عبداللہ چانڈیو کی کتھا
عبداللہ چانڈیو آپ کے لیے ایک شخص کی کہانی ہے لیکن میرے لیے یہ ایک کردار ہے۔
کبھی کبھی قانون کی جنگ لڑتے لڑتے ہم خود اپنے موکل کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ کتنی کہانیاں پھر ابھرتی ہیں، کتنی وارداتیں ، باتیں، جھوٹ سچ سب کھلنے لگتا ہے۔ خدا نہ کرے آپ دہقان ہوں یا چھوٹے کاشتکار، اور وہ بھی دیہی سندھ کے رہنے والے ہوں اور سونے پر سہاگا یہ کہ آپ صاحب اقتدار جماعت کو ووٹ نہ دیں یا پھر کسی اثر و رسوخ سے شناسا نہ ہوں۔
تعلقہ قاضی احمد میں ایک شخص ہے عبداللہ چانڈیو، 70 کی دہائی میں ہمارے والد کی دہقانوں کی تحریک سے منسلک تھے۔ خوب سندھی جانتے اور پڑھتے ہیں، عمر 80 سال کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ شخص یوں کہیے کہ آصف زرداری کے پرانے گاؤں سے ہے، جہاں ان کے دادا رہتے تھے اور ان کے والد پیدا ہوئے تھے۔ میں کراچی میں کتنا بھی مصروف رہوں عبداللہ چانڈیو جب بھی اور جس وقت بھی فون کریں جتنا وقت لیں یا باتیں کرتے کرتے وہ میرے والد کے دور کی تصانیف پر تبصرہ کریں میں ان کو خصوصی توجہ سے سنتا اور محظوظ ہوتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے جب ان کا بائی پاس آپریشن ہوا تو مجھے بتایا نہیں، بس اتنا کہا کہ اب شاید میرے زندگی کم رہ گئی ہے، اس لیے آپ سے آخری بات فون پر کرنا چاہتا ہوں اور یوں سمجھیے کہ یہ فون الوداع کہنے کے لیے ہے۔
عبداللہ چانڈیو آپ کے لیے ایک شخص کی کہانی ہے لیکن میرے لیے یہ ایک کردار ہے۔ مختلف زمانوں اور سندھ کے مختلف دیہات اور گاؤں کا کردار جس کی زمین پر قانون کی غلط تشریح کرکے قبضہ کیا جارہا ہے، نہ جانے ایسے کتنے عبداللہ چانڈیو ہوں گے۔ اور کتنے افسران ہوں گے جو لینڈ ریوینو ایکٹ 1967 کی غلط تشریح کرکے ان چھوٹے کاشتکاروں کو مجبور کرتے ہوں گے کہ وہ ڈر کے مارے اپنی ساری زمین وہاں کے اثر و رسوخ رکھنے والوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر اپنی جان کی امان پائیں۔
ایسے کئی کیس تھے جو میں نے اپنے گھر میں اپنے ابا کے دفتر میں دیکھے۔ کتنے دہقان اپنی بیل گاڑیوں پر چڑھ کر قطار در قطار آتے تھے۔ ان کے پاس فیس دینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ کوئی شہد یا دیسی گھی کی بوتل اور کوئی اپنی خواتین کے ہاتھوں کی بنی ہوئی سندھی رلی یا اسی طرز کے تحائف لے کر آتے تھے، اور جب ابا جیل جاتے تو یہی دہقان تھے جو ہمارے گھر کے محافظ بن جاتے۔ کوئی اناج کی بوریاں لاتا، کوئی چاول تو کوئی سبزیاں۔
مختصر یہ کہ عبداللہ چانڈیو اسی زمانے کا قصہ ہیں۔ ایک دن جب صبح سویرے میرے ڈیفنس کراچی کے گھر کے سامنے وہ کھڑے تھے اور چونکہ میں نے ان کو کبھی دیکھا نہ تھا، پہچان نہ پایا، وہ مجھے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے کہ ''میں عبداللہ چانڈیو ہوں''۔ میرے لیے وہ کتنے محترم تھے شاید انھیں معلوم ہی نہ تھا۔ میں انھیں اپنے گھر لے آیا، اپنا محترم اور بزرگ سمجھ کر عزت کے ساتھ، کیوں کہ مجھے ان کی صورت میں اپنے والد کی صورت نظر آئی۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ شاید وہ اس دنیا میں نہیں رہے، اس لیے اس سال میں ان کا کوئی فون نہیں آیا۔
