پیپلز پارٹی کی تحریک انصاف کے لیے نیک خواہشات
میاں نواز شریف نے تن تنہاء پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو اپنی جماعت کی چھتری تلے جمع کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔
مجھے ابھی تک یقین نہیں ہوا کہ میں جو لکھنے جا رہا ہوں، وہ قابل اعتبار محسوس ہو گا یا نہیں۔ پھر بھی لکھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک پیشہ ور صحافی کی حیثیت میں برسوں سے اس بات کا عادی ہو گیا ہوں کہ آپ کسی جماعت کو تواتر کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنائیں تو اس سے وابستہ لوگ آپ سے گلہ کرتے ہیں۔ چند ایک اتنا ناراض ہو جاتے ہیں کہ شکل دیکھیں تو منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو طے کرلیتے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین سے لفافے وغیرہ لے کر انھیں بدنام کیا جا رہا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں ایک صحافی کی ہڈی ڈھیٹ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جن کے خلاف لکھتا ہے ان کی وضاحتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال کر اپنی راہ لیتا ہے۔ جو لوگ آپ کی تنقید سے بچے رہتے ہیں، وہ اکثر خود کو آپ کا دوست تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں اور بڑے اہتمام سے کچھ ایسی غیبت یا کاغذات وغیرہ جمع کر کے آپ تک پہنچا دیتے ہیں جو ان کے مخالفین کی مزید رسوائی اور ذلت کا باعث بنیں۔ انتخابات کے موسم میں ایک صحافی کے ''دوست'' توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں بھی خیر کے دو کلمے لکھ ڈالے۔
گزشتہ چار دنوں سے اتفاقاََ میری زیادہ ملاقاتیں پیپلز پارٹی کے لوگوں سے ہوئیں۔ ان سب نے الگ الگ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد مجھ سے گلہ کیا تو صرف ایک بات کا کہ میں اکثر عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پر تنقید کیوں کرتا ہوں۔ ایک بے وقوف انسان ہوتے ہوئے میں ان کے شکوے سن کر فوراََ اس شک میں مبتلا ہو جاتا کہ شاید وہ حکومت ختم ہو جانے کے بعد اس جماعت میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تھوڑی ہمت کر کے میں اس شک کا اظہار کر دیتا تو وہ تلملا اُٹھتے اور مجھے یاد دلانا شروع ہو جاتے کہ بھٹو اور اس کی جماعت سے محبت تو ان کے خون میں شامل ہے۔ وہ تو مرنے کے بعد بھی پیپلز پارٹی کے پرچم میں لپٹے ہوئے قبر میں اُترنا چاہیں گے۔
ان کا جذباتی خطاب سنتے ہوئے میں کبھی انھیں یہ بتانے کی جرأت نہ کر پایا کہ کون سے سال کس شخص کے ہوئے انھوں نے اپنے ''خون میں شامل'' پارٹی سے بے وفائی کی تھی۔ بہرحال بڑے سکون سے ان کا خطاب سننے کے بعد میں ان سے سوال کرتا کہ پیپلز پارٹی کے ازلی جیالے ہوتے ہوئے انھیں مجھے قائل تو اس بات پر کرنا چاہیے کہ انتخابات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے ان کی ذات اور جماعت کے بارے میں بھی خیر کے دو کلمے لکھ دوں۔ مگر میں جن لوگوں سے ملا وہ تحریک انصاف کی وکالت کرتے پائے گئے۔ ان کا اس جماعت سے کیا لینا دینا۔ ''صاب جی بس عمران خان کو ذرا چُک کے رکھیے۔ ہم آپ کے نیاز مند ہیں اور کچھ نہیں تو اس کے بارے میں ہتھ ذرا ہولا کر لیجیے''۔ یہ وہ جواب تھا جو لفظوں کے تھوڑے ہیر پھیر کے ساتھ پیپلز پارٹی کے لوگوں سے ملا۔
سچی بات ہے کہ میری صحافتی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی زمانے میں چاروں صوبوں کی زنجیر اور اپنی ٹکٹ سے کھمبوں کو بھی اسمبلی میں بھیج سکنے کا گھمنڈ رکھنے والی پیپلز پارٹی سے وابستہ میرے بہت سارے شناسا مجھے عمران خان کی محبت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ بڑے ٹھنڈے دل سے میں نے پورے دو دن اسی عجب منظر کی ٹھوس وجوہات ڈھونڈنے میں صرف کر دیے۔ پیپلز پارٹی کے جن لوگوں سے ملا تھا ایک ایک کر کے ان کے آبائی حلقوں کا طائرانہ جائزہ لیا تو دریافت ہوا کہ وسطی پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں موجود ان حلقوں میں اب تک دھڑے دو ہی رہے ہیں۔
