کوئٹہ میں چرچ پر خودکش حملہ
دہشت گرد حملہ پاکستان کی اس اقلیتی کمیونٹی پر کیا گیا ہے جو مکمل طور پر پر امن برادری ہے
MULTAN:
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع معروف چرچ پراتوار کو خودکش دہشت گردوں کے حملے میں متعدد افراد جاں بحق جب کہ درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ خود کش حملہ اس وقت کیا گیا جب کوئٹہ کے مشہور میتھوڈسٹ چرچ میں دعائیہ تقریبات جاری تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ دہشتگردوں نے پہلے تیز دھار آلے سے حملہ کر کے سیکیورٹی گارڈ کو جان سے مار دیا اور چرچ کے اندر داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق چرچ پر 4خودکش بمباروں نے حملہ کیا، ایک خودکش بمبار نے چرچ کے اندر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ دوسرے کو سیکیورٹی فورسز نے گیٹ پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا، سیکیورٹی فورسز بھی بروقت پہنچ گئیں' سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان کی بروقت کارروائی نے کوئٹہ کو بڑی تباہی سے بچا لیا۔
دہشتگردوں کے حملوں کے بعد کوئٹہ شہر کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور تمام عملے کی چھٹیاں منسوخ کر کے طلب کر لیا گیا ۔ صدرمملکت ممنون حسین،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی،پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام اور سیاسی شخصیات نے کوئٹہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کوئٹہ چرچ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم متحد اور پرعزم ہے۔ صدرمملکت ممنون حسین نے حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ حملے میں مسیحی بھائیوں کونشانہ بنایا گیا، جس کا مقصد مذہبی تقسیم کو ہوا دینا ہے اور یہ کرسمس کا جشن پھیکا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ چرچ کو نشانہ بنانے کا واقعہ بزدلانہ اور افسوس ناک عمل ہے، جب کہ اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ پوری قوم کا فرض ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے حملے کی فوری رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد مسیحی برادری نے احتجاج کیا اور اس سانحے کے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس دہشت گردانہ حملے کا انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ دہشت گرد حملہ پاکستان کی اس اقلیتی کمیونٹی پر کیا گیا ہے جو مکمل طور پر پر امن برادری ہے اورپسماندہ ترین طبقہ ہے۔ جس کا ریاستی امور اور پالیسیوں میں کوئی کردار نہیں ہے۔اس پرامن اور پسماندہ برادری کی عبادت گاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے بزدلی اور ذہنی پسماندگی کی آخری سطح پر موجود ہیں۔
اس سانحے کا مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسیحیوں کا سب سے بڑا مذہبی تہوار یعنی کرسمس آنے والا ہے اور کوئٹہ کے چرچ میں دعائیہ تقریب بھی کرسمس کے استقبال کے طور پر منعقد کی جا رہی تھی۔اطلاعات کے مطابق چرچ میں چار سو سے زاید افراددعائیہ تقریب میں شریک تھے۔
واضح رہے پاکستان میں گرجا گھروں پر اس سے قبل بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوچکی ہیں جن میں اس اقلیتی برادری کا بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ 2015ء میں لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں پر حملہ ہوا جن میں پندرہ افراد لقمہ اجل بنے۔ 2013ء میں پشاور میں ایک چرچ پر حملہ ہوا جس میں 84 افراد جان بحق ہو گئے۔ ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔بہاولپور میں بھی چرچ پر حملے میں سولہ جانیں گئیں جب کہ 2002ء میں اسلام آباد میں ہونے والے چرچ حملے میں دو مسیحی افراد موت سے ہمکنار ہوئے۔ کوئٹہ میں جس میتھوڈسٹ چرچ پر حملہ ہوا وہ 1935میں تعمیر کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں کثیرالجہتی مقاصداور اہداف کے حامل دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں 'کچھ قوم پرستی کے نام پر غریب اور بے گناہ افراد کا قتل عام کر رہی ہیں اور کچھ مذہبی لبادہ اوڑھ کر معصوم لوگوں کو قتل کر رہی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز پر بھی حملے ہو رہے ہیں 'یہ صورت حال صوبائی اور مرکزی سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔عوام کی جان و مال سے کھیلنے والے دہشت گرد گروہوں کے اراکین 'ان کے مخبر'سہولت کار اور