ غزل کے پامال صنفِ سخن ہونے کا ایسا چرچا کیا گیا کہ اس پر پابندی عائد کیے جانے کے مطالبات تک سامنے آئے۔

اُدھر افسانے کی لایعنیت، فحاشی اور بے سمتی کا تأثر ایسا عام ہوا کہ جسے دیکھیے یہی رونا روتا نظر آیا۔ غرضے کہ وہ دونوں اصناف جن کی بابت نہایت ذمے داری سے کہا جاتا تھا کہ ان میں اردو زبان کی تاب و تواں، اس کی تہذیب کی روح اور اس کے سماجی احساسات کی خفیف ترین لرزشوں کا ریکارڈ مرتب و مدوّن ہوا ہے، انھی کی نسبت سے اس خیال نے سب سے بڑھ کر فروغ پایا کہ ادب انحطاط، جمود اور زوال کی راہ پر ہے۔اس خیال کو پھیلانے میں ان لوگوں نے جنھیں ادب سے برائے نام بھی سروکار نہیں تھا، اور ان لوگوں نے بھی کہ ادب جن کے لیے اوڑھنا بچھونا تھا۔ یکساں طور پر بھرپور کردار ادا کیا۔ اب یہ بات الگ ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ کام نادانستگی میں کیا ہو، لیکن وہ اس خیال کے پھیلانے میں بہرحال شریک ہوئے۔

یوں تو کسی تہذیب اور اُس کے ادب میں کسی سوال کے رہ رہ کر اٹھائے جانے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تہذیب ہی نہیں، بلکہ اُس کا ادب بھی اپنے عہد کے زندہ حوالوں سے بار بار رُجوع کرنے کی سکت رکھتا ہے اور تغیراتِ زمانہ کے تناظر میں پیدا ہونے والے سوالوں سے اغماض نہیں برتتا، بلکہ ان کے رُو بہ رُو رہنا چاہتا ہے۔ تاہم کسی سوال کا یہ مفہوم تو اس وقت ہوسکتا ہے جب اُس سوال کے عقب سے پہلے ہی سے اخذ کردہ مایوسی نہ جھانکتی ہو، بلکہ پوچھنے والا احوالِ تازہ کی جستجو اور نئی آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کی آرزو رکھتا ہو۔


چناںچہ یہاں پل بھر کر رُک کر ہمیں اپنے ادب کی بابت اٹھائے گئے، اس سوال کو دیکھنا چاہیے، آیا وہ فی الحقیقت اپنے تازہ احوال کی جستجو اور وقت کی نئی آزمائشوں کا سامنا کرنے کی آرزو کا حاصل ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بااستثنائے چند از چند-کرنے والوں نے جب بھی کیا ہے ادب کے زوال کا تذکرہ تو اُس کے پس منظر میں مایوسی پہلے سے موجود تھی۔ یہ الگ تفتیش کا موضوع ہے کہ یہ مایوسی کس حد تک ایک طرز کی ذاتی حیثیت میں تھی اور کتنی اجتماعی حالات کی پیدا کردہ تھی۔

تاہم اگر واقعتا ہم اپنے ضمیر کے سامنے پوری ذمے داری کے ساتھ بہ یک جنبشِ لب اس سوال کا جواب مایوسی اور بددلی کے حق میں دے سکتے ہیں تو پھر کسی تأمل سے کام لیے بغیرہمیں اس مرحلے سے گزر جانا چاہیے تاکہ روز روز ادب کا مردہ ڈھونے کی نامرادی اور بے وجہ کی مشقت سے نجات ملے۔ اب مسئلہ لیکن یہ ہے کہ جب ہم ذرا تحمل سے غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ماجرا اصل میں یہی تو ہے کہ یہ سوال اتنا غیراہم اور سادہ نہیں کہ پل کی پل میں ہمیں اس کا آسان اور تشفی بخش جواب دو جمع دو حاصل چار کی صورت مل جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی زندہ سماج میں ادب کے زوال سے مراد ہے پورے ایک نظامِ حیات کا زوال- پوری ایک تہذیب، اُس کے پیدا کردہ طرزِاحساس اور انسانی اعمال اور تعلقات کی صورت میں ظاہر ہونے والے ذہنی و قلبی اور عقلی و فکری رُجحانات کا زوال۔ چناںچہ ادب کے زوال پر حتمی اور فیصلہ کن انداز میں بات کرنے اور اس کے انحطاط کا نقشہ مرتب کرنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ہم ایک بار اتنا ضرور جان لیں کہ آج ہمارے یہاں اس مسئلے کو کس انداز سے دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے اور زوال کے جو معانی لیے گئے ہیں وہ خود آج کے ادب سے واقعی ماخوذ بھی ہیں کہ نہیں- کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی ذہنی رَو میں سوال کرنے والوں نے اپنا ذاتی انقباض اٹھا کر معاصر ادب پر منطبق کردیا ہو جب کہ ادب کی داخلی شہادتیں کچھ اور منظر ترتیب دیتی ہوں۔ اس صورتِ حال پر غور کرنے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ہم پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آج کی انسانی کیفیات اور نئے زمانے کے حالات میں ترقی سے کیا معنی لیے جاتے ہیں۔ اس طریقِ کار کے اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اشیا اپنے اضداد سے بھی پہچانی جاتی ہیں، کے مصداق یوں ہم اس عہد میں زوال کے تصور سے خود بہ خود واقف ہوجائیں گے۔

