نظام انصاف تنقید کی زد میں اور اداروں کی ذمے داری

کیا کوئی اسپیکر صاحب سے پوچھ سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے غیر فعال ہونے کے بھی کیا یہ ادارے ذمے دار ہیں۔


مزمل سہروردی December 18, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: چیف جسٹس پاکستان نے بالا آخر خاموشی توڑ دی۔ میں سمجھتا ہوں انھوں نے ٹھیک کیا۔ یہ ان کے ادارے کی عزت و حرمت کا سوال تھا۔ ان کی خاموشی ملک میں نظام عدل کے لیے خودکشی ثابت ہو رہی تھی۔

پاکستان کے دونوں بڑے قومی ادارے عدلیہ اور فوج اس وقت ایک عجیب دور سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے ان پر حملہ کیا ہوا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت سے ان دونوں اداروں کی خود مختاری کو ختم کردیں۔ ہماری اس سیاسی قیادت نے اس سے پہلے پارلیمنٹ، بیوروکریسی سمیت متعدد ملکی اداروں کی خود مختاری کو ختم کرایا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب ملک میں اچھے یا برے بس یہی دو ادارے بچے ہیں جن پر حملہ ہو چکا ہے۔

یہ درست ہے کہ چیف جسٹس نے واضع کر دیا ہے کہ عدلیہ کسی گیم پلان کا حصہ نہیں ہے لیکن انھیں یہ سمجھنا ہو گا عدلیہ اور فوج پر حملے ایک بڑے گیم پلان کا حصہ ہیں۔ یہ گیم پلان سادہ ہے کہ اگر ان دو اداروں کی خود مختاری ختم ہو جائے تو سیاسی آمریت کے لیے کوشاں سیاسی قیادت کو کھل کھیلنے کی آزادی مل جائے گی۔

ویسے تو چیف جسٹس پاکستان نے برملا کہا ہے کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ ملک میں بہترین قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہے اور گزشتہ دنوں اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ انھیں پارلیمنٹ کے حوالے سے حالات اچھے نہی لگ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اس انٹرویو میں بھی دراصل قومی اداروں کی جانب ہی اشارہ کیاتھا کہ وہ پارلیمنٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا کوئی اسپیکر صاحب سے پوچھ سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے غیر فعال ہونے کے بھی کیا یہ ادارے ذمے دار ہیں۔

کیا روز روز کورم پورا نہ ہونے کے بھی ادارے ذمے دار ہیں۔ کیا وزرا کے اجلاس میں نہ آنے کے بھی ادارے ذمے دار ہیں۔ کیا بروقت قانون سازی نہ ہونے کے بھی ادارے ذمے دار ہیں۔ اگر نواز شریف کے حق میں قانون سازی کرنی ہو تو راتوں رات ہو جائے لیکن اگر عوام کے مفاد کوئی قانون سازی کرنی ہو تو کورم ہی ہوتا نہ ہو۔ کیا ہماری سیاسی قیادت نے ارکان اسمبلی کو اپنا غلام نہیں بنا لیا ہوا۔ جیسے جیسے ارکان اسمبلی کی آزادی ختم ہوئی ویسے ویسے پارلیمنٹ کی آزادی اور خود مختاری بھی ختم ہو گئی۔

آج پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کے اداروں پر اندر اور باہر دونوں طرف سے حملہ ہو رہا ہے۔ فوج بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے بیک وقت نبرد آزما ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اداروں سے لڑنے والے پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ عدلیہ پر بھی یہ کوئی پہلی یلغار نہیں ہے لیکن شاید عدلیہ کی طرف سے مزاحمت پہلی دفعہ ہو رہی ہے۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس بار فوج نے سیاستدانوں کے ٹریپ میں نہ آنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ مصیبت یہی ہے کہ اس سے پہلے جب بھی سیاستدانوں نے ملک کے حالات خراب کیے فوج آ گئی اور سیاستدانوں کو اپنا گند چھپانے کا موقع مل جاتا تھا۔

جمہوریت کی بحالی کی جنگ شروع ہو جاتی، ادارے مشکل میں پھنس جاتے اور سب جرائم دھل جاتے۔ یہ آمریت پسند جمہوری سیاستدان اب بھی یہی چاہتے ہیں۔ وہ لڑائی اتنی بڑھا دینا چاہتے ہیں کہ ادارے جمہوریت کی بساط لیٹنے پر مجبور ہو جائیں۔ لیکن اس بار فوج نے بھی فیصلہ کیا ہوا ہے کہ غصہ میں نہیں آنا۔ ٹریپ میں نہیں آنا۔ اسی جمہوریت کو ان کے گلے کا پھندا بنانا ہے۔ ان کا ہر حملہ برداشت کرنا ہے۔ورنہ یہ کیا منطق ہے، ملک میں حکومت بھی نواز شریف کی ہے وزیر اعظم ان کے اشاروں پر کام کر رہا ہے اور وہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ملک کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے، حالات خراب ہو گئے ہیں۔