ان کی آبدیدہ آنکھیں، ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے فریادی تھیں کہ شاید جیسے میں نے اپنے والد کے دہقانوں کو چھوڑ دیا ہے اور یہاں آسائش کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔
قصہ مختصر عبداللہ چانڈیو نے 1988 میں دس ایکڑ زمین خریدی تھی۔ 1990 میں وہ کھاتے پر بھی چڑھی۔ بیچنے والے شخص نے 2017 میں اچانک یہ انکشاف کیا کہ یہ زمین میں نے عبداللہ چانڈیو کو بیچی ہی نہیں اور ریونیو کھاتہ نے عبداللہ چانڈیو کے ساتھ مل کر فراڈ کیا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے زمین بیچنے والے کے انگوٹھے کے نشان کو Forensic report کے لیے تفتیش کے لیے بھیجا اور Forensic report نے یہ تصدیق کی کہ یہ انگوٹھے کا نشان جھوٹا ہے۔ لیکن یہ پتا نہیں کے Department Forensic کی وہ رپورٹ کہاں ہے؟
نہ حلفیہ بیان ہوا، نہ Forensic expert گواہ باکس میں کھڑا ہوا، نہ اس کا کراس امتحان ہوا، نہ Sale agreement پر اس پر موجود انگوٹھے کے نشان کا فارنسک ہوا اور نہ ہی ریوینو کے ان ملازمین کو کوئی سزا ہوئی، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سب سے بڑی بات سیکشن 172 لینڈ ریوینو ایکٹ کے تحت زمین کے کھاتے کو کینسل کرنے کا اختیار اسسٹنٹ کمشنر کے پاس ہے ہی نہیں اور اس قانون کا سیکشن 53 واضح کرتا ہے کہ ایسا تنازعہ جو کہ کھاتے میں موجود ٹائٹل کو چیلنج کرتا ہو وہ سیکشن 42 اسپیسفک ریلیف ایکٹ 1877 کے تحت سینیئر سول جج کے پاس Declaratory suit کی حیثیت سے درج ہوگا، اور اگر کیس چلے گا بھی تو ایسا تنازعہ لمٹیشن ایکٹ 1908 کے تحت کاز آف ایکشن کے دن سے چھ سال کے اندر درج ہوگا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ 28 سال بعد یہ فرد اچانک نمودار ہوا ہے اور اس کو اب یاد آیا ہے کہ ''دال میں کچھ کالا ہے'' اور اب لگ گئے ہیں علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ عبداللہ چانڈیو کے پیچھے، ان کے پیغام رساں آتے ہیں کہ یہ زمین تم صاحب کو بیچ دو اور وہ جانے اور اسسٹنٹ کمشنر جانے، یہ جھگڑا تمہارے بس کا نہیں۔
یہ وہی طریقہ ہے جس طریقے سے مختلف ہاؤسنگ اسکیم کے لوگ زمینیں خریدتے ہیں یا پھر وہی طریقہ ہے جس سے زمینیں ہتھیائی جاتی ہیں۔
قانون بھی واضح ہے اور کورٹ کے فیصلے بھی واضح ہیں۔ لیکن ''خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک'' جب تک عبداللہ چانڈیو کو انصاف ملے گا تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف پولیس متحرک ہوجاتی ہے، ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اور پھر ان کو مجبوراً زمین علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے کو بیچنی پڑتی ہے کوڑیوں کے بھاؤ۔ اور اچانک پتا چلتا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کا یہ فیصلہ غیر قانونی تھا۔ لیکن اسسٹنٹ کمشنر کے اس غیر قانونی فیصلے کا تعین ہونے تک عبداللہ چانڈیو اس دنیا میں نہیں ہوں گے، اور نہ یہ زمین اس کی اولاد کے پاس جانا ممکن ہوگی، یہ زمین اس علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے شخص کے پاس چلی جائے گی۔
دراصل 1956 میں ہاری الاٹی تحریک کا محور بھی یہی تھا کہ وہ زمینیں جو ہجرت کرنے والے چھوڑ گئے تھے، وہ زمینیں ان دہقانوں کو ملنی چاہئیں جو ان پر کاشتکاری کریں۔