عصرِحاضر کو تغیر و ترقی کا عہد کہا جاتا ہے۔ جہاں تک انسانی زندگی میں تصور و امکان کے actualize ہونے اور خیال و خواب کے افعال و اعمال میں ظاہر ہونے کی بات ہے تو اس نسبت سے عہدِجدید کو ماسبق تمام تاریخی ادوار پر ناقابلِ تردید برتری حاصل ہے۔ تغیر و تبدل نے انسان کے خیال کو جس درجہ ہمارے اس زمانۂ حال میں بدلا ہے، اُس کا تو اگلے وقتوں میں تصور تک محال تھا۔ بے شک تبدیلی کا یہ رُخ اور اُس ناقابلِ یقین رفتار کے ساتھ نہایت تحیر خیز ہے- لیکن کیا تغیر کے اس سارے نقشے کو ترقی کا نقشہ قرار دیا جاسکتا ہے؟

اس سوال پر ہمیں زیادہ سوچنے اور رُکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور ہم ذرا سے غور کے بعد اس کا جواب بہت سہولت سے نفی میں دے سکتے ہیں۔ آج کے انسان کی زندگی میں اشیا کی فراہمی اور مادّی آسائشوں کی جو ارزانی ہے، اُس سے تو بے شک انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عہدِجدید نے انسان کو بہت کچھ عطا کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیکھنے کی ایک بات اور بھی ہے، وہ یہ کہ ان سب اشیا اور آسائشوں کو حاصل کرکے انسان کی تسکین کا سامان کتنا ہوا ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ اس نے یہ سب کچھ حاصل کس قیمت پر کیا ہے؟

اس سوال پر ہمیں غور کی ضرورت اس لیے یپش آتی ہے کہ ہم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ انسان محض ایک وجودی حقیقت نہیں ہے، بلکہ روحانی حقیقت بھی ہے۔ اُسے دل و دماغ بھی ودیعت کیے گئے ہیں۔ انسانی زندگی کا تجربہ صرف جسمانی مطالبات کی تکمیل پر منحصر نہیں ہوتا۔ اس کے کچھ تقاضے روحانی بھی ہوتے ہیں۔ صوفیہ انسانی فکر و احساس کو انفس و آفاق کے دائروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک انفس کو آفاق پر تفوق حاصل ہے، یعنی یہ کہ روح کا جسم پر تقدم ہے۔ یہ درجہ بندی ہمیشہ سے ہے اور اُن تمام تہذیبوں اور معاشروں میں قائم رہی جو انسان کو اکائی سمجھتے تھے اور اس اکائی کو کائنات اور خدا کے رشتے کے تناظر میں دیکھتے اور سمجھتے تھے۔ جدید عہد نے اس تناظر کو بدل ڈالا۔ اب انسان خود سب سے بڑی سچائی قرار پایا اور وہ بھی صرف اپنے ظاہر یا خارج میں، یعنی اپنی مادّی یا وجودی حیثیت میں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ اس عہد نے انسان کو جو کچھ فراہم کیا، وہ اس کی مادّی یا وجودی ضرورتوں اور سہولتوں کے زُمرے میں۔

