مینوں دھرتی کلی کرادے
ظالم حکمران اپنی مکروہ حرکتوں سے باز نہ آئے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
KHAR:
سچ کی راہوں میں مرنے والوں کا ذکر ہمارے حسب حال ہے۔ آج ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، یہ دو چار دنوں کی بات نہیں! پچھلے 70 سال کی ناانصافیوں کا نتیجہ ہے۔ سچے لوگ، جھوٹے حاکموں کو ٹوکتے رہے۔ مگر ظالم حکمران اپنی مکروہ حرکتوں سے باز نہ آئے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
آج ایسے ہی ایک سچے انسان کا ذکر ہے جس نے سچ کا راستہ نہیں چھوڑا، صعوبتوں میں سلگتے ہوئے خوشی خوشی زندگی گزاری اور ساتھ ایمان کے صاف دامن لیے اپنی قبر میں اتر گیا۔ یہ انسان جسے دنیا استاد دامن کے نام سے جانتی ہے، پنجابی زبان کے عوامی انقلابی شاعر تھے۔ استاد دامن مشہور صوفی شاعر شاہ حسین کے پیروکار تھے۔ شاہ حسین مغل اعظم کہلانے والے بادشاہ اکبر کے زمانے میں موجود تھے۔ مغل اعظم نے پورا زور لگا دیا کہ شاہ حسین کسی صورت بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوجائیں مگر بادشاہ کی حسرت، حسرت ہی رہ گئی اور فقیر اپنی کٹیا ہی میں رہا۔ درباری نہ بنا۔
یہ شاہ حسین وہی ہیں جن کی یاد میں ہر سال میلہ چراغاں ہوتا ہے، اور لاہور کے گھروں کی منڈیروں پر چراغ روشن کیے جاتے ہیں۔ شاہ حسین کا مزار شالامار باغ سے متصل ہے۔ اور استاد دامن کو بھی ان کی وصیت کے مطابق اپنے مرشد شاہ حسین کے احاطہ مزار میں ہی بعداز مرگ دفن کیا گیا۔ یہیں میں یہ بھی لکھتا چلوں کہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے عین قریب حضرت شاہ حسین ایک کھولی (چھوٹا سا کمرہ) میں رہتے تھے۔
استاد دامن نے بھی ساری عمر اپنے مرشد کی اسی کھولی میں گزاری۔ مغل اعظم کے دربار میں شاہ حسین نے حاضری نہیں لگائی اور مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے استاد دامن نے بھی حکمرانوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھا۔ استاد دامن کی کھولی میں ان کے دوست فیض احمد فیض، سبط حسن، حبیب جالب ودیگر عوام دوست شاعر ادیب حاضر ہوتے تھے۔ آنے والوں میں مولانا کوثر نیازی اور استاد کے منہ بولے بیٹے اداکار علاؤالدین بھی آیا کرتے تھے۔
جس زمانے میں استاد دامن اس کھولی میں رہے اس زمانے میں یہ علاقہ ہیرا منڈی بن چکا تھا، اور واقعہ یہ ہے کہ جب فیض و دیگر احباب ملاقات کے لیے آتے اور استاد اپنے ہاتھ سے ہانڈی پکاتے اور سامنے رہنے والی طوائف سے کہتے ''بیٹی! چھ بندوں کے لیے روٹیاں پکا کر بھیج دو'' اور وہ بیٹی استاد کے کہنے کے مطابق آٹا گوندھ کے روٹیاں پکاکر استاد کی کھولی میں پہنچا دیتی تھی۔ جسے فیض احمد فیض، سبط حسن، حبیب جالب، مولانا کوثر نیازی، علاؤ الدین جو بھی آتے، کھاتے تھے۔ استاد دامن لاہور کے شہنشاہ تھے، کبھی کبھی وہ اپنے وقت کے لوہاری گیٹ کے ایک مشہور ہوٹل کے مالک کو پرچی لکھ کر جتنے احباب کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی منگوالیا کرتے تھے اور ہوٹل والے بھجوا دیتے تھے۔
اب ذرا بات استاد کی شاعری کے بارے میں ہوجائے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد 1954 میں استاد دامن کو انڈو پاک مشاعرے میں بلایا گیا۔ دہلی کے لال قلعہ میں مشاعرہ تھا۔ صدارت وزیراعظم ہندوستان پنڈت جواہر لعل نہرو کر رہے تھے، استاد نے اپنا کلام سنایا:
