سانحہ ماڈل ٹاؤن کا نیا باب
احتیاط پسند پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور ان کے دست راست رانا ثنا اللہ براہ راست اس طوفان کی زد میں آ رہے ہیں۔
برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ عدالتی محاذ پر اگرچہ کہ مسلم لیگی حکومت چاروں شانے چت ہو گئی ہے لیکن مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف اس پسپائی کے باوجود بڑی جرأت بلکہ غیرمعمولی جرأت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ لیکن اپنی دانستہ غلطیوں کی وجہ وہ اس محاذ پر بھی چاروں طرف سے گھرتے نظر آتے ہیں۔
کرپشن، منی لانڈرنگ وغیرہ کے الزامات میں وہ خود ہی ملزم نہیں ٹھہرائے جا رہے ہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ان الزامات کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ ابھی میاں برادران اس محاذ پر الجھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرا خطرناک محاذ ان کے سامنے کھڑا ہوگیا ہے، ماڈل ٹاؤن میں 2014ء میں عمران، قادری دھرنا سیاست کے آغاز میں جو المیہ پیش آیا اگرچہ کہ میاں برادران نے بڑی مہارت سے اسے چار سال سے دبائے رکھا لیکن یہ مسئلہ جسٹس باقر علی نجفی کی رپورٹ کے پبلک ہونے کے بعد نہ صرف دوبارہ زندہ ہو گیا ہے بلکہ ایک ایسی خطرناک شکل اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے جس میں احتیاط پسند پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور ان کے دست راست رانا ثنا اللہ براہ راست اس طوفان کی زد میں آ رہے ہیں۔
2014ء میں ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے کارکنوں پر جو اندھا دھند فائرنگ کی گئی اس میں 14 کارکن جاں بحق ہو گئے تھے۔ منہاج القرآن کے سربراہ پچھلے چار سال سے ماڈل ٹاؤن میں قتل کیے گئے 14 کارکنوں کے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن میاں برادران کے مضبوط اقتدار کے سامنے قادری صاحب بے بس رہے اور بڑی کوششوں سے اس کی ایف آئی آر کٹوا سکے۔
پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد میاں برادران کی پسپائی کا جو سلسلہ شروع ہوا اب وہ ماڈل ٹاؤن تک پہنچ گیا ہے۔ اس دوران ختم نبوت کے حوالے سے میاں برادران کی حکومت نے حلف نامے میں ترمیم کا جو قدم اٹھایا تھا وہ ان کے گلے اس طرح پڑ گیا ہے کہ اس طوفان میں ایک مرکزی وزیر قانون کی بلی دینا پڑ گئی۔ اس کیس کے مدعی اب رانا ثنا اللہ وزیر قانون پنجاب کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ابھی حکومت کے سر پر سوار ہی تھا کہ ماڈل ٹاؤن کا مسئلہ بڑی شدت سے سامنے آگیا۔
ماڈل ٹاؤن کے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 14 افراد کے قتل کے اس مسئلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، رانا ثنا اللہ کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اس کیس کی انکوائری جسٹس باقر نجفی نے کی تھی۔ اس انکوائری رپورٹ کو میاں برادران نے 4 سال تک پبلک نہ ہونے دیا آخر کار ''بوجوہ'' یہ رپورٹ اب منظر عام پر آگئی ہے۔
مولانا طاہر القادری کا موقف یہ ہے کہ نجفی رپورٹ میں ماڈل ٹاؤن قتل کی ذمے داری جن لوگوں پر ڈالی گئی ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ اس حوالے سے اگرچہ پنجاب حکومت ان الزامات کو جھٹلا رہی ہے لیکن اس سانحے کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک میٹنگ کی کارروائی میڈیا میں آ رہی ہے جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے کارکنوں پر فائرنگ کا حکم میاں شہباز شریف نے دیا تھا، جس کی نگرانی اور عملدرآمد کا الزام پنجاب کے وزیر قانون جناب رانا ثنا اللہ پر لگایا جا رہا ہے۔
اقتدار کا نشہ اس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ اس میں مقتدر طبقات خود اپنے انجام سے لاپرواہ ہو جاتے ہیں اور جب یہ نشہ اترنے لگتا ہے تو ایسے تلخ حقائق سامنے آنے لگتے ہیں جن کا سامنا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اقتدار کا اندھا پن مقتدر لوگوں کی دانائی و بینائی کو کھا جاتا ہے۔ جب آنکھوں کے سامنے سے اقتدار کی دبیز تہہ ہٹ جاتی ہے تو سامنے ایک بھیانک مستقبل کھڑا نظر آتا ہے اور مقتدر لوگ آنکھیں مل مل کر ان خطرناک حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں جو اقتدار کی رنگینیوں میں نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے ماضی میں طاہر القادری کو عمران خان کی حمایت حاصل تھی لیکن ان کے درمیان ایک تو سیاسی اختلافات کی دھند چھائی رہی دوسرے اسلام آباد دھرنوں کی ناکامی کی وجہ میاں برادران اس قدر طاقتور ہو گئے کہ وہ ماڈل ٹاؤن کے مسئلے کو پس پشت ڈالنے میں کامیاب رہے۔ جب سے پاناما اسکینڈل میں بڑے میاں اور ان کی فیملی ملوث ہو گئی ہے میاں برادران کے ستارے گردش میں آ گئے ہیں اور ایک کے بعد ایک مصیبت ان کے سامنے آ رہی ہے، اور اب تازہ اور خطرناک مصیبت ماڈل ٹاؤن کیس کی شکل میں ان کے سامنے کھڑی ہے۔
حکومت پنجاب ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے 14 کارکنوں کے قتل سے اپنے آپ کو نردوش ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس حقیقت سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کا قتل پنجاب کی پولیس کے ہاتھوں ہوا اور اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ ہی تھے۔ جمہوری حکومتوں کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اگر ریل کا کوئی حادثہ ہوتا ہے تو وزیر ریلوے پر اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے اس حوالے سے پنجاب کی حکومت کو ماڈل ٹاؤن قتل کی ذمے داری عائد کی جا رہی ہے تو کیا یہ جمہوری قدروں کے مطابق نہیں ہے؟
ماڈل ٹاؤن قتل کے خلاف 4 سال سے مولانا طاہر القادری آواز اٹھاتے آ رہے ہیں اب حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ طاہر القادری کو اپنی کامیابی یقینی نظر آنے لگی ہے۔ طاہر القادری وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے خلاف ایک طاقتور تحریک چلانا چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں سیاسی حمایت کی ضرورت ہے۔ 2014ء میں انھیں عمران خان کی ادھوری حمایت حاصل تھی لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری کا تعلق مڈل کلاس سے ہے جن میں تضادات کے باوجود طبقاتی تعلق ایک اہم فیکٹر ہوتا ہے۔
اب طاہر القادری نے اس حوالے سے زرداری کی حمایت حاصل کی ہے جس کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو زرداری کی پیپلز پارٹی کو اس کا فائدہ بہرحال ہو گا۔ عمران خان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے پیچھے کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ بروقت اور حالات کے مطابق فیصلے نہیں کر سکتے۔ اس کمزوری کی وجہ سے نہ وہ عوام میں اپنی پذیرائی کو عوام کے حق میں استعمال کر رہے ہیں نہ حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دے پا رہے ہیں۔ زرداری سے قادری کی ملاقات کے بعد عمران خان ماڈل ٹاؤن تحریک کی بعد از وقت حمایت کر رہے ہیں۔