میرے سوال کا جواب دو

قوم کی محرومیاں آپ کو بے آرام کردیتی ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟

jabbar01@gmail.com

گزشتہ دنوں ہمارا ایک تقریب میں جانا ہوا۔ اس تقریب میں مختلف طبقات کے لوگ مدعو تھے۔ وہاں ہماری نظر اپوزیشن کے ایک رہنما پر پڑی، وہ لوگوں سے مخاطب ہوکر پاکستانی عوام، کے بالخصوص اور اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ظلم و ستم کی لمبی داستان سنا رہے تھے۔

ہم نے تجسس کے مارے ان سے سوال کیا کہ جناب!یہ بتائیے آپ لوگوں کو اقتدار کے زلفوں کی چھاؤں جب ملتی ہے تو اپنے بینک بیلنس میں اضافے اور اپنے عیش و عشرت کے محلات کی تعمیر میں مصروف ہوجاتے ہیں، لیکن اقتدار سے محرومی کے دنوں میں تحریکوں اور جماعتوں کے کرتا دھرتاؤں کو قوم کا دکھ ستانے لگتا ہے، فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائی عصبیت کے تمام درد جاگ اٹھتے ہیں، قوم کی محرومیاں آپ کو بے آرام کردیتی ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ہماری بات سن کر وہ طیش میں آگئے اور کہا، ہمارے دل زخمی ہیں اور تم اس پر مرہم رکھنے کے بجائے اس پر نمک چھڑک رہے ہو۔ انھوں نے آستینیں چڑھا کر انتہائی غصے سے کہا، یہاں سے اٹھیے اور دوسری جگہ تشریف لے جائیے۔ ہم وہاں سے اٹھے اور ایک ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں حکومتی جماعت کے رہنما لوگوں کو مخاطب کرکے جمہوریت کے قصیدے پڑھ کر سنا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ کی جماعت میں موروثیت کا جو عنصر داخل ہوگیا ہے وہ جمہوریت کی مکمل نفی کرتا ہے، اس لیے آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ جمہوریت کے گن گائیں۔

ہماری بات سن کر وہ غصے میں آگئے اور کہا کہ آپ وہ لوگ ہیں جو دس سال سے زائد عرصہ آمریت، جسے دنیا میں بدترین سیاسی نظام سمجھا جاتا ہے، اسے خاموشی سے قبول کرلیتے ہو، اس کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کرتے لیکن جیسے ہی جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے آپ اسے ختم کرنے پر آمادہ رہتے ہو، آپ سے جمہوریت پانچ سال برداشت نہیں ہوتی، اسے ناکام بنانے کے لیے طرح طرح کے سوالات اٹھاتے ہو۔ ہم نے عرض کی، جناب! ہمارے سوال کا یہ جواب نہیں ہے، مجھے میرے سوال کا جواب دو۔ انھوں نے دانت پیستے ہوئے کہا آپ جو سوال کریں گے اس کا یہی جواب ہے، اب آپ یہاں سے دور ہوجائیے۔

دور ہمیں ایک ادیب نظر آئے، وہ کئی کتب کے مصنف تھے۔ ہم نے ان سے کہا جناب! ہمیں لکھنے کا بہت شوق ہے لیکن اپنی کم علمی اور سطحی ذہنیت کی وجہ سے کتابیں لکھنے سے قاصر ہیں، لیکن ہم نے اپنے شوق کی بدولت آپ کی تمام کتابیں پڑھی ہیں، ہمیں آپ کی کتابیں مختلف کتابوں کی تحریروں کا چربہ نظر آتی ہیں، جسے علمی زبان میں سرقہ کہتے ہیں۔

انھوں نے بڑی بے نیازی سے جواب دیا اس میں کون سی غلط بات ہے، آپ نے محاورہ سنا ہوگا چراغ سے چراغ جلے، علم روشنی ہے اسے دور دور تک پھیلنا چاہیے، ہمارے عمل سے روشنی پھیل رہی ہے۔ ہم نے ان کی بات سن کر جواب دیا حضرت جگر اور پتہ کوئی جلائے اور روشنی کا مینار کسی اور کو قرار دیا جائے، یہ عمل نہ صرف عدل و انصاف کے منافی ہے بلکہ سراسر علمی بددیانتی ہے۔ ہماری بات سن کر برا سا منہ بناکر بولے، فلسفہ نہ بگھارئیے اور یہاں سے تشریف لے جائیے۔


ہم وہاں سے اٹھے تو ہمیں ساتھ والی نشست پر ایک دانشور نظر آئے جو عمومی طور پر ہمیں مختلف ٹی وی چینلز پر بھی دکھائی دیتے تھے۔ ہم وہاں بیٹھ گئے، وہ لوگوں سے مخاطب تھے اور پاکستان کے سیاسی، سماجی، تعلیمی اور عدالتی نظام اور اس کی خرابیوں پر زور دار تقریر کر رہے تھے۔