ماٹی کہے کمہار سے، تو کیا روندھے موہے
اک دن ایسا آئے گا میں روندھوں گی توہے
نہ جانے کون سی ہوس ان صاحب اقتدار لوگوں کی ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی۔
تعلقہ قاضی احمد میں ایک شخص ہے عبداللہ چانڈیو، 70 کی دہائی میں ہمارے والد کی دہقانوں کی تحریک سے منسلک تھے۔ خوب سندھی جانتے اور پڑھتے ہیں، عمر 80 سال کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ شخص یوں کہیے کہ آصف زرداری کے پرانے گاؤں سے ہے، جہاں ان کے دادا رہتے تھے اور ان کے والد پیدا ہوئے تھے۔ میں کراچی میں کتنا بھی مصروف رہوں عبداللہ چانڈیو جب بھی اور جس وقت بھی فون کریں جتنا وقت لیں یا باتیں کرتے کرتے وہ میرے والد کے دور کی تصانیف پر تبصرہ کریں میں ان کو خصوصی توجہ سے سنتا اور محظوظ ہوتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے جب ان کا بائی پاس آپریشن ہوا تو مجھے بتایا نہیں، بس اتنا کہا کہ اب شاید میرے زندگی کم رہ گئی ہے، اس لیے آپ سے آخری بات فون پر کرنا چاہتا ہوں اور یوں سمجھیے کہ یہ فون الوداع کہنے کے لیے ہے۔
عبداللہ چانڈیو آپ کے لیے ایک شخص کی کہانی ہے لیکن میرے لیے یہ ایک کردار ہے۔ مختلف زمانوں اور سندھ کے مختلف دیہات اور گاؤں کا کردار جس کی زمین پر قانون کی غلط تشریح کرکے قبضہ کیا جارہا ہے، نہ جانے ایسے کتنے عبداللہ چانڈیو ہوں گے۔ اور کتنے افسران ہوں گے جو لینڈ ریوینو ایکٹ 1967 کی غلط تشریح کرکے ان چھوٹے کاشتکاروں کو مجبور کرتے ہوں گے کہ وہ ڈر کے مارے اپنی ساری زمین وہاں کے اثر و رسوخ رکھنے والوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر اپنی جان کی امان پائیں۔
ایسے کئی کیس تھے جو میں نے اپنے گھر میں اپنے ابا کے دفتر میں دیکھے۔ کتنے دہقان اپنی بیل گاڑیوں پر چڑھ کر قطار در قطار آتے تھے۔ ان کے پاس فیس دینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ کوئی شہد یا دیسی گھی کی بوتل اور کوئی اپنی خواتین کے ہاتھوں کی بنی ہوئی سندھی رلی یا اسی طرز کے تحائف لے کر آتے تھے، اور جب ابا جیل جاتے تو یہی دہقان تھے جو ہمارے گھر کے محافظ بن جاتے۔ کوئی اناج کی بوریاں لاتا، کوئی چاول تو کوئی سبزیاں۔
مختصر یہ کہ عبداللہ چانڈیو اسی زمانے کا قصہ ہیں۔ ایک دن جب صبح سویرے میرے ڈیفنس کراچی کے گھر کے سامنے وہ کھڑے تھے اور چونکہ میں نے ان کو کبھی دیکھا نہ تھا، پہچان نہ پایا، وہ مجھے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے کہ ''میں عبداللہ چانڈیو ہوں''۔ میرے لیے وہ کتنے محترم تھے شاید انھیں معلوم ہی نہ تھا۔ میں انھیں اپنے گھر لے آیا، اپنا محترم اور بزرگ سمجھ کر عزت کے ساتھ، کیوں کہ مجھے ان کی صورت میں اپنے والد کی صورت نظر آئی۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ شاید وہ اس دنیا میں نہیں رہے، اس لیے اس سال میں ان کا کوئی فون نہیں آیا۔
ان کی آبدیدہ آنکھیں، ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے فریادی تھیں کہ شاید جیسے میں نے اپنے والد کے دہقانوں کو چھوڑ دیا ہے اور یہاں آسائش کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔
قصہ مختصر عبداللہ چانڈیو نے 1988 میں دس ایکڑ زمین خریدی تھی۔ 1990 میں وہ کھاتے پر بھی چڑھی۔ بیچنے والے شخص نے 2017 میں اچانک یہ انکشاف کیا کہ یہ زمین میں نے عبداللہ چانڈیو کو بیچی ہی نہیں اور ریونیو کھاتہ نے عبداللہ چانڈیو کے ساتھ مل کر فراڈ کیا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے زمین بیچنے والے کے انگوٹھے کے نشان کو Forensic report کے لیے تفتیش کے لیے بھیجا اور Forensic report نے یہ تصدیق کی کہ یہ انگوٹھے کا نشان جھوٹا ہے۔ لیکن یہ پتا نہیں کے Department Forensic کی وہ رپورٹ کہاں ہے؟
نہ حلفیہ بیان ہوا، نہ Forensic expert گواہ باکس میں کھڑا ہوا، نہ اس کا کراس امتحان ہوا، نہ Sale agreement پر اس پر موجود انگوٹھے کے نشان کا فارنسک ہوا اور نہ ہی ریوینو کے ان ملازمین کو کوئی سزا ہوئی، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سب سے بڑی بات سیکشن 172 لینڈ ریوینو ایکٹ کے تحت زمین کے کھاتے کو کینسل کرنے کا اختیار اسسٹنٹ کمشنر کے پاس ہے ہی نہیں اور اس قانون کا سیکشن 53 واضح کرتا ہے کہ ایسا تنازعہ جو کہ کھاتے میں موجود ٹائٹل کو چیلنج کرتا ہو وہ سیکشن 42 اسپیسفک ریلیف ایکٹ 1877 کے تحت سینیئر سول جج کے پاس Declaratory suit کی حیثیت سے درج ہوگا، اور اگر کیس چلے گا بھی تو ایسا تنازعہ لمٹیشن ایکٹ 1908 کے تحت کاز آف ایکشن کے دن سے چھ سال کے اندر درج ہوگا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ 28 سال بعد یہ فرد اچانک نمودار ہوا ہے اور اس کو اب یاد آیا ہے کہ ''دال میں کچھ کالا ہے'' اور اب لگ گئے ہیں علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ عبداللہ چانڈیو کے پیچھے، ان کے پیغام رساں آتے ہیں کہ یہ زمین تم صاحب کو بیچ دو اور وہ جانے اور اسسٹنٹ کمشنر جانے، یہ جھگڑا تمہارے بس کا نہیں۔
یہ وہی طریقہ ہے جس طریقے سے مختلف ہاؤسنگ اسکیم کے لوگ زمینیں خریدتے ہیں یا پھر وہی طریقہ ہے جس سے زمینیں ہتھیائی جاتی ہیں۔
قانون بھی واضح ہے اور کورٹ کے فیصلے بھی واضح ہیں۔ لیکن ''خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک'' جب تک عبداللہ چانڈیو کو انصاف ملے گا تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف پولیس متحرک ہوجاتی ہے، ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اور پھر ان کو مجبوراً زمین علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے کو بیچنی پڑتی ہے کوڑیوں کے بھاؤ۔ اور اچانک پتا چلتا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کا یہ فیصلہ غیر قانونی تھا۔ لیکن اسسٹنٹ کمشنر کے اس غیر قانونی فیصلے کا تعین ہونے تک عبداللہ چانڈیو اس دنیا میں نہیں ہوں گے، اور نہ یہ زمین اس کی اولاد کے پاس جانا ممکن ہوگی، یہ زمین اس علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے شخص کے پاس چلی جائے گی۔
دراصل 1956 میں ہاری الاٹی تحریک کا محور بھی یہی تھا کہ وہ زمینیں جو ہجرت کرنے والے چھوڑ گئے تھے، وہ زمینیں ان دہقانوں کو ملنی چاہئیں جو ان پر کاشتکاری کریں۔
ماٹی کہے کمہار سے، تو کیا روندھے موہے
اک دن ایسا آئے گا میں روندھوں گی توہے
نہ جانے کون سی ہوس ان صاحب اقتدار لوگوں کی ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی۔