بلوچستان میں بدامنی
صرف کراچی سے اب تک 11 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں، یہ لاپتہ افراد کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے.
کراچی لاپتہ ہونے والے بلوچ سیاسی کارکنوں کی قتل گاہ بن گیا۔ مارچ کے پہلے 11 دنوں کے دوران چار بلوچ کارکنوں کی لاشیں کراچی کے مضافاتی علاقوں سے برآمد ہوئیں۔ بابو افتخار بلوچ اور مقبول احمد بلوچ کی لاشیں منگھو پیر کے علاقے ناردرن بائی پاس سے برآمد ہوئیں۔ ان بلوچ نوجوانوں کا تعلق پنجگور کے علاقے سے تھا مگر یہ کراچی میں بلدیہ ٹائون سے متصل رئیس گوٹھ سے ایک ماہ پہلے لاپتہ ہوئے تھے۔ ماسٹر عبدالرحمن کی عمر 35 سال تھی وہ اسکول میں استاد تھے۔ 22 سالہ زاہد حسین طالب علم تھا، انھیں ان کے آبائی علاقے پنجگور سے بالترتیب 12 اور 24 فروری کو اغوا کیا گیا تھا۔
بلوچ لاپتہ افراد کے ترجمان عبدالخالق بلوچ کا کہنا ہے کہ کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے کیمپ میں چار گمشدہ افراد کی تصاویرکا صیغہ تبدیل ہوگیا، ان کا کہنا ہے کہ مرنے والے افراد کے ساتھ تین اور بلوچ طالب علم وسیم افضل، زاہد ظہیر اور منظور قلندرانی بھی لاپتہ ہوئے تھے۔ اب کیمپ کے منتظمین ان نوجوانوں کی تصاویر مرنے والے افراد کی تصاویر کے ساتھ لگانے پر غور کررہے ہیں۔ عبدالخالق کا کہنا ہے کہ 2011 میں جب انھوں نے اپنے لڑکے کے لاپتہ ہونے کے بعد یہ کیمپ قائم کیا تھا تو صرف چند خاندانوں نے اس کیمپ میں دلچسپی لی مگر اب لاپتہ افراد کی تعداد 2,352 تک پہنچ گئی ہے۔
صرف کراچی سے اب تک 11 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں، یہ لاپتہ افراد کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے، صرف لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہونے والے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے تھے۔ قدیر بلوچ اپنے بیٹے جلیل ریکی کے لاپتہ ہونے کے بعد متحرک ہوا۔ قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ اس بیٹا جلیل ریکی نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ختم ہونے والی جمہوری ریپبلکن پارٹی کا سیکریٹری اطلاعات تھا۔
قدیر کا کہنا ہے کہ اس نے جلیل کی بازیابی کے لیے ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، اس کی کوششوں کی بنا پر ایک عسکری ایجنسی کے افسر نے اس کو بتایا کہ جلیل کا عید کے دن ٹیلی فون آئے گا اور ایک موبائل نمبر پر ایک ہزار روپے کا بیلنس ڈلوانے کی ہدایت کی، پھر رات گئے جلیل کی کال آئی، جلیل نے کہا اس کو خاصی سزا ملی ہے۔ جلیل نے اپنے باپ سے کہا کہ کسی سے رہائی کی بھیک نہیں مانگنا۔ پھر ایک دن بلوچی زبان کے چینل پر خبر آئی کہ جلیل کی لاش تربت سے ملی ہے، یہ سب کچھ 3 سال کے عرصے میں ہوا۔
ممتاز صحافی محمد حنیف نے لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنوں کے بارے میں ایک کتاب مرتب کی ہے۔ وسعت اﷲ خان اور سید کاشف رضا نے غائبستان میں بلوچ کے عنوان سے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس کتاب کو شایع کیا ہے، اس کتاب میں بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کے حالات زار تفصیلی طور پر بیان کیے گئے ہیں۔
محمد حنیف لکھتے ہیں کہ بلال