عالمی کرکٹ اور فیوچر ٹور پروگرام پر بھارتی اجارہ داری
پی سی بی کی انتظامی کمزوریاں نمایاں ہونے لگیں۔
ایک دور تھا کہ آئی سی سی میں پاکستان کا پالیسی سازی میں واضح کردار اور اثر رسوخ نظر آتا۔ ورلڈکپ کروانے کا اعزاز حاصل ہوا تو پاکستان کا نام پہلے جبکہ بھارت اور سری لنکا کو شریک میزبان لکھا جاتا۔ بعد ازاں پی سی بی میں سیاسی مداخلت بڑھی، معاملات کا حقیقی ادراک نہ رکھنے والے بورڈ سربراہان کی عالمی سطح پر آواز کمزور پڑتی گئی۔
مارچ 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے ایک طرف ملکی میدان ویران کئے تو دوسری طرف پی سی بی کی قدروقیمت کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سپاٹ فکسنگ سکینڈل 2010ء نے ساکھ بھی داؤ پر لگائی۔ قدرتی ٹیلنٹ سے مالامال پاکستان کی کرکٹ تو کسی طور اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہی لیکن آئی سی سی میں اثر و رسوخ پر کاری ضرب لگی۔ دوسری جانب بھارت نے آئی پی ایل سمیت نہ صرف اپنی کرکٹ کو مضبوط کیا بلکہ دولت کے بل بوتے پر اجارہ داری بھی قائم کرنا شروع کردی۔
''بگ تھری'' فارمولے کا منظور کیا جانا بھارتی ہٹ دھرمی کی انتہا تھی جس پر سابق چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف نے مزاحمت کرتے ہوئے آخری دم تک پاکستان کے مفاد کی جنگ لڑی لیکن ملک میں حکومت کی تبدیلی نے ایک صحافی نجم سیٹھی کو ملکی کرکٹ میں لانے کی راہ ہموار کر دی۔ طویل عدالتی محاذ آرائی کے بعد وہ چیئرمین پی سی بی کا عہدہ چھوڑنے پر تو مجبور ہو گئے لیکن کرکٹ کی جان نہ چھوڑی اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ بن کر شہریارخان کے اقتدار کے بڑے حصہ دار بن گئے۔
ذکاء اشرف کے ساتھ میوزیکل چیئر گیم کھیلتے ہوئے بطور چیئرمین پی سی بی انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو پچھتاوا بن چکا۔ اس کے نتیجے میں کچھ حاصل نہ ہونے کی خفت مٹانے کیلئے مزید غلطیاں کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ''بگ تھری'' کی حمایت کے بدلے بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ 8سال میں 6باہمی سیریز کھیلنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے ای میل بھی بھجوائی تو نجم سیٹھی نے کہا کہ آئی سی سی اجلاس سے نوٹوں کی بوریاں بھر کر لایا ہوں۔ آئندہ فیوچر ٹور پروگرام میں بھارت کے ساتھ میچز سے اربوں روپے کی کمائی ہوگی جس سے ملکی کرکٹ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا جائے گا۔ یہ بڑھکیں 2014ء میں ماری گئی تھیں لیکن بعد ازاں باہمی سیریز تو کیا ایک میچ بھی نہیں ہوسکا۔ دونوں ٹیمیں صرف آئی سی سی ایونٹس میں مقابل ہوتی رہیں۔
پی سی بی کی جانب سے سری لنکا سمیت کسی نیوٹرل وینیو پر کھیلنے کی بات چلائی گئی۔ بھارت نے پہلے ہاں، پھر ناں کرکے شائقین کے جذبات سے کھلواڑ کیا۔ بی سی سی آئی کا ہر بار ایک ہی موقف رہا کہ پڑوسی ملکوں میں سیاسی کشیدگی کی وجہ سے ان کی حکومت سیریز کی اجازت نہیں دے رہی۔
دوسری جانب پی سی بی کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے تحریری معاہدہ کرنے کے بعد نہ کھیل کر بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے۔ بورڈ کے سابق سربراہوں کی مخالفت کے باوجود بی سی سی آئی سے زرتلافی حاصل کرنے کیلئے آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں کیس بھی دائر کردیا گیا ہے لیکن بھارتی بورڈ اس کو ایک رسمی کارروائی کے طور پر لیتے ہوئے معاہدے کو ردی کاغذ کا ٹکڑا قرار دے رہا ہے۔اس محاذ پر پورا زور لگانے کے باوجود پی سی بی کی مہم خاصی کمزور نظر آرہی ہے۔
جہاں بولنے اور احتجاج کرنے کا موقع تھا وہاں پی سی بی خاموش تماشائی بنا رہا۔ کرکٹ کے نئے سٹرکچر کے تحت 2019ء سے 2023ء تک کے مجوزہ فیوچر ٹور پروگرام کے سلسلے میں 7اور 8ستمبر کو ہونے والی ورکشاپ میں بھارت نے عالمی کرکٹ پر اپنی اجارہ داری ثابت کردی اور پی سی بی نے اس موقع پر کئے جانے والے فیصلے قبول کرلئے۔ بی سی سی آئی نے اپنی لاڈلی آئی پی ایل میں بڑے سٹارز کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے انٹرنیشنل کیلنڈر ہی اپنی مرضی کا وضع کر لیا۔
لیگ کے دوران انٹرنیشنل میچز نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ ایف ٹی پی میں بھارتی ٹیم کے بیشتر میچز بڑی ٹیموں کے ساتھ شیڈول کئے گئے وہاں پاکستان کو تمام ٹیموں سے کم ون ڈے میچ دیئے گئے ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی کے فاتح گرین شرٹس 2019ء سے 2023ء تک صرف 38 ایک روزہ میچز کھیلیں گے۔ دوسری جانب دوسرے درجے کی ٹیموں میں شمار ہونے والے زمبابوے 40، افغانستان 41 اور آئرلینڈ 42 مقابلوں میں حصہ لیں گے۔ مجوزہ شیڈول کے مطابق ویسٹ انڈیز62، بھارت61، آسٹریلیا، سری لنکا48،48، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ 45-45، انگلینڈ43، آئر لینڈ42، افغانستان41، زمبابوے40 اور پاکستان 38 ون ڈے کھیلیں گے۔
دوسری جانب ٹیسٹ میچز میں بھی صورتحال اسی طرح کی ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کو 28، 28 میچز ملے ہیں جبکہ طویل فارمیٹ کی کمزور ٹیموں میں شمار ہونے والے بنگلہ دیش کو 35 ٹیسٹ دیئے گئے ہیں، مجموعی فہرست کو دیکھیں تو انگلینڈ 46، آسٹریلیا40، بھارت37، بنگلہ دیش35، جنوبی افریقہ32، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز29،29، پاکستان، نیوزی لینڈ 28-28، زمبابوے17، آئرلینڈ16، افغانستان 13 طویل فارمیٹ کے میچ کھیلیں گے۔ ٹی ٹوئنٹی میں بھارت 61 میچز کے ساتھ سرفہرست ہے، ویسٹ انڈیز 55، نیوزی لینڈ49، آئر لینڈ44، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، سری لنکا42،42، انگلینڈ41، آسٹریلیا، پاکستان 38-38، افغانستان 34، زمبابوے 31 مقابلوں کا حصہ بنیں گے۔
تینوں فارمیٹ کے مجموعی طور پر سب سے زیادہ 159 میچز بھارت کھیلے گا، ویسٹ انڈیز 146، انگلینڈ 130، آسٹریلیا 126، نیوزی لینڈ 124، بنگلہ دیش122، جنوبی افریقہ اور سری لنکا 119، 119، پاکستان 104، آئر لینڈ 102، افغانستان اور زمبابوے 88، 88 میچ کھیلیں گے، فروری میں ہونے والی چیف ایگزیکٹوز میٹنگ میں جائزہ لینے کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد جون میں آئی سی سی بورڈ ایف ٹی پی کی منظوری دے دے گا۔ بھارت نواز ایف ٹی پی پر خاموشی اختیار کرنے والے پی سی بی کا نیا پینترا بھی دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔
بورڈ کا دعویٰ ہے کہ آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی کے فیصلے میں بھارت کو پاکستان کے ساتھ میچز کھیلنے کا پابند کردیا گیا یا حالات بہتر ہوگئے تو مزید 24میچ کیلنڈر میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ چھوٹی ٹیموں کے ساتھ مقابلے شیڈول کرنے پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ بھارتی بورڈ کے سامنے تحفظات کا اظہار کرنے کیلئے پی سی بی کے کرتا دھرتا پی ایس ایل کیلئے بھی ایسی ونڈو بنانے کا مطالبہ کرسکتے تھے جس کا مستحق آئی پی ایل کو سمجھا گیا ہے لیکن قانونی جنگ میں سرمایہ جھونکنے کیلئے تیار حکام سنگا پور میں دلائل دینے کی جرأت بھی نہیں کر سکے۔
نجم سیٹھی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ آئی سی سی ٹیسٹ اور ون ڈے لیگز میں جو ٹیم بھی کھیلنے سے انکار کرے گی، اس کو پوائنٹس گنوانا پڑیں گے۔ اس خوش فہمی کا بھی جواب مل چکا۔ بی سی سی آئی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر راہول جوہری نے آئی سی سی کو ممبربورڈز کے باہمی تعلقات میں سہولت کار قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ کس کے ساتھ اور کب کھیلنا ہے فیصلہ خود کریں گے۔ حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ سیریز نہیں کھیل سکتے تو کوئی پوائنٹس سے محروم نہیں کر سکتا۔
بھارتی بورڈ کی ڈھٹائی سامنے آنے کے بعد ہی پی سی بی کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے زمینی حقائق کا ادراک کرلینا چاہیے، چیمپئنز ٹرافی فتح کا خمار اتار کر مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کا سامنا کرنے کیلئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ بورڈ میں سب اچھا کی آوازیں بلند کرنے والوں کی بھرمار ہے لیکن آنکھ اوجھل ہونے سے پہاڑ اوجھل نہیں ہو جاتا، بہتر یہی ہے کہ عالمی کرکٹ تعلقات کا تجربہ رکھنے والے سابق بورڈ سربراہان کو بلا کر پاکستان کرکٹ کی تنہائی کم کرنے کیلئے تجاویز لی جائیں۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق سمیت پی سی بی کا کوئی عہدیدار نہیں ہوگا جو ڈومیسٹک کرکٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس کو انٹرنیشنل معیار پر لانے کے بلند بانگ دعوے نہ کرتا ہو لیکن ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید نے قومی ٹی ٹوئنٹی کا شیڈول اور وینیوز کئی بار تبدیل کئے۔ ایونٹ راولپنڈی میں شروع ہوا بھی تو سٹار کرکٹرز بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں شرکت کیلئے روانہ ہوگئے۔ قائد اعظم ٹرافی کے ابتدائی میچز قومی مصروفیات کی وجہ سے نہ کھیل پانے والے کئی کھلاڑی سپر ایٹ مرحلے کے دوران یواے ای میں ٹی 10 لیگ کھیلنے پہنچ گئے۔
اہم ترین میچ سے قبل حبیب بینک کے کپتان احمد شہزاد، اوپنر فخر زمان، آل راؤنڈر فہیم اشرف اور پیسر عمرگل بھی شارجہ سدھارے۔ واپڈا کامران اکمل، سوئی سدرن گیس شعیب ملک، یوبی ایل عمراکمل، سہیل خان اور رومان رئیس کی خدمات سے محروم ہوئی۔ انضمام الحق نے چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سنبھالی تو ڈومیسٹک کرکٹ کے دوران قومی کرکٹرز کو لیگز میں شرکت کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا لیکن بعد ازاں دھڑا دھڑ این اوسی دیئے گئے۔ ٹی 10لیگ میں تو سابق کپتان خود شریک ہیں، دوسروں کو کس طرح روک سکیں گے۔
