بدبخت باپ نے 5 سالہ معذور بیٹی کو نہر میں پھینک دیا

ریاض کی اہلیہ 6 ماہ قبل وفات پا گئی تھی، معذور کو نہیں سنبھال سکتا تھا، ملزم

نعش سے اٹھنے والے تعفن سے لوگوں کو اس بچی کا پتہ چلا۔ فوٹو : فائل

غیرت، غربت اور گھریلو ناچاقی پر بیٹیوں کے قتل کے واقعات تو ایک عمومی معاملہ بن چکا ہے، لیکن گزشتہ دنوں شجاع آباد کے علاقے میں پیش آنے والے واقعہ دل دہلا کر رکھ دیئے، جس میں ایک بدبخت باپ نے اپنی پانچ سالہ بیٹی علیزہ کو صرف اس لئے نہر میں پھینک کر مار ڈالا کہ وہ گونگی، نابینا اور ٹانگوں سے معذور ہے۔

افسوسناک واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ شجاع آباد کے رہائشی 34 سالہ محمد ریاض کی بیوی آسیہ بی بی کا 6 ماہ قبل انتقال ہو گیا تھا۔ محمد ریا ض کے چار بچے ہیں، ان میں ثانیہ دس سال، محمد عدیل آٹھ سال ، علیزہ پانچ سال اور محمد شکیل کی عمر ڈیڑھ سال ہے۔ درندہ صفت باپ ریاض نے دو دسمبر 2017ء کو اپنی بیٹی علیزہ کو موٹرسائیکل پر بٹھایا اور گھر بتایا کہ وہ دکان پر جارہا ہے تاکہ وہ علیزہ کو ٹافیاں دلا سکے، اس کے بعد وہ کئی گھنٹے تک گھر نہ لوٹا۔

شام کے وقت وہ گھر آیا تو علیزہ اس کے ہمراہ نہ تھی، محمد ریاض نے اپنے والد محمد رمضان کے پوچھنے پر بتایا کہ علیزہ گونگی، نابینا اور معذور تھی وہ بیوی کی وفات کے بعد اسے سنبھال نہیں سکتا تھا، اس لئے اس نے اسے موضع چدھڑ نہر ولی محمد میں زندہ پھینک دیا ہے۔

محمد رمضان کا کہنا ہے کہ بیٹے کی بات سن کر اس کے اوسان خطا ہو گئے، وہ اپنی پوتی کی تلاش میں گھر سے دوڑا، لیکن سب بے سود، اگلے روز اسے معلوم ہوا کہ تھانہ بستی ملوک کی پولیس کو نہر ولی محمد سے ایک بچی کی نعش ملی ہے، جسے نشتر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ وہ نشتر ہسپتال گیا جہاں پر اس نے اپنی پوتی کی نعش کی شناخت کر لی۔ محمد رمضان کی درخواست پر پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کر لیا۔


چند ماہ قبل اسی طرح کا ایک واقعہ دولت گیٹ پولیس کے علاقے میں بھی پیش آیا، جہاں ایک ذہنی طور پر معذور اور گونگی بچی کو قتل کر دیا گیا۔ کچی سرائے کی رہائشی ذہنی معذور اور گونگی دس سالہ لائبہ 19 اگست کو گھر سے نکلی تھی، لیکن آج تک لوٹ کر نہیں آ سکی۔ اس کے والد شاہد احمد نے رشتہ داروں کے ہمراہ اپنی بیٹی کی تلاش شروع کی تو تیسرے روز اسے اپنی بیٹی کی بوری بند نعش علی چوک کے قریب سڑک کے کنارے سے ملی۔ اس نے واقعہ کی اطلاع پولیس کو دی تو پولیس نے موقع پر پہنچ کر نعش قبضہ میں لے کر اس کا پوسٹ مارٹم کروایا اور اندھے قتل کی تفتیش کا آغاز کیا۔

یہ انتہائی مشکل کیس تھا، مگر پولیس نے ہمت نہ ہاری اور مختلف پہلوؤں سے تفتیش شروع کردی۔ پولیس کو اس وقت ملزم کا سراغ ملنے کی امید پیدا ہو گئی جب محلے کے ایک نوجوان رضوان کو طلب کیا گیا مگر وہ پولیس کے سامنے پیش ہوکر سوالوں کا جواب دینے کے بجائے گھر سے غائب ہو گیا۔

پولیس نے ملزم رضوان کو تلاش کرنے کو کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ کراچی روپوش ہو گیا ہے، یوں پولیس کا شک یقین میں بدلنا شروع ہو گیا، جس پر ایس ایچ او دولت گیٹ انسپکٹر ظہیر الدین بابر، ہومی سائیڈ انچارج انسپکٹر سعید اختر اور ٹیم میں شامل اے ایس آئی محمد اصغر، ہیڈ کانسٹیبل شفقت محمود، غلام عباس اور انتظار علی نے ملزم کے گرد گھیرا تنگ کیا اور کئی ماہ کی محنت کے بعد پولیس نے ملزم رضوان کو گرفتار کر لیا۔

ملزم رضوان نے گرفتار ی کے بعد بتایا کہ اس کی بیوی ناراض ہو کر گھر سے چلی گئی تھی وہ گھر میں اکیلا رہ رہا تھا وقوعہ کے روز وہ گھر سے باہر نکلا تو اسی علاقے کی بچی گلی میں موجود تھی، اسے شیطان نے ورغلایا اور وہ بچی کو بہلا کر اپنے گھر لے آیا، اس نے بچی سے زیادتی کی کوشش کی مگر اس نے مزاحمت شروع کر دی جس پر اس نے ہتھوڑی سے بچی کے سر پر وار کیا تو اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس نے دو روز تک نعش گھر میں چھپائے رکھی اور پھر دوسرے روز بوری میں بند کرکے باہر کوڑے کے ایک ڈھیر میں پھینک آیا۔ نعش سے اٹھنے والے تعفن سے لوگوں کو اس بچی کا پتہ چلا۔

Load Next Story