چناںچہ اس عہد کے انسان کی ساری ترقی دراصل اُس کے خارج یا ظاہر کو بدلنے یا پُرتعیش بنانے سے متعلق ہے۔ عہدِ جدید کے انسان نے جو کچھ حاصل کیا، وہ ایک قیمت چکا کر حاصل کیا اور یہ قیمت تھی اپنی روح کی نفی۔ تاہم اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ عہدِ جدید کے انسان کو وجودی اور خارجی زندگی کے لیے تمام تر آسائشیں بہم پہنچنے کے باوجود اُس کی زندگی سکون و ثبات سے ہم کنار نہیں ہو پاتی۔ وہ مادّی اشیا میں ہمہ وقت مشغولیت کے باوجود یقین و اطمینان کے احساس سے عاری رہتا ہے۔ چوںکہ انسانی فطرت کی بنیاد جوہرِ خیر پر ہے، جسے عہدِ جدید کسی نہ کسی صورت نابود کرنے کی کوشش میں ہے اور آج کے انسان کو اسی فطری جوہر سے دُور کر رہا ہے، سو اپنی اصل سے ہٹ جانے کا احساس آج کے انسان کو غیرشعوری طور پر ہی سہی مگر مضطرب رکھتا ہے، ادھورے پن کی مستقل کیفیت اُسے چین نہیں آنے دیتی۔

گائے ایٹن نے اپنی کتاب King of the Castle میں یہ فکرانگیز سوال اٹھایا ہے کہ ایک ایسے دور میں کہ جب کتنی ہی ذمے داریاں فرد کے کاندھوں سے ریاست کو منتقل ہوچکی ہیں، کیا یہ زمانہ بھی انسان کے اضطراب اور عدم تحفظ کا دور ہوسکتا ہے؟ اسی نکتے پر گفتگو کے تسلسل میں گائے ایٹن نے آگے چل کر ایک تمثیل سے اپنی بات کو واضح کیا ہے، یہ کہ جب ہم سفر کرتے ہوئے رفتار کی ایک حد سے زیادہ تیز ہوجاتے ہیں تو ہمارے ساتھ بھاگتے دوڑتے منظر دُھندلانے لگتے ہیں، آپس میں مدغم ہوجاتے ہیں۔ گائے ایٹن کے بقول ہم ایک ایسے ہی دور میں جی رہے ہیں۔ آج زندگی میں مادّی آسائشوں کے حصول کی ایک دوڑ چل رہی ہے، اندھی دوڑ۔ لہٰذا اس عہد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یقین اور بے یقینی کی سرحدیں آپس میں مل گئی ہیں، تحلیل ہوگئی ہیں۔ مناظر آپس میں مدغم ہورہے ہیں۔ مادّے اور روح کی حد کا فرق نظروں سے اوجھل ہورہا ہے۔ اس وجہ سے احساس کے دائرے بدل رہے ہیں یا ایک دوسرے میں داخل ہورہے ہیں۔

مغرب نے جہاں ایک طرف اوسوالڈ اشپنگلر اور ایلون ٹوفلر جیسے لوگ پیدا کیے ہیں جو اس کے تہذیبی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی نظام میں پڑتی دراڑوں کو دیکھتے ہیں تو دوسری طرف وہاں رینے گینوں اور اُن کی فکر سے متأثر ہونے والے اہلِ دانش بھی ہیں جو اس تہذیب کے انسان کے روحانی المیے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ Looking Back on Progress کے مصنف لارڈ نارتھ بورن کا خیال ہے کہ عہدِ جدید میں رونما ہونے والی تبدیلی کے ساتھ لازمی طور پر خوشی اور خوش حالی کا تصور وابستہ کر لیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر اسے ترقی سمجھا جا رہا ہے۔

حقیقت جب کہ اس کے برعکس ہے۔ اس لیے کہ آج خوشی دراصل ایک خوش وقتی قسم کی شے ہو کر رہ گئی ہے اور خوش حالی ایک مصنوعی عمل۔ فی الجملہ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ خوشی اگر کسی اخلاقی قدر اور سماجی ضابطے سے مربوط یا منسوب نہیں ہے تو وہ لمحاتی نوعیت کی حامل ہوگی، اسی طرح کسی فرد کی خوش حالی اگر اُس کے معاشرتی نظام سے ہم آہنگ نہیں ہے تو ایک ایسی غیرحقیقی چیز ہے۔ جو کسی نہ کسی سطح پر بگاڑ یا فساد کا سبب بنے گی۔ لہٰذا ہم عہدِجدید کے سماجی اسٹرکچر میں فرد اور معاشرے کی باہمی صورت کو دیکھ کر باآسانی جان سکتے ہیں کہ اب اس تعلق میں قدری پہلو باقی نہیں رہا ہے۔

اسی کیفیت کو دیکھتے ہوئے نارتھ بورن کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ روز بہ روز ہماری فوری توجہ کا زیادہ سے زیادہ متقاضی ہوتا جا رہا ہے کہ ہم عہدِ جدید میں ترقی کی آئیڈیالوجی سے پیدا ہونے والے سوالوں کا سامنا کرنے کو تیار ہوں اور یہ دیکھیں کہ یہ ترقی اپنی نہاد میں اصلاً ہے کیا۔
Load Next Story