کوئی پوچھے کہ آپکی تو حکومت ہے آپ ہی یہ کہہ رہے ہیں۔ لیکن ہماری سیاسی قیادت اپنی ڈار سے باہر سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ اکیلے نواز شریف ہی نہیں عمران خان زرداری سمیت سب اپنی ذات کے قیدی ہیں۔ نرگسیت کا شکار ہیں۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کا عالتی نظام عام آدمی کو بروقت انصاف دینے میں ناکام رہی ہے۔ مقدمات طویل التوا اور تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول ناممکن بنا دیا ہے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت عام آدمی کو انصاف دلوانے کے لیے عدلیہ سے نہیں لڑرہی بلکہ وہ تو اپنی ذاتی لڑائی لڑ رہے ہیں، وہ تو لڑ رہے ہیں کہ ان کے مقدمات کا جلد فیصلہ کیوں کر دیا گیا ہے۔ ان کے مقدمات میں لمبی لمبی تاریخیں کیوں نہیں دی گئیں۔

یہ درست ہے کہ عدلیہ کسی گریٹ گیم کا حصہ نہیں ہے لیکن پاکستان کی فوج کو چرچل کے اس قول کو یاد رکھنا ہے کہ اگر نظام انصاف کام کر رہا ہے تو برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں اسی طرح اچھا یا برا لیکن پاکستان کا نظام انصاف ہی پاکستان کی سالمیت کا ضامن ہے ورنہ ملک میں جنگل کا 'قانون' آجائے گا۔ پہلے ہی دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں جو کوئی خوش آیند بات نہیں اور اگر ملک کی سیاسی قیادت اس نظام انصاف کو خدانخواستہ گرانے میں کامیاب ہو گئی جس کا اشارہ چیف جسٹس نے دیا ہے لیکن ساتھ کہا ہے کہ وہ ایسے نہیں ہونے دیں گے۔ تو پھر کیا عام آدمی کو انصاف دینے کے لیے ملٹری کورٹس قائم کی جائیں گی۔

ایک فوج کیا کیا کرے گی۔ اس لیے جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ بری سے بری جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے اسی طرح برے سے برا نظام انصاف ایک ایک معاشرہ کے لیے ناگزیر ہے۔ نظام انصاف کے بغیر جمہوری و غیر جمہوری معاشرہ کا کوئی تصور نہیں۔ نظام انصاف دونوں صورتوں میں ناگزیر ہے چاہے وہ نظریہ ضرورت کے تحت ہی کیوں نہ فیصلہ کرے۔

یہ دلیل بھی غلط ہے کہ عدلیہ کے فیصلے عوام کی عدالت میں جوابدہ ہیں۔ آئین وقانون کے تحت کیے جانے والے فیصلے عوامی عدالت کی تائید کے محتاج نہیں۔

عوام کسی آئین وقانون کے تحت فیصلہ کرنے کے پابند نہی ہیں۔ اس لیے دونوں کا موازنہ ایک جاہلانہ سوچ کا عکاس ہے۔

عدالت سے سزا پانے والے افراد کے ساتھ ہمدردی کے جذبات عام دیکھے جاتے ہیں۔ لوگ پھانسی پانے والوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں۔ ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو دی جانے والی سزائیں غلط تھیں۔ کیا پاکستان کی سیاسی قیادت یہ کہہ رہی ہے کہ عدلیہ کو ان کو نا اہل کرنے اورسزا دینے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پاکستان کی عدالتوں کو جوابدہ نہیں ہو سکتے۔ ان کا واحد احتساب انتخاب ہے۔ انتخاب جیت گئے تو ہر قانون سے استثنیٰ عدالتوں سے بھی استثنیٰ ہر قسم کے احتساب سے استثنیٰ بس انتخاب ہی احتساب ہو تو پھر جو ہار جائیں گے وہ کیا نظام کو چلنے دیں گے۔

کیا پھر انتخاب ہو سکے گا۔ لوگ اس کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنالیں گے ہماری سیاسی قیادت کو سمجھنا ہو گا کہ وہ احتساب سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ البتہ ہمیں اداروں میں بھی احتساب کا عمل کرنا ہو گا۔ صرف سیاستدانوں کا احتساب کرپشن کا حل نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں