بٹی ہوئی عورت

خواتین اپنی تمام تر بھرپور ظاہری نسوانی شکل وصورت وخصوصیات کے باوجود مردانہ اور زنانہ نفسیاتی ساخت میں بٹ جاتی ہیں۔

مشرق ہو یا مغرب، خوب صورت اور ذہین عورت کو عام طور پر مرد کِسی رنگ کِسی حیثیت میں قبول نہیں کرپاتے۔ فوٹو : فائل

ایک زمانہ پہلے Will Durrant کی دو کتابوں کی ورق گردانی کا موقع مِلا تھا۔ زمانہ طالِب علمی کا تھا۔ اور ہر طرح کی کتاب کی چیر پھاڑ کے کھا پی جانے کو دِل کرتا تھا۔ Story of Philosphy اور Pleasures of Philosphy بھی اُنہی دِنوں ہاتھ لگی تھیں۔

1984 کے بعد کے کراچی اور کراچی کے سیاسی حالات و واقعات نے جہاں پورے مُلک کو اپنی گِرفت میں لینا شروع کریا تھا۔ وہاں کالجز اور یونیورسٹیز کا تعلیمی ماحول بھی بُری طرح متاثر ہونے لگا تھا۔ ہمارے Batch کو بھی دو اضافی سال گزارنے پڑے تھے۔ ڈگری کے حصول کے لیے۔ یہ شاید اپنی طرز کا پہلا واقعہ تھا کہ سالانہ امتحانوں میں فیل ہوئے بِنا، محض ہر سال امتحانات کے Delay کی وجہ سے ہزاروں طلباء طالبات کی زندگی کے دو قیمتی سال، بغیر کِسی Genuine وجہ کے ضائع ہوئے تھے۔

اوروں کا تو مجھے نہیں پتا، لیکن قدرتی طور پر پیدا کردہ حالات کی وجہ سے مجھے کتابوں کے سفر کے دو اضافی سال ضرور مِل گئے تھے۔ سپلی سے بچنے کے لیے امتحان سے دو چار ماہ پہلے منتخب Chapters اور چوپڑیاں اچھی طرح پڑھنے اور رٹنے سے تھیوری اور Viva ایک ہی Attempt میں نکل جاتے اور باقی کے تمام دِن دوستوں، کتابوں اور نثری شاعری کی نذر کردیے جاتے۔

ذہنی فراغت کے اُن دِنوں میں جب اسٹوری آف فلاسفی پڑھنے کا اتفاق ہوا اور دُنیا کے چیدہ چیدہ فلاسفرز کے حالات و نظریات زندگی پڑھے تو Logic ، Logical اور Logician کے فرق کو تلاشتے ہوئے کئی دوستوں سے کئی مہینوں تک گفتگو رہی۔ اُس زمانے میں گوگل بابا تو تھے نہیں جو سیکنڈ میں ہر سوال ہر بات کی تشریح و تفسیر کرسکیں۔ ایک کتاب سے پیدا ہونے والے سوالات کے جواب کے لیے اور کئی کتابیں ڈھونڈنی اور پڑھنی پڑتی تھیں یا پڑھے لِکھے عالم فاضل دوستوں کی محفل میں ہاتھ باندھ کے، نظریں جُھکا کے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا تھا۔

بہت سے سوالوں کے جواب مِل جاتے تھے۔ بہت سے سوالوں کے جواب کئی سالوں کے بعد مِل گئے۔ بہت سی باتوں کی پرتوں پر سے آہستہ آہستہ پردہ اُٹھ رہا ہے۔ لیکن اُس زمانے کی بہت سی باتیں ، بہت سے سوال ایسے بھی ہیں جو ابھی تک مناسب اور تشفّی بخش جوابات سے بہت دور دِکھائی دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بات اسٹوری آف فلاسفی سے مِلی تھی۔ جو 30 سال بعد بھی کِسی واضح منطقی جواب سے محروم ہے۔ حسبِ عادت فلاسفر کا نام میں بھول چُکا ہوں کہ شروع سے Focus کام کی باتوں پر رہا ہے۔ کون کہہ رہا ہے۔ اِس پر کم ہی توجہ جاتی ہے۔ گذشتہ کچھ دِنوں سے یہ بات پھر اُبھر کر سوچ کے اسکرین پر آئی ہے تو آپ سے سب بھی Share کرنے کو دِل چاہ رہا ہے۔ کیوںکہ آپ سب، ہم سب سے، زیادہ ذہین ، زیادہ سمجھ دار، زیادہ منطقی اور زیادہ عِلم والے ہیں اور گوگل بابا سے زیادہ قربت رکھتے ہیں۔

بات بظاہر بہت سادہ سی ہے۔ ''کائنات جب اپنے اختتامی سفر پر ہوگی تو اِنسان تمام علوم پر مکمل دسترس حاصل کرچکا ہوگا۔ ما سوائے ایک عِلم کے 'علمِ فلسفہ' اور علمِ فلسفہ میں بھی اُسے تقریباً مکمل Command حاصل ہوچکی ہوگی۔ ماسوائے ایک مضمون و موضوع کے۔ علمِ نفسیات۔ اور نفسیات کی بھی وہ لگ بھگ تمام گتھیاں سُلجھا چُکا ہوگا ماسوائے ایک Subject کے۔ 'عورت اور عورت کی نفسیات ۔' اور اِس موضوع کو کلی طور پر جانے سمجھے بِنا ہی انسان کا سفر ختم ہوجائے گا۔''

اِس ضِمن میں انٹرنیٹ کی الف لیلہ کے جِن اور جادوگر کیا کہتے ہیں، کیا بتلاتے ہیں۔ یہ اب آپ کو پوچھنا اور ڈھونڈنا ہے۔ وہ بھی اُس صورت میں اگر آپ کو عورت اور عورت کی نفسیات سے کچھ دل چسپی ہو۔ بہ صورت دیگر کوئی ضرورت نہیں وقت ضائع کرنے کی۔ یہ اور بات ہے کہ مجھ سمیت آپ کو، ہم سب کو زندگی کے ہر دور میں کِسی نہ کِسی شکل میں عورت کی ضرورت پڑی ہے اور پڑتی رہتی ہے۔ خواہ آپ مرد ہوں یا عورت، عورت کے وجود کے بِنا کوئی بھی اِس دنیا میں نہ آسکتا ہے۔ نہ رہ سکتا ہے۔

ایک سوال یہ بھی پیدا کیا جاسکتا ہے کہ آخر ضرورت کیا ہے عورت کی نفسیات کو سمجھنے یا سمجھانے کی۔ ایک حد تک بات یہ بھی درست ہے۔ لیکن اگر اِس بات کو عملاً اختیار کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ پھر تو مرد ہو یا عورت، بچہّ ہو یا بوڑھا، کِسی کی بھی نفسیات کو جاننے، جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت نہیں، جو ہورہا ہے، جیسا ہورہا ہے، اُسے ہونے دیا جائے۔ اگر اِس فلسفے پر عمل کرلیا جاتا تو آج سوا سو سالوں میں علمِ نفسیات میں جو تحقیق و ترقی ہوئی ہے، وہ نہ ہوتی۔ اور آج بھی ذہنی مریضوں کو جادو ٹونے اور چڑیلوں اور جنّات کے زیرِاثر کہہ کر زندہ جلایا جارہا ہوتا اور پہاڑوں پر سے سمندر میں پھینکا جارہا ہوتا۔

اندھیرا، روشنی کی ضِد ہے۔ نارمل کو جانے اور سمجھے بِنا ہم ابنارمل کی نہ وجوہات جان سکتے ہیں، نہ اُن وجوہات کو جان کر اُن کو دور کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ انسانی ارتقاء نے اندھیرے اور روشنی کے فرق کو سمجھا تو اندھیرے میں روشنی پیدا کرنے کے ذرائع دریافت ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں اور احسن طریقے سامنے آتے گئے۔