فنانسر کسی رعایت کے مستحکم نہیں ہیں' ان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع معروف چرچ پراتوار کو خودکش دہشت گردوں کے حملے میں متعدد افراد جاں بحق جب کہ درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ خود کش حملہ اس وقت کیا گیا جب کوئٹہ کے مشہور میتھوڈسٹ چرچ میں دعائیہ تقریبات جاری تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ دہشتگردوں نے پہلے تیز دھار آلے سے حملہ کر کے سیکیورٹی گارڈ کو جان سے مار دیا اور چرچ کے اندر داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق چرچ پر 4خودکش بمباروں نے حملہ کیا، ایک خودکش بمبار نے چرچ کے اندر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ دوسرے کو سیکیورٹی فورسز نے گیٹ پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا، سیکیورٹی فورسز بھی بروقت پہنچ گئیں' سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان کی بروقت کارروائی نے کوئٹہ کو بڑی تباہی سے بچا لیا۔
دہشتگردوں کے حملوں کے بعد کوئٹہ شہر کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور تمام عملے کی چھٹیاں منسوخ کر کے طلب کر لیا گیا ۔ صدرمملکت ممنون حسین،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی،پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام اور سیاسی شخصیات نے کوئٹہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کوئٹہ چرچ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم متحد اور پرعزم ہے۔ صدرمملکت ممنون حسین نے حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ حملے میں مسیحی بھائیوں کونشانہ بنایا گیا، جس کا مقصد مذہبی تقسیم کو ہوا دینا ہے اور یہ کرسمس کا جشن پھیکا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ چرچ کو نشانہ بنانے کا واقعہ بزدلانہ اور افسوس ناک عمل ہے، جب کہ اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ پوری قوم کا فرض ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے حملے کی فوری رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد مسیحی برادری نے احتجاج کیا اور اس سانحے کے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس دہشت گردانہ حملے کا انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ دہشت گرد حملہ پاکستان کی اس اقلیتی کمیونٹی پر کیا گیا ہے جو مکمل طور پر پر امن برادری ہے اورپسماندہ ترین طبقہ ہے۔ جس کا ریاستی امور اور پالیسیوں میں کوئی کردار نہیں ہے۔اس پرامن اور پسماندہ برادری کی عبادت گاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے بزدلی اور ذہنی پسماندگی کی آخری سطح پر موجود ہیں۔
اس سانحے کا مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسیحیوں کا سب سے بڑا مذہبی تہوار یعنی کرسمس آنے والا ہے اور کوئٹہ کے چرچ میں دعائیہ تقریب بھی کرسمس کے استقبال کے طور پر منعقد کی جا رہی تھی۔اطلاعات کے مطابق چرچ میں چار سو سے زاید افراددعائیہ تقریب میں شریک تھے۔
واضح رہے پاکستان میں گرجا گھروں پر اس سے قبل بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوچکی ہیں جن میں اس اقلیتی برادری کا بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ 2015ء میں لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں پر حملہ ہوا جن میں پندرہ افراد لقمہ اجل بنے۔ 2013ء میں پشاور میں ایک چرچ پر حملہ ہوا جس میں 84 افراد جان بحق ہو گئے۔ ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔بہاولپور میں بھی چرچ پر حملے میں سولہ جانیں گئیں جب کہ 2002ء میں اسلام آباد میں ہونے والے چرچ حملے میں دو مسیحی افراد موت سے ہمکنار ہوئے۔ کوئٹہ میں جس میتھوڈسٹ چرچ پر حملہ ہوا وہ 1935میں تعمیر کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں کثیرالجہتی مقاصداور اہداف کے حامل دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں 'کچھ قوم پرستی کے نام پر غریب اور بے گناہ افراد کا قتل عام کر رہی ہیں اور کچھ مذہبی لبادہ اوڑھ کر معصوم لوگوں کو قتل کر رہی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز پر بھی حملے ہو رہے ہیں 'یہ صورت حال صوبائی اور مرکزی سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔عوام کی جان و مال سے کھیلنے والے دہشت گرد گروہوں کے اراکین 'ان کے مخبر'سہولت کار اور فنانسر کسی رعایت کے مستحکم نہیں ہیں' ان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