ایک پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا کرتا تھا دوسرا اس کا مخالف۔ پیپلز پارٹی کے تمام مخالف 1977ء سے دریافت کر چکے ہیں کہ وہ سب اکٹھے ہو جائیں تو اس جماعت کو اقتدار سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔1997ء میں لیکن یہ تبدیلی آئی کہ میاں نواز شریف نے تن تنہاء پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو اپنی جماعت کی چھتری تلے جمع کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔ 2013ء میں کم از کم اٹک سے ملتان تک ایسی ہی کہانی دوبارہ بنتی نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی والوں کی واحد امید عمران خان اور ان کی تحریک انصاف بنتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گا۔
اپنی جماعت سے بہت ناراض ہوا تو پولنگ والے دن گھر بیٹھا رہے گا۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے 2002ء سے پیپلز پارٹی کے اسمبلیوں میں آنے والے لوگ اپنے اپنے حلقوں میں نظریاتی نہیں زیادہ تر برادری کی بنیاد پر اپنا دھڑا مضبوط کرتے رہے۔ انھیں یقین ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے آیندہ انتخابات میں وہ دھڑے بندی کی بنیاد پر پولنگ کے روز50 سے 60 ہزار تک ووٹ اکٹھے کر لیں گے۔ یہ ووٹ مگر قومی اسمبلی تک پہنچنے کے لیے کافی نہیں۔ ''ہوا'' چونکہ نواز شریف کی بنتی نظر آ رہی ہے اس لیے خدشہ ہے کہ ان کی جماعت کی جانب سے کھڑا امیدوار اپنے دھڑے کے علاوہ صرف نواز شریف کے پرستاروں اور مسلم لیگ نامی جماعت کے ''نظریاتی حامیوں'' کے ووٹ بھی سمیٹ لے گا۔ عمران خان کی ذات میں بھی بے تحاشہ کشش ہے۔
ان کی جماعت پنجاب اور خیبر پختون خوا کے متوسط طبقے کو کافی متحرک کر بیٹھی ہے۔ نواز شریف اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی باریاں لے لیں۔ اب نئے چہرے آزمانا چاہیے والے نعرے میں بھی بڑی جان پڑتی نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے اپنے اپنے دھڑے کی طاقت پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس تمنا میں مرے جا رہے ہیں کہ آیندہ انتخابات میں ان کا نواز شریف کے امیدواروں سے One On One مقابلہ نہ ہو۔ میدان میں تین پہلوان اُتریں۔ تحریک انصاف کا امیدوار جس حلقے میں بہت طاقتور ہو گا وہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار اپنے دھڑے کی طاقت کی وجہ سے خود کو کافی خود اعتماد پائے گا۔
میں ذاتی طور پر پیپلز پارٹی والوں کے اس امید اور تجزیے سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا، مجھے تو بلکہ یہ شک ہورہا ہے کہ پنجاب کے بڑے شہروں میں اب تک پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے والے بہت سارے لوگ صرف نواز شریف کے بغض میں عمران خان کو ووٹ دینا چاہیں گے۔ پیپلز پارٹی میں بیٹھے لوگوں کی تحریک انصاف کے بارے میں نیک خواہشات ان کے کام نہ آئیں گی۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں ایک صحافی کی ہڈی ڈھیٹ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جن کے خلاف لکھتا ہے ان کی وضاحتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال کر اپنی راہ لیتا ہے۔ جو لوگ آپ کی تنقید سے بچے رہتے ہیں، وہ اکثر خود کو آپ کا دوست تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں اور بڑے اہتمام سے کچھ ایسی غیبت یا کاغذات وغیرہ جمع کر کے آپ تک پہنچا دیتے ہیں جو ان کے مخالفین کی مزید رسوائی اور ذلت کا باعث بنیں۔ انتخابات کے موسم میں ایک صحافی کے ''دوست'' توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں بھی خیر کے دو کلمے لکھ ڈالے۔
گزشتہ چار دنوں سے اتفاقاََ میری زیادہ ملاقاتیں پیپلز پارٹی کے لوگوں سے ہوئیں۔ ان سب نے الگ الگ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد مجھ سے گلہ کیا تو صرف ایک بات کا کہ میں اکثر عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پر تنقید کیوں کرتا ہوں۔ ایک بے وقوف انسان ہوتے ہوئے میں ان کے شکوے سن کر فوراََ اس شک میں مبتلا ہو جاتا کہ شاید وہ حکومت ختم ہو جانے کے بعد اس جماعت میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تھوڑی ہمت کر کے میں اس شک کا اظہار کر دیتا تو وہ تلملا اُٹھتے اور مجھے یاد دلانا شروع ہو جاتے کہ بھٹو اور اس کی جماعت سے محبت تو ان کے خون میں شامل ہے۔ وہ تو مرنے کے بعد بھی پیپلز پارٹی کے پرچم میں لپٹے ہوئے قبر میں اُترنا چاہیں گے۔
