ٹرمپ فیصلہ واپس لیں گے

مسلم ممالک کا جو مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اس کا حیثیت ایک بیان کے سوا کچھ اور نہیں۔


طاہر نجمی December 17, 2017
[email protected]

KARACHI: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنیکا اعلان کر کے دنیا بھر میں بالعموم اور اسلامی ممالک میں بالخصوص تشویش کی لہر دوڑادی تھی، ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ مسلم ممالک کے علاوہ تمام اہم ممالک، روس، چین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے بھی مخالفت کا اظہار کیا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ٹرمپ کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے سے فلسطین میں خونی تصادم کی راہ ہموار ہوگی، یہ اقدام خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کو بڑھانے کے لیے ایندھن کا کردار ادا کریگا۔ جب کہ اسلامی دنیا نے بھی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔

استنبول میں ترک صدر طیب اردوان کی صدارت میں ہونے والی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ عالمی برادری امریکی اعلان کو مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے، امریکا اسرائیل۔ فلسطین امن عمل میں اپنے کردار سے دستبردار ہو۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکی صدر کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے جب کہ 1993ء میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان طے شدہ اوسلو معاہدے سے بھی انحراف ہے۔

امریکا کے اس اعلان پر قابل ذکر اسلامی ممالک نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جس طرح او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا، اس سے عام مسلمانوں میں یہ موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اس مرتبہ مسلم امہ جاگ جائے گی، عام مسلمان یہ توقع کر رہے تھے کہ مسلم ممالک کے حکمران مذمتی قرار دادوں، اظہار ہمدردی کے بیانات سے آگے بڑھ کر ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دینگے اور ایسے عملی اقدامات کیے جائینگے کہ امریکا اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو جائے گا اور اسرائیل سے اقوام متحدہ کی مختلف اوقات میں منظور ہونے والی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے کی کوئی سبیل بھی نکالی جائے گی۔

لیکن مسلم ممالک کی سربراہ کانفرنس کا جو اعلامیہ سامنے آیا، اس سے عام مسلمانوں میں بڑی مایوسی پھیلی ہے کیونکہ مسلم ممالک نے خطہ عرب میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے کے لیے کسی بھی قسم کا عملی پروگرام دینے کے بجائے صرف زبانی و کلامی فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا اور امریکا کے اقدام کو ناقابل قبول قرار دیا۔ مسلم ممالک کا جو مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اس کا حیثیت ایک بیان کے سوا کچھ اور نہیں، اسطرح کی باتوں سے امریکا و اسرائیل کی صحت پر ماضی میں کوئی اثرپڑا ہے نہ ہی مستقبل میں کوئی اثر پڑتا نظر آ رہا ہے۔

امریکا و اسرائیل کے لیے ویسے بھی کسی مسئلے کی قانونی و اخلاقی حیثیت اس وقت تک بے معنی ہے جب تک کوئی ایسی مجبوری سامنے نہ آجائے جس کے باعث انھیں اپنے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہو۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک مل کر ایک ایسا لائحہ عمل وضع کرتے کہ امریکا اسرائیل کی بے جا حمایت سے باز آکر نہ صرف اپنا فیصلہ واپس لیتا بلکہ اسرائیل جسے امریکا اپنا قریبی ساتھی اور دوست کہتا ہے اسے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے کا پابند بھی بناتا اور اسرائیل کو شام، فلسطین اور اردن کے علاقوں پر کیے جانیوالا قبضہ ختم کرانے پربھی مجبور کرتا، لیکن افسوس کہ مسلم ممالک کے حکمران ایسا کرنے میںاس بار بھی ناکام رہے۔

یہ درست ہے کہ اسلامی ممالک اس قابل تو نہیں کہ امریکا کے اس فیصلے کے خلاف اعلان جنگ کردیتے جس طرح عراق اور افغانستان کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کیا تھا لیکن وہ کم از کم اقتصادی دباؤ ڈال کر امریکا کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ضرور کر سکتے تھے کیونکہ اسلامی ممالک کے ساتھ دنیا کے تمام بڑے ممالک نے بھی امریکا کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، مسلم ممالک کوشش کرتے تو ان ممالک کو اپنا ہمنوا بناسکتے تھے۔

ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قرار دیکر مشرق وسطی میں امن کوبلا شبہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد فلسطین کے علاقے میں جو کشیدہ صورتحال پیدا ہوئی ہے امکان یہی ہے کہ جب تک ٹرمپ اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے تب تک فلسطین میں حالات معمول پر نہیں آئینگے اور فلسطینیوں نے جو نئی انتفاضہ (تحریک) شروع کرنیکا اعلان کیا ہے وقت گزرنے کے ساتھ اس میں شدت آسکتی ہے۔ مبصرین کی نظر میں اس طرح کے یکطرفہ اور غیرمنصفانہ فیصلوں سے جنگ کے شعلے صرف عراق، شام اور لیبیا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کادائرہ اردن، لبنان اور مصرتک پہنچ سکتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنا سلسلہ جوڑنے والے تینوں مذاہب یروشلم کو مقدس مقام کہتے ہیں، یہ شہر عبرانی زبان میں یروشلایم اور عربی میں القدس کے نام سے معروف ہے جب کہ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر چار حصوں اسلامی، مسیحی، یہودی اور آرمینائی میں تقسیم ہے۔ عیسائیوں کے دو علاقے ہیں کیونکہ آرمینائی بھی عیسائی ہیں۔ مسلمانوں کا علاقہ چاروں علاقوں میں سب سے بڑا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کے لیے قبلہ الاول کا درجہ رکھتی ہے۔

1948ء میں اسرائیل نے اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی شہر کے مغربی حصے پر قبضہ کرلیا تاہم اس کا مشرقی حصہ جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، اردن میں شامل رہا۔ 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شہر کے باقی حصے اور مغربی کنارے پر قبضہ کرکے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیدیا جسے عالمی سطح پرکبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

اسرائیل چونکہ 1967ء اور 1976ء کے بعد مشرق وسطیٰ میں لاکھوں یہودیوں کو بسا چکا، اب امریکا عالمی طاقت کے طور پر اس مقبوضہ علاقہ پر اسرائیلی اتھارٹی کو تسلیم کریگا تو نہ صرف مقبوضہ بیت المقدس بلکہ پورے فلسطین میں قبضہ کر کے بنائی جانے والی یہودی بستیوں کو ایک قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہوگا۔

امریکا کے اس غیر منصفانہ فیصلے سے جہاں محاذ آرائی، تصادم اور جنگ کی صورتحال پیدا ہوئی ہے وہاں خطے میں پائیدار امن کی ضمانت سمجھے جانے والے دو ریاستی حل کی امید بھی ملیا میٹ ہوگئی ہے۔ دو ریاستی حل مشرقِ وسطیٰ میں امن کا وہ ممکنہ فریم ورک ہے جس پر عرب لیگ، یورپی یونین، روس اور اوباما دور تک امریکا سمیت دنیا بھر کے بیشتر رہنما اتفاق کرتے رہے ہیں۔ اس فریم ورک کے تحت 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی اسرائیلی حدود کے مطابق غرب ِ اردن، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جانی ہے، اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں اس فریم ورک کی تائید کی گئی ہے۔

ٹرمپ کا یہ اقدام جہاں دنیا بھر میں تشویش کا سبب بنا ہے وہاں یہ اقدام عالمی طاقتوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور عالمی طاقتوں کے تدبر اور بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ اس معاملے سے کس طرح نمٹتی ہیں کیونکہ ایک عرصہ سے اسرائیل عالمی اداروں کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں کررہا ہے، اب یہ ایک بہترین موقع ہے کہ عالمی طاقتیں اسرائیل سے عالمی اداروں کی قرار دادوں کی پاسداری کرائیں، اگر وہ دنیا میں امن و سلامتی چاہتی ہیں تو پھر صرف زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کرتے ہوئے فلسطینیوں کی اخلاقی و سفارتی سطح پر مدد کریں اور ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کریں، خالی تشویش ظاہر کرنے، قرار داد منظور کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

اگر اب بھی اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری صرف بیانات کی حد تک مذمت کرتی رہتی ہے تو پھر ان اداروں سے دنیا کا اعتماد اٹھ جائے گا اور اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ پوری دنیا امریکا و اسرائیل کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اسلامی ممالک بالخصوص او آئی سی کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ کوئی ایسا لائحہ عمل بنائے جس کے تحت امریکا کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا جائے اور اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے کا پابند بنایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