مرد کی عمومی نفسیات دن کی روشنی اور رات کے اندھیرے کی طرح نہایت سادہ اور دو رُخی ہوتی ہے۔ بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہے۔ عورت کی نفسیات میں فطرتاً ان گنت رنگ اور Shades ہوتے ہیں۔ جو ہمہ وقت جھِلمل جِھلمل کرتے رہتے ہیں۔ ابھی ہم کِسی ایک رنگ کو سمجھ کر اُسے کوئی واضح شکل دینے کو کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ آنکھ جھپکتے ہی عورت کا کوئی دوسرا رنگ سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ اور ہماری توجہّ پچھلے رنگ سے ہٹ کر موجودہ رنگ پر مبذول ہوجاتی ہے۔

مرد کی توجہّ میں یکسوئی ہوتی ہے۔ عورت کو توجہ اِدھر سے اُدھر ہوتی رہتی ہے۔ مرد فطرتاً بے وفا ہوتا ہے۔ عورت میں وفا نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ مرد بیک وقت کئی مختلف طرح کے کام بہ آسانی کرلیتا ہے۔ عورت کو کئی کام اگر ایک ساتھ کرنے پڑیں تو اکثر سارے کام گِڈ مِڈ ہوجاتے ہیں۔ Pure مرد یا Pure عورت کا مِلنا مشکل ہوتا ہے۔ قدرت نے دونوں جِنسوں میں مردانہ و زنانہ دونوں طرح کے ہارمونز پیدا کیے ہیں، جِن مردوں میں فیمیل ہارمونز، نارمل سے زیادہ ہوتے ہیں، اُن میں عورتوں والی کئی خصوصیات ازخود پیدا ہوجاتی ہیں۔ اور جِن عورتوں میں میل ہارمونز کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہ مردانہ سوچ و افعال کا جا بہ جا مظاہرہ کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔

مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کِسی عورت میں مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے ہارمونز تناسب سے زیادہ بلکہ کافی زیادہ ہوں۔ مغرب ہو یا مشرق یا دنیا کا کوئی اور خطّہ، اِس طرح کی صورت حال میں گرفتار زیادہ تر خواتیں پھر اپنی تمام تر بھرپور ظاہری نسوانی شکل و صورت و خصوصیات کے باوجود مردانہ اور زنانہ نفسیاتی ساخت میں بٹ جاتی ہیں۔ ایسی خواتین کی اکثریت پھر مردوں کی برابری نہیں بلکہ اُن کا مقابلہ کرتی دِکھائی دیتی ہے۔

ایسی مخصوص خواتین اکثر محض مجبوراً نہیں بلکہ اپنے جبلّی اور فطری تقاضوں سے مجبور ہوکر گھر سے باہر کی دنیا کا انتخاب کرتی ہیں۔ مشقّت سے پھرپور جسمانی کھیلوں سے لے کر ذہانت و فطانت کے میدانوں میں جھنڈے گاڑتی دِکھائی دیتی ہیں۔ اُن کی اندرونی ذہنی ور روحانی سیماب صفتی اُن کو گھر کی چار دیواروں کے بیچ رُکنے نہیں دیتی۔ کِسی ایک مقام پرٹِکنے نہیں دیتی۔ ورکنگ وومن ایک خاص تعداد اِس طرح کی مردانہ خصوصیات کی حامل خواتین کی ہوتی ہے۔ گو بہت سی عورتیں شوق یا مجبوری یا اضافی آمدنی کی خواہش میں گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں، لیکن جِس عورت کی Genes اور Hormones میں پیدائش کے وقت ہی سُپرمین یا سُپروومن والے کروموسوم اور ٹیسٹو اسٹیرون کی مقدار نارمل سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ شروع سے ہی مردوں کی طرح مختلف النّوع کاموں اور دل چسپیوں کی طرف راغب ہوتی ہے۔ ایسی عورت کو اگر سازگار ماحول اور Luck کا Kick Back مِل جاتا ہے تو وہ یہ بھول کر کہ وہ ایک عورت ہے، ایسے ایسے کام کرڈالتی ہے، جو عام حالات میں مضبوط اور طاقتور مردوں کے بس میں بھی نہیں ہوتے۔

