پاکستان کا سیاسی بحران
پاکستان کو سیاسی بحران یا انتشار سے بچانا ہے تو اس کا واحد حل قانون کی حکمرانی سے جڑا ہوا ہے۔
عمومی طور پر پاکستان کے سیاسی بحران پر گفتگو حکومت مخالف عناصر، دانشور طبقہ، میڈیا اور رائے عامہ تشکیل دینے والے ادارے کرتے ہیں اور حکمران طبقہ ان کی رائے سے متفق نہیں ہوتا۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت کی مخالفت میں ایک مخصوص طبقہ بلاوجہ مایوسی پھیلاتا ہے۔لیکن اس وقت جو سیاسی بحران ہے وہ محض حکومت مخالف طبقات تک محدود نہیں، بلکہ بحران کی کہانی خود حکمران طبقہ کے اندر سے بھی سننے کو ملتی ہے۔مسئلہ محض حکومت کی ناکامی کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہمارا ریاستی نظام جس انداز سے چل رہا ہے اس پر بنیادی نوعیت کے سوالات ابھر رہے ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اچھی شہرت کے سیاست دان ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں انھوں نے چند اہم نکات اٹھائے ہیں۔ اول ان کو خدشہ ہے کہ اس موجودہ اسمبلی کی مدت پوری نہیں کرنے دی جائے گی۔ دوئم ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گریٹر پلان بنتا دیکھ رہا ہوں اور باخبر ہوںاس کے تحت لوگ اسمبلیوں سے مستعفی ہوسکتے ہیں۔
سوئم میں جنرل مشرف کے دور میں بھی میں اتنا مایوس نہیں تھا جتنا حالیہ بحران نے کردیا ہے۔ چہارم چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے،یہ چیزیں نارمل نہیں ہیں غیر فطری ہیں ۔پنجم صورتحال کافی غیر یقینی اور داخلی خطرات زیادہ سنگین ہیں اور ضروری نہیں کہ نظام ہی ڈی ریل ہو، کچھ ہونے والا ہے معلوم نہیں کون کروا رہا ہے اور کچھ باتیں پوچھی نہیں سمجھی جاتی ہیں۔
سردار ایاز صادق یقینی طور پر باخبر آدمی ہیں اور اگر انھوں نے یہ باتیں کی ہیں تو اس کے پیچھے کچھ تو ہے۔ اگرچہ نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے لندن اجلاس میں سردار ایاز صادق کے بیان کو سخت ناپسند کیا گیا ہے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی نالاں ہیں مگر جو کچھ ایاز صادق نے کہہ دیا ہے وہ اپنے اندر ایک بڑے بحران کے تاثر کو طاقت فراہم کر رہا ہے۔ی
ہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر کہا جارہا ہے جب ملک 2018ء کے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس سے قبل سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کرچکے ہیںاوران کے بقول سیاسی نظام، جمہوریت، پارلیمنٹ سمیت پوری سیاست کمزور ہوتی جارہی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ سردار ایاز صادق، رضاربانی سمیت بہت سے لوگ جن خدشات کا اظہار کررہے ہیں اس میں سیاسی نظام، سیاسی قیادت، سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی حکومت کا خود کتنا حصہ ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ سارا غصہ یا خدشہ خارجی عوامل سے جوڑا جارہا ہے۔داخلی تجزیہ بھی کیا جانا چاہیے کہ خود اہل سیاست سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں۔کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(کی حکومت نے جس انداز سے سیاسی نظام چلایا ہے وہ خود بہت سے بحرانوں کو پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ہمارا سیاسی نظام بگاڑ کا شکار ہے۔
سردار ایاز صادق کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت، فوج اور عدلیہ میں محاذآرائی کو پیدا کرنے میں خود ان کی اپنی حکومت کا بڑا ہاتھ ہے ۔جو لب ولہجہ نواز شریف نے اختیار کیا ہوا ہے اس سے کیسے سیاسی استحکام آسکے گا؟سردار ایاز صادق جس پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں اس کے سابق قائد ایوان اور حکومتی جماعت کے سربراہ نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں نے اس پارلیمنٹ کی جو بے توقیری کی ہے اس پر خود اسپیکر نے بھی اپنی ذبان کی تالہ بندی کررکھی ہے۔
پاکستان کو سیاسی بحران یا انتشار سے بچانا ہے تو اس کا واحد حل قانون کی حکمرانی سے جڑا ہوا ہے۔ ہم طبقاتی بنیادوں پر نظام کو چلا کر ایک مخصوص طبقہ کی سیاست کو تقویت دے رہے ہیں وہ نظام کو کھوکھلا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ مسئلہ محض حکومت، سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی ٹکراو کا نہیں بلکہ مظلو م عوام کا بھی ایک مقدمہ ہے جو حکمران طبقہ کے خلاف ہے۔ اس وقت طاقت کے فریقین میں جو لڑائی جارہی ہے اس میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت جو ہمارا داخلی بحران ہے اس کی وجہ قومی معاملات، ریاستی مفادات کے مقابلے میں ذاتیات اور خاندان پر مبنی سیاست نے ہمارے اداروں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہماری سیاسی قیادتیں یا طاقتور طبقات اداروں کو مستحکم بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو اپنے موجودہ طرز عمل کو بدلنا ہوگا۔لیکن اس کے لیے قومی سطح پر ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کرنا ہوگا اب نئے طور طریقے اختیار کرنے ہونگے۔
ہمیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوںکی سیاست سے باہر نکل کر قومی مفادات کو تحفظ دے کر اس ریاستی نظام کی فکر کریں جو حقیقی معنوں میں ان کی توجہ چاہتا ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہماری حکمران اور حزب اختلاف کی قیادت کو اس بات کا احساس پیدا ہوکہ ان کا کردار وہ نہیں جو وہ کررہے ہیں۔ داخلی بحران کے ساتھ خارجی مسائل نے بھی ہمیں مشکل صورتحال میں ڈالا ہوا ہے۔ اس بحران کا حل تلاش کرنا سب فریقین کی ذمے داری ہے۔
یہ محض انتخابات کے نتیجے میں نئی قیادت کے سامنے آنے سے حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے انتخابات بھی ہوں لیکن اس سے بڑھ کر ایک بڑے سیاسی کردار اور سیاسی فریم ورک کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاملات پیچیدہ ضرور ہیں ، لیکن ان کا حل ناممکن نہیں۔
اصل مسئلہ اس کی شدت کو تسلیم کرنا، غلطیوں کا اعتراف کرکے اس کا متبادل تلاش کرنا، معقول حکمت عملیوں کو ترتیب دینا، آگے بڑھنے کے لیے تمام فریقین سے مشاورت کے عمل کو یقینی بنانا،اداروں کو متنازعہ بنانے کے عمل سے گریز، ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنا، عوامی مفادات کو طاقت کی اس لڑائی سے جوڑ پیدا کرنا، اپنی ذاتی مرضی، خواہش اور انا کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے سے جڑا ہوا ہے۔لیکن کیا ہماری سیاسی قیادت سمیت دیگر فریقین یہ سب کچھ کرسکیں گے، بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