مارچ 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے ایک طرف ملکی میدان ویران کئے تو دوسری طرف پی سی بی کی قدروقیمت کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سپاٹ فکسنگ سکینڈل 2010ء نے ساکھ بھی داؤ پر لگائی۔ قدرتی ٹیلنٹ سے مالامال پاکستان کی کرکٹ تو کسی طور اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہی لیکن آئی سی سی میں اثر و رسوخ پر کاری ضرب لگی۔ دوسری جانب بھارت نے آئی پی ایل سمیت نہ صرف اپنی کرکٹ کو مضبوط کیا بلکہ دولت کے بل بوتے پر اجارہ داری بھی قائم کرنا شروع کردی۔
''بگ تھری'' فارمولے کا منظور کیا جانا بھارتی ہٹ دھرمی کی انتہا تھی جس پر سابق چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف نے مزاحمت کرتے ہوئے آخری دم تک پاکستان کے مفاد کی جنگ لڑی لیکن ملک میں حکومت کی تبدیلی نے ایک صحافی نجم سیٹھی کو ملکی کرکٹ میں لانے کی راہ ہموار کر دی۔ طویل عدالتی محاذ آرائی کے بعد وہ چیئرمین پی سی بی کا عہدہ چھوڑنے پر تو مجبور ہو گئے لیکن کرکٹ کی جان نہ چھوڑی اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ بن کر شہریارخان کے اقتدار کے بڑے حصہ دار بن گئے۔
ذکاء اشرف کے ساتھ میوزیکل چیئر گیم کھیلتے ہوئے بطور چیئرمین پی سی بی انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو پچھتاوا بن چکا۔ اس کے نتیجے میں کچھ حاصل نہ ہونے کی خفت مٹانے کیلئے مزید غلطیاں کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ''بگ تھری'' کی حمایت کے بدلے بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ 8سال میں 6باہمی سیریز کھیلنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے ای میل بھی بھجوائی تو نجم سیٹھی نے کہا کہ آئی سی سی اجلاس سے نوٹوں کی بوریاں بھر کر لایا ہوں۔ آئندہ فیوچر ٹور پروگرام میں بھارت کے ساتھ میچز سے اربوں روپے کی کمائی ہوگی جس سے ملکی کرکٹ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا جائے گا۔ یہ بڑھکیں 2014ء میں ماری گئی تھیں لیکن بعد ازاں باہمی سیریز تو کیا ایک میچ بھی نہیں ہوسکا۔ دونوں ٹیمیں صرف آئی سی سی ایونٹس میں مقابل ہوتی رہیں۔
پی سی بی کی جانب سے سری لنکا سمیت کسی نیوٹرل وینیو پر کھیلنے کی بات چلائی گئی۔ بھارت نے پہلے ہاں، پھر ناں کرکے شائقین کے جذبات سے کھلواڑ کیا۔ بی سی سی آئی کا ہر بار ایک ہی موقف رہا کہ پڑوسی ملکوں میں سیاسی کشیدگی کی وجہ سے ان کی حکومت سیریز کی اجازت نہیں دے رہی۔
دوسری جانب پی سی بی کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے تحریری معاہدہ کرنے کے بعد نہ کھیل کر بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے۔ بورڈ کے سابق سربراہوں کی مخالفت کے باوجود بی سی سی آئی سے زرتلافی حاصل کرنے کیلئے آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں کیس بھی دائر کردیا گیا ہے لیکن بھارتی بورڈ اس کو ایک رسمی کارروائی کے طور پر لیتے ہوئے معاہدے کو ردی کاغذ کا ٹکڑا قرار دے رہا ہے۔اس محاذ پر پورا زور لگانے کے باوجود پی سی بی کی مہم خاصی کمزور نظر آرہی ہے۔