ان کا جذباتی خطاب سنتے ہوئے میں کبھی انھیں یہ بتانے کی جرأت نہ کر پایا کہ کون سے سال کس شخص کے ہوئے انھوں نے اپنے ''خون میں شامل'' پارٹی سے بے وفائی کی تھی۔ بہرحال بڑے سکون سے ان کا خطاب سننے کے بعد میں ان سے سوال کرتا کہ پیپلز پارٹی کے ازلی جیالے ہوتے ہوئے انھیں مجھے قائل تو اس بات پر کرنا چاہیے کہ انتخابات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے ان کی ذات اور جماعت کے بارے میں بھی خیر کے دو کلمے لکھ دوں۔ مگر میں جن لوگوں سے ملا وہ تحریک انصاف کی وکالت کرتے پائے گئے۔ ان کا اس جماعت سے کیا لینا دینا۔ ''صاب جی بس عمران خان کو ذرا چُک کے رکھیے۔ ہم آپ کے نیاز مند ہیں اور کچھ نہیں تو اس کے بارے میں ہتھ ذرا ہولا کر لیجیے''۔ یہ وہ جواب تھا جو لفظوں کے تھوڑے ہیر پھیر کے ساتھ پیپلز پارٹی کے لوگوں سے ملا۔
سچی بات ہے کہ میری صحافتی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی زمانے میں چاروں صوبوں کی زنجیر اور اپنی ٹکٹ سے کھمبوں کو بھی اسمبلی میں بھیج سکنے کا گھمنڈ رکھنے والی پیپلز پارٹی سے وابستہ میرے بہت سارے شناسا مجھے عمران خان کی محبت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ بڑے ٹھنڈے دل سے میں نے پورے دو دن اسی عجب منظر کی ٹھوس وجوہات ڈھونڈنے میں صرف کر دیے۔ پیپلز پارٹی کے جن لوگوں سے ملا تھا ایک ایک کر کے ان کے آبائی حلقوں کا طائرانہ جائزہ لیا تو دریافت ہوا کہ وسطی پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں موجود ان حلقوں میں اب تک دھڑے دو ہی رہے ہیں۔
ایک پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا کرتا تھا دوسرا اس کا مخالف۔ پیپلز پارٹی کے تمام مخالف 1977ء سے دریافت کر چکے ہیں کہ وہ سب اکٹھے ہو جائیں تو اس جماعت کو اقتدار سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔1997ء میں لیکن یہ تبدیلی آئی کہ میاں نواز شریف نے تن تنہاء پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو اپنی جماعت کی چھتری تلے جمع کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔ 2013ء میں کم از کم اٹک سے ملتان تک ایسی ہی کہانی دوبارہ بنتی نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی والوں کی واحد امید عمران خان اور ان کی تحریک انصاف بنتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گا۔
اپنی جماعت سے بہت ناراض ہوا تو پولنگ والے دن گھر بیٹھا رہے گا۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے 2002ء سے پیپلز پارٹی کے اسمبلیوں میں آنے والے لوگ اپنے اپنے حلقوں میں نظریاتی نہیں زیادہ تر برادری کی بنیاد پر اپنا دھڑا مضبوط کرتے رہے۔ انھیں یقین ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے آیندہ انتخابات میں وہ دھڑے بندی کی بنیاد پر پولنگ کے روز50 سے 60 ہزار تک ووٹ اکٹھے کر لیں گے۔ یہ ووٹ مگر قومی اسمبلی تک پہنچنے کے لیے کافی نہیں۔ ''ہوا'' چونکہ نواز شریف کی بنتی نظر آ رہی ہے اس لیے خدشہ ہے کہ ان کی جماعت کی جانب سے کھڑا امیدوار اپنے دھڑے کے علاوہ صرف نواز شریف کے پرستاروں اور مسلم لیگ نامی جماعت کے ''نظریاتی حامیوں'' کے ووٹ بھی سمیٹ لے گا۔ عمران خان کی ذات میں بھی بے تحاشہ کشش ہے۔
ان کی جماعت پنجاب اور خیبر پختون خوا کے متوسط طبقے کو کافی متحرک کر بیٹھی ہے۔ نواز شریف اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی باریاں لے لیں۔ اب نئے چہرے آزمانا چاہیے والے نعرے میں بھی بڑی جان پڑتی نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے اپنے اپنے دھڑے کی طاقت پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس تمنا میں مرے جا رہے ہیں کہ آیندہ انتخابات میں ان کا نواز شریف کے امیدواروں سے One On One مقابلہ نہ ہو۔ میدان میں تین پہلوان اُتریں۔ تحریک انصاف کا امیدوار جس حلقے میں بہت طاقتور ہو گا وہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار اپنے دھڑے کی طاقت کی وجہ سے خود کو کافی خود اعتماد پائے گا۔
میں ذاتی طور پر پیپلز پارٹی والوں کے اس امید اور تجزیے سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا، مجھے تو بلکہ یہ شک ہورہا ہے کہ پنجاب کے بڑے شہروں میں اب تک پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے والے بہت سارے لوگ صرف نواز شریف کے بغض میں عمران خان کو ووٹ دینا چاہیں گے۔ پیپلز پارٹی میں بیٹھے لوگوں کی تحریک انصاف کے بارے میں نیک خواہشات ان کے کام نہ آئیں گی۔