آزادیاں ہتھوں مجبور یارو
ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں
''یعنی آزادی حاصل کرنے کے ہاتھوں ہم اور تم دونوں مجبور ہوئے اور آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ روئے تم بھی ہو، اور روئے ہم بھی ہیں۔''
مشاعرہ کا کیا حال ہوا، صدر مشاعرہ نے اٹھ کر استاد کو گلے لگایا۔ پنڈت جی کی آنکھیں بھی نم تھیں اور سامعین ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان سب اشکبار تھے۔
بہت پہلے یہ مصرعے کہہ کر استاد دامن نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروادیا تھا ''پاکستان دیاں موجاں ای موجاں/ جدھر دیکھو، فوجاں ای فوجاں''۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے خلاف 1964 میں صدارتی انتخاب لڑا۔ حکومت نے حبیب جالب کو مادر ملت کے انتخابی جلسوں سے دور رکھنے کے لیے قتل کے جھوٹے مقدمے میں پکڑ کر بند کردیا۔
لاہور موچی گیٹ کے تاریخی انتخابی جلسے میں استاد دامن، جالب کی جگہ موجود تھے۔ اسی طرح ایک واقعہ بھی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں استاد دامن کو گرفتار کیا گیا، اور پولیس نے ان کی کھولی سے بھاری اسلحہ بارود برآمد کرلیا۔ چند دن بعد استاد دامن ضمانت پر باہر آئے تو بولے ''شکر ہے، میری کھولی ہے، ورنہ حکومت نے رانی توپ بھی میرے گھر سے برآمد کرلینی تھی۔'' اس عتاب کی وجہ یہ شاعری بنی تھی:
کی کری جاریاں ایں
کدی شملے جاریاں ای
کدی مری جاریاں ایں
اس زمانے میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر، ہندوستان پاکستان کے دورے پر تھے اور شملہ، مری میں مذاکرات ہو رہے تھے۔ استاد دامن اردو، فارسی، سنسکرت، پنجابی پر عبور رکھتے تھے، مگر اپنے عوامی رکھ رکھاؤ کی طرح شاعری بھی عام فہم کرتے تھے۔ استاد کی کھولی کتابوں سے بھری رہتی تھی۔ اپنی کتابوں کی حفاظت کے لیے وہ چوہوں کے لیے روز ''چوری'' (میٹھی گھی والی روٹی) بنایا کرتے تھے۔ رات کو چوہے آتے اور کتابوں کے بجائے چوری کھاتے۔ اور یوں کتابیں محفوظ رہتی تھیں۔
فیض کے انتقال پر استاد دامن شدید علالت کے سبب لاہور کے ایک اسپتال میں داخل تھے۔ ساتھ والے کمرے میں آپریشن زدہ حبیب جالب پڑے ہوئے تھے۔ استاد دامن شدید علالت کے باوجود فیض کے جنازے میں شریک ہوئے۔ احباب کے سہارے وہ آئے تھے،جالب آپریشن کے سبب اٹھ نہیں سکتے تھے، جالب نے اس شعر میں اس دکھ کو بیان کیا ہے:
آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالب
یہ مقدر کا ستم، بدلنے والا ہے کہیں
استاد دامن نے فلمی گیت بھی لکھے۔ صرف دو گیتوں کا ذکر کروں گا۔ مشہور اسٹریٹ سانگ استاد نے لکھا تھا ''منڈیا سیالکوٹیا! تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے'' اور خصوصاً یہ گیت جو استاد دامن کی سوچ کا زبردست ترجمان ہے:
نہ میں چاندی دی، نہ سونے دی
میں پیتل بھری پرات
مینوں دھرتی کلی کرا دے
میں نچاں ساری رات
یہ گیت بھی نورجہاں نے گایا تھا۔ آج دنیا جتنی میلی ہوگئی ہے خصوصاً ہمارا ملک، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ، مکر، فریب، حسد، ظلم کے سبب میلا ترین ہوچکا ہے۔ اس پر استاد دامن اللہ سے فریاد کر رہے ہیں کہ مجھے دھرتی قلعی کروادے یہ میل ختم کردے، تو میں ساری رات اس خوشی میں بلکہ ساری عمر ناچتا رہوں۔ افسوس کہ اب ایسے سچے انسان آنا بند ہوگئے ہیں۔ حالانکہ آج ان کی اشد ضرورت ہے۔ دسمبر کی تین تاریخ تھی جس دن چراغ دین دامن کا چراغ گل ہوا تھا۔