ہم نے ان کی تقریر سن کر ان سے کہا جناب! جو باتیں آپ کر رہے ہیں وہ سب باتیں عوام کے علم میں ہیں بلکہ عوام خود ان کا شکار ہیں، انھیں یہ باتیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے، عوام کو یہ بتائیں وہ کیا کریں۔ انھوں نے ہماری بات سن کر بے رخی کے انداز میں کہا او بھائی! جا وہ سامنے جو کولڈ ڈرنک رکھی ہے اسے پی اور گھر جاکر سو جا، میرے سامنے افلاطون بننے کی کوشش نہ کر۔

ہمیں ایک طرف روایت پسند دینی جماعت کے رہنما بھی نظر آئے، وہ کہہ رہے تھے کہ تاریخ میں عورت کے حوالے سے کوئی بڑا نام نہیں، سیاستدان ہوں یا فوجی جنرل، مورخ ہوں یا فلاسفر، آپ کو عورت کے حوالے سے کوئی بڑا نام نہیں ملے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت ناقص عقل ہے، اس لیے اسے مرد کے تابع رہنا چاہیے۔ ہم نے ان کی بات سن کر کہا کہ حضرت خدا تعالیٰ نسلی عصبیت سے بے نیاز ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کا کوئی حکم یا عمل نسلی امتیاز یا نسلی عصبیت کے زمرے میں آتا ہو۔ جہاں تک تاریخ میں عورت کے حوالے سے بڑے نام کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں عورت تاریخی جبر کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اب تک کوئی بڑا نام پیدا نہیں کرسکی۔

آپ کا یہ فرمانا کہ عورت کم عقل ہے تو اس ضمن میں عرض ہے کہ اندرا گاندھی نے ایوب خان اور یحییٰ خان جیسے مرد فوجی جنرلوں کو سیاسی شکست سے دوچار کردیا تھا، پاکستان میں بے نظیر بھٹو کے ناقابل فراموش سیاسی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہمیں سمجھنا چاہیے عورت ہو یا مرد اس کی قابلیت اور صلاحیت کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہے، اس کا نسلی عصبیت یا امتیاز سے کوئی تعلق نہیں۔ عورت کا تعلق گھر کے داخلی امور کی انجام دہی سے ہے اور مرد کا تعلق خارجی امور سے ہے۔ اسے اس حوالے سے کم تر سمجھنا درست رویہ نہیں۔ مولانا نے ہماری بات سن کر ہماری طرف بڑی حقارت سے دیکھا اور کہا کہ آپ مغربیت کا شکار ہو یا مغربی ممالک کے فنڈ سے چلنے والی کسی تنظیم کے آلہ کار، یہاں سے چلے جاؤ اور کسی مغربی ملک میں جاکر بسیرا کرو۔

ہمیں دور ایک کونے میں ایک صوفی نظر آئے، ان کا تعلق گدی نشین خاندان سے تھا، انھوں نے ایک آستانہ بھی آباد کر رکھا تھا۔ ہم ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے، وہ بڑی محبت سے ہمارے ساتھ پیش آئے، ہم نے تصوف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا خانقاہی نظام ہمارے نظام زندگی کا ایک اہم شعبہ رہا ہے جس کا بنیادی فلسفہ کردار سازی کے ذریعے انسان کی باطنی زندگی کے پہلو کو روشن بنانا ہے، بدقسمتی سے اس نظام میں کالی بھیڑیں داخل ہوگئی ہیں، انھوں نے اس شعبہ زندگی کو مال و زر کے حصول کا ذریعہ بنادیا ہے۔ انھوں نے ہماری بات سن کر بڑی نرمی سے کہا کہ آپ نے بالکل درست کہا۔

ہم نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ حضرت اس ضمن میں میری ایک تجویز ہے کہ اگر اس نظام میں نذرانے، عطیات، اور چندے کی وصولی پر سرکاری سطح پر پابندی لگادی جائے تو مجھے یقین ہے کہ اس نظام سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ میری بات سنتے ہی پیر صاحب جلال میں آگئے، ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور جلالی انداز میں بولے ''تو مجھے شیطان معلوم ہوتا ہے، دور ہو جا میری نظروں سے، ورنہ تجھے جلاکر راکھ کردوں گا۔'' انھوں نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کیا۔ ہم خوف زدہ ہوکر تقریب سے ہی بھاگ نکلے۔

گھر پہنچ کر ہم نے گھر والوں کو اس تقریب کا سارا حال سنایا، گھر والوں نے پوری بات سن کر کہا کہ تم نفسیاتی مریض ہوگئے ہو۔ والدہ نے رونا شروع کردیا کہ ہائے میرا بچہ پاگل ہوگیا۔ اہل محلہ کے لوگ جمع ہوگئے، سب ہمیں پکڑ کر نفسیات کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ہم نے ڈاکٹر سے کہا جناب! میں پاگل نہیں ہوں۔ پھر ہم نے ڈاکٹر کو پوری کہانی سنائی۔ ہماری بات سن کر ڈاکٹر نے کہا کہ دراصل یہ جو سب کچھ آپ بیان کر رہے ہیں یہ آپ کا خواب ہے، جسے آپ حقیقت سمجھ رہے ہو۔ ڈاکٹر نے یہ جملہ ادا ہی کیا تھا کہ ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ خواب تھا، اگر یہ حقیقت ہوتا تو آج یقیناً ہم پاگل خانے میں ہوتے۔
Load Next Story