جہاں بولنے اور احتجاج کرنے کا موقع تھا وہاں پی سی بی خاموش تماشائی بنا رہا۔ کرکٹ کے نئے سٹرکچر کے تحت 2019ء سے 2023ء تک کے مجوزہ فیوچر ٹور پروگرام کے سلسلے میں 7اور 8ستمبر کو ہونے والی ورکشاپ میں بھارت نے عالمی کرکٹ پر اپنی اجارہ داری ثابت کردی اور پی سی بی نے اس موقع پر کئے جانے والے فیصلے قبول کرلئے۔ بی سی سی آئی نے اپنی لاڈلی آئی پی ایل میں بڑے سٹارز کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے انٹرنیشنل کیلنڈر ہی اپنی مرضی کا وضع کر لیا۔
لیگ کے دوران انٹرنیشنل میچز نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ ایف ٹی پی میں بھارتی ٹیم کے بیشتر میچز بڑی ٹیموں کے ساتھ شیڈول کئے گئے وہاں پاکستان کو تمام ٹیموں سے کم ون ڈے میچ دیئے گئے ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی کے فاتح گرین شرٹس 2019ء سے 2023ء تک صرف 38 ایک روزہ میچز کھیلیں گے۔ دوسری جانب دوسرے درجے کی ٹیموں میں شمار ہونے والے زمبابوے 40، افغانستان 41 اور آئرلینڈ 42 مقابلوں میں حصہ لیں گے۔ مجوزہ شیڈول کے مطابق ویسٹ انڈیز62، بھارت61، آسٹریلیا، سری لنکا48،48، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ 45-45، انگلینڈ43، آئر لینڈ42، افغانستان41، زمبابوے40 اور پاکستان 38 ون ڈے کھیلیں گے۔
دوسری جانب ٹیسٹ میچز میں بھی صورتحال اسی طرح کی ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کو 28، 28 میچز ملے ہیں جبکہ طویل فارمیٹ کی کمزور ٹیموں میں شمار ہونے والے بنگلہ دیش کو 35 ٹیسٹ دیئے گئے ہیں، مجموعی فہرست کو دیکھیں تو انگلینڈ 46، آسٹریلیا40، بھارت37، بنگلہ دیش35، جنوبی افریقہ32، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز29،29، پاکستان، نیوزی لینڈ 28-28، زمبابوے17، آئرلینڈ16، افغانستان 13 طویل فارمیٹ کے میچ کھیلیں گے۔ ٹی ٹوئنٹی میں بھارت 61 میچز کے ساتھ سرفہرست ہے، ویسٹ انڈیز 55، نیوزی لینڈ49، آئر لینڈ44، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، سری لنکا42،42، انگلینڈ41، آسٹریلیا، پاکستان 38-38، افغانستان 34، زمبابوے 31 مقابلوں کا حصہ بنیں گے۔
تینوں فارمیٹ کے مجموعی طور پر سب سے زیادہ 159 میچز بھارت کھیلے گا، ویسٹ انڈیز 146، انگلینڈ 130، آسٹریلیا 126، نیوزی لینڈ 124، بنگلہ دیش122، جنوبی افریقہ اور سری لنکا 119، 119، پاکستان 104، آئر لینڈ 102، افغانستان اور زمبابوے 88، 88 میچ کھیلیں گے، فروری میں ہونے والی چیف ایگزیکٹوز میٹنگ میں جائزہ لینے کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد جون میں آئی سی سی بورڈ ایف ٹی پی کی منظوری دے دے گا۔ بھارت نواز ایف ٹی پی پر خاموشی اختیار کرنے والے پی سی بی کا نیا پینترا بھی دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔
بورڈ کا دعویٰ ہے کہ آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی کے فیصلے میں بھارت کو پاکستان کے ساتھ میچز کھیلنے کا پابند کردیا گیا یا حالات بہتر ہوگئے تو مزید 24میچ کیلنڈر میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ چھوٹی ٹیموں کے ساتھ مقابلے شیڈول کرنے پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ بھارتی بورڈ کے سامنے تحفظات کا اظہار کرنے کیلئے پی سی بی کے کرتا دھرتا پی ایس ایل کیلئے بھی ایسی ونڈو بنانے کا مطالبہ کرسکتے تھے جس کا مستحق آئی پی ایل کو سمجھا گیا ہے لیکن قانونی جنگ میں سرمایہ جھونکنے کیلئے تیار حکام سنگا پور میں دلائل دینے کی جرأت بھی نہیں کر سکے۔
نجم سیٹھی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ آئی سی سی ٹیسٹ اور ون ڈے لیگز میں جو ٹیم بھی کھیلنے سے انکار کرے گی، اس کو پوائنٹس گنوانا پڑیں گے۔ اس خوش فہمی کا بھی جواب مل چکا۔ بی سی سی آئی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر راہول جوہری نے آئی سی سی کو ممبربورڈز کے باہمی تعلقات میں سہولت کار قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ کس کے ساتھ اور کب کھیلنا ہے فیصلہ خود کریں گے۔ حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ سیریز نہیں کھیل سکتے تو کوئی پوائنٹس سے محروم نہیں کر سکتا۔
بھارتی بورڈ کی ڈھٹائی سامنے آنے کے بعد ہی پی سی بی کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے زمینی حقائق کا ادراک کرلینا چاہیے، چیمپئنز ٹرافی فتح کا خمار اتار کر مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کا سامنا کرنے کیلئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ بورڈ میں سب اچھا کی آوازیں بلند کرنے والوں کی بھرمار ہے لیکن آنکھ اوجھل ہونے سے پہاڑ اوجھل نہیں ہو جاتا، بہتر یہی ہے کہ عالمی کرکٹ تعلقات کا تجربہ رکھنے والے سابق بورڈ سربراہان کو بلا کر پاکستان کرکٹ کی تنہائی کم کرنے کیلئے تجاویز لی جائیں۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق سمیت پی سی بی کا کوئی عہدیدار نہیں ہوگا جو ڈومیسٹک کرکٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس کو انٹرنیشنل معیار پر لانے کے بلند بانگ دعوے نہ کرتا ہو لیکن ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید نے قومی ٹی ٹوئنٹی کا شیڈول اور وینیوز کئی بار تبدیل کئے۔ ایونٹ راولپنڈی میں شروع ہوا بھی تو سٹار کرکٹرز بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں شرکت کیلئے روانہ ہوگئے۔ قائد اعظم ٹرافی کے ابتدائی میچز قومی مصروفیات کی وجہ سے نہ کھیل پانے والے کئی کھلاڑی سپر ایٹ مرحلے کے دوران یواے ای میں ٹی 10 لیگ کھیلنے پہنچ گئے۔
اہم ترین میچ سے قبل حبیب بینک کے کپتان احمد شہزاد، اوپنر فخر زمان، آل راؤنڈر فہیم اشرف اور پیسر عمرگل بھی شارجہ سدھارے۔ واپڈا کامران اکمل، سوئی سدرن گیس شعیب ملک، یوبی ایل عمراکمل، سہیل خان اور رومان رئیس کی خدمات سے محروم ہوئی۔ انضمام الحق نے چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سنبھالی تو ڈومیسٹک کرکٹ کے دوران قومی کرکٹرز کو لیگز میں شرکت کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا لیکن بعد ازاں دھڑا دھڑ این اوسی دیئے گئے۔ ٹی 10لیگ میں تو سابق کپتان خود شریک ہیں، دوسروں کو کس طرح روک سکیں گے۔