سچ کی راہوں میں مرنے والوں کا ذکر ہمارے حسب حال ہے۔ آج ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، یہ دو چار دنوں کی بات نہیں! پچھلے 70 سال کی ناانصافیوں کا نتیجہ ہے۔ سچے لوگ، جھوٹے حاکموں کو ٹوکتے رہے۔ مگر ظالم حکمران اپنی مکروہ حرکتوں سے باز نہ آئے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
آج ایسے ہی ایک سچے انسان کا ذکر ہے جس نے سچ کا راستہ نہیں چھوڑا، صعوبتوں میں سلگتے ہوئے خوشی خوشی زندگی گزاری اور ساتھ ایمان کے صاف دامن لیے اپنی قبر میں اتر گیا۔ یہ انسان جسے دنیا استاد دامن کے نام سے جانتی ہے، پنجابی زبان کے عوامی انقلابی شاعر تھے۔ استاد دامن مشہور صوفی شاعر شاہ حسین کے پیروکار تھے۔ شاہ حسین مغل اعظم کہلانے والے بادشاہ اکبر کے زمانے میں موجود تھے۔ مغل اعظم نے پورا زور لگا دیا کہ شاہ حسین کسی صورت بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوجائیں مگر بادشاہ کی حسرت، حسرت ہی رہ گئی اور فقیر اپنی کٹیا ہی میں رہا۔ درباری نہ بنا۔
یہ شاہ حسین وہی ہیں جن کی یاد میں ہر سال میلہ چراغاں ہوتا ہے، اور لاہور کے گھروں کی منڈیروں پر چراغ روشن کیے جاتے ہیں۔ شاہ حسین کا مزار شالامار باغ سے متصل ہے۔ اور استاد دامن کو بھی ان کی وصیت کے مطابق اپنے مرشد شاہ حسین کے احاطہ مزار میں ہی بعداز مرگ دفن کیا گیا۔ یہیں میں یہ بھی لکھتا چلوں کہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے عین قریب حضرت شاہ حسین ایک کھولی (چھوٹا سا کمرہ) میں رہتے تھے۔
استاد دامن نے بھی ساری عمر اپنے مرشد کی اسی کھولی میں گزاری۔ مغل اعظم کے دربار میں شاہ حسین نے حاضری نہیں لگائی اور مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے استاد دامن نے بھی حکمرانوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھا۔ استاد دامن کی کھولی میں ان کے دوست فیض احمد فیض، سبط حسن، حبیب جالب ودیگر عوام دوست شاعر ادیب حاضر ہوتے تھے۔ آنے والوں میں مولانا کوثر نیازی اور استاد کے منہ بولے بیٹے اداکار علاؤالدین بھی آیا کرتے تھے۔
جس زمانے میں استاد دامن اس کھولی میں رہے اس زمانے میں یہ علاقہ ہیرا منڈی بن چکا تھا، اور واقعہ یہ ہے کہ جب فیض و دیگر احباب ملاقات کے لیے آتے اور استاد اپنے ہاتھ سے ہانڈی پکاتے اور سامنے رہنے والی طوائف سے کہتے ''بیٹی! چھ بندوں کے لیے روٹیاں پکا کر بھیج دو'' اور وہ بیٹی استاد کے کہنے کے مطابق آٹا گوندھ کے روٹیاں پکاکر استاد کی کھولی میں پہنچا دیتی تھی۔ جسے فیض احمد فیض، سبط حسن، حبیب جالب، مولانا کوثر نیازی، علاؤ الدین جو بھی آتے، کھاتے تھے۔ استاد دامن لاہور کے شہنشاہ تھے، کبھی کبھی وہ اپنے وقت کے لوہاری گیٹ کے ایک مشہور ہوٹل کے مالک کو پرچی لکھ کر جتنے احباب کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی منگوالیا کرتے تھے اور ہوٹل والے بھجوا دیتے تھے۔
اب ذرا بات استاد کی شاعری کے بارے میں ہوجائے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد 1954 میں استاد دامن کو انڈو پاک مشاعرے میں بلایا گیا۔ دہلی کے لال قلعہ میں مشاعرہ تھا۔ صدارت وزیراعظم ہندوستان پنڈت جواہر لعل نہرو کر رہے تھے، استاد نے اپنا کلام سنایا:
آزادیاں ہتھوں مجبور یارو
ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں
''یعنی آزادی حاصل کرنے کے ہاتھوں ہم اور تم دونوں مجبور ہوئے اور آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ روئے تم بھی ہو، اور روئے ہم بھی ہیں۔''
مشاعرہ کا کیا حال ہوا، صدر مشاعرہ نے اٹھ کر استاد کو گلے لگایا۔ پنڈت جی کی آنکھیں بھی نم تھیں اور سامعین ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان سب اشکبار تھے۔
بہت پہلے یہ مصرعے کہہ کر استاد دامن نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروادیا تھا ''پاکستان دیاں موجاں ای موجاں/ جدھر دیکھو، فوجاں ای فوجاں''۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے خلاف 1964 میں صدارتی انتخاب لڑا۔ حکومت نے حبیب جالب کو مادر ملت کے انتخابی جلسوں سے دور رکھنے کے لیے قتل کے جھوٹے مقدمے میں پکڑ کر بند کردیا۔
لاہور موچی گیٹ کے تاریخی انتخابی جلسے میں استاد دامن، جالب کی جگہ موجود تھے۔ اسی طرح ایک واقعہ بھی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں استاد دامن کو گرفتار کیا گیا، اور پولیس نے ان کی کھولی سے بھاری اسلحہ بارود برآمد کرلیا۔ چند دن بعد استاد دامن ضمانت پر باہر آئے تو بولے ''شکر ہے، میری کھولی ہے، ورنہ حکومت نے رانی توپ بھی میرے گھر سے برآمد کرلینی تھی۔'' اس عتاب کی وجہ یہ شاعری بنی تھی:
کی کری جاریاں ایں
کدی شملے جاریاں ای
کدی مری جاریاں ایں
اس زمانے میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر، ہندوستان پاکستان کے دورے پر تھے اور شملہ، مری میں مذاکرات ہو رہے تھے۔ استاد دامن اردو، فارسی، سنسکرت، پنجابی پر عبور رکھتے تھے، مگر اپنے عوامی رکھ رکھاؤ کی طرح شاعری بھی عام فہم کرتے تھے۔ استاد کی کھولی کتابوں سے بھری رہتی تھی۔ اپنی کتابوں کی حفاظت کے لیے وہ چوہوں کے لیے روز ''چوری'' (میٹھی گھی والی روٹی) بنایا کرتے تھے۔ رات کو چوہے آتے اور کتابوں کے بجائے چوری کھاتے۔ اور یوں کتابیں محفوظ رہتی تھیں۔
فیض کے انتقال پر استاد دامن شدید علالت کے سبب لاہور کے ایک اسپتال میں داخل تھے۔ ساتھ والے کمرے میں آپریشن زدہ حبیب جالب پڑے ہوئے تھے۔ استاد دامن شدید علالت کے باوجود فیض کے جنازے میں شریک ہوئے۔ احباب کے سہارے وہ آئے تھے،جالب آپریشن کے سبب اٹھ نہیں سکتے تھے، جالب نے اس شعر میں اس دکھ کو بیان کیا ہے:
آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالب
یہ مقدر کا ستم، بدلنے والا ہے کہیں
استاد دامن نے فلمی گیت بھی لکھے۔ صرف دو گیتوں کا ذکر کروں گا۔ مشہور اسٹریٹ سانگ استاد نے لکھا تھا ''منڈیا سیالکوٹیا! تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے'' اور خصوصاً یہ گیت جو استاد دامن کی سوچ کا زبردست ترجمان ہے:
نہ میں چاندی دی، نہ سونے دی
میں پیتل بھری پرات
مینوں دھرتی کلی کرا دے
میں نچاں ساری رات
یہ گیت بھی نورجہاں نے گایا تھا۔ آج دنیا جتنی میلی ہوگئی ہے خصوصاً ہمارا ملک، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ، مکر، فریب، حسد، ظلم کے سبب میلا ترین ہوچکا ہے۔ اس پر استاد دامن اللہ سے فریاد کر رہے ہیں کہ مجھے دھرتی قلعی کروادے یہ میل ختم کردے، تو میں ساری رات اس خوشی میں بلکہ ساری عمر ناچتا رہوں۔ افسوس کہ اب ایسے سچے انسان آنا بند ہوگئے ہیں۔ حالانکہ آج ان کی اشد ضرورت ہے۔ دسمبر کی تین تاریخ تھی جس دن چراغ دین دامن کا چراغ گل ہوا تھا۔