لیکن ایسی عورت اپنی تمام Extra Ordinary Powers کے باوجود اندر اور باہر سے بٹ جاتی ہے اور تمام عُمر بٹی رہتی ہے۔ حصّوں بخروں میں بٹتی رہتی ہے۔ نہ مرد اُسے اپنے برابر کا Status دے پاتے ہیں۔ نہ اُس کے ساتھ کی عام عورتیں اُسے برداشت کرپاتی ہیں۔ مسئلہ اُس وقت زیادہ گمبھیر ہوجاتا ہے جب بٹی ہوئی عورت، خوب صورت بھی ہو اور بھرپور نسوانی حُسن و کشش کے ساتھ ساتھ ذہانت و فطانت کی دولت سے بھی مالامال ہو۔ ایسے میں ایسی عورت چار دھاری نوکیلا خنجر بن جاتی ہے، جِس کی زد میں آکر سب کچھ اور سب لوگ کٹتے رہتے ہیں اور زخمی ہوتے رہتے ہیں، لیکن سب سے زیادہ زخم، ایسی عورت کے خود کے تن من پر لگتے ہیں۔ سب سے زیادہ خون، خود اُس کا بہتا ہے اور عام طور پر تمام عُمر بہتا رہتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ اُسے خود اذیّتی کی لت پڑجاتی ہے اور وہ اندر ہی اندر اتنے حصّوںمیں تقسیم ہوجاتی ہے کہ ایک حصّے کو دوسرے کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اُس کی شخصیت کا ایک رنگ اُسے محبت کے کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہتا ہے تو دوسرا رنگ اُسے ہوا سے ہلکا بن کر اِدھر سے اُدھر اُڑنے کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔

مشرق ہو یا مغرب، خوب صورت اور ذہین عورت کو عام طور پر مرد کِسی رنگ کِسی حیثیت میں قبول نہیں کرپاتے۔ خوب صورتی کواپنے قبضے میں لاکر غلام بنانا چاہتے ہیں اور ذہانت کے پر کاٹ کر تمام عُمر کے لیے اپنا اثیر رکھنا چاہتے ہیں۔ اور اِسی نُکتے سے ایسی جنگ کا آغاز ہوتا ہے جو ہزار ہا سالوں سے لڑی جارہی ہے اور کوئی بھی فریق آج تک اِسے جیتنے میں کام یاب نہیں ہوپایا۔

جانے کتنے مرد بٹی ہوئی خوب صورت و ذہین عورتوں کے عشق میں گرفتار ہوکر، ان پر حکومت کرنے کی خواہش میں زندہ درگور ہوگئے۔ جانے کتنی ہی عام عورتوں کے دِل، ہر اور خاندان جل کر خاکستر ہوگئے۔ جانے کتنے ہی نظام تباہ و برباد ہوگئے۔ جانے کتنی ہی مردانہ خصوصیات کی حامل، بٹی ہوئی عورتیں، اپنے حُسن اور اپنی ذہانت کے چار دھاری خنجر کے زہر سے مٹّی کی مورت بن گئیں۔ لیکن فتح کِسی کے حصّے میں نہیں آئی۔

اور کوئی فاتح ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ فطرت کی تلون مزاجی کو سمجھنا اور سمجھ کر ماننا اور شکست فاش سے پہلے ہی Retreat کرلینا نہ ایسی معصوم و مجبور عورتوں کے نصیب میں لِکھا ہوتا ہے اور نہ ہی تجسّس کے متلاشی محکوم و کم زور مردوں کو قدرت یہ موقع دیتی ہے کہ وہ سپر کروموسومز کی حامل عورتوں کے سحر سے خود کو بچا سکیں۔

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وقت اور فطرت ایسے مردوں اور ایسی عورتوں پر مہربان ہوں اور جو کبھی قدرت کِسی کو ایسا موقع فراہم کردے، تو اُسے غنیمت جان کر ، جو بچا ہے، اُسے سمیٹ کر الٹے قدموں واپس پلٹ جانا چاہیے۔ بہ صورت دیگر ایسے سفر کا اختتام نیلگوں دھوئیں پر ہوتا ہے، جِس کے پار پھر کچھ نظر نہیں آتا اور مرد ہو یا عورت، دونوں ابدی پیاس کا شکار ہو کر دریا دریا دوڑتے رہتے ہیں اور پھر بھی پیاسے رہتے ہیں۔
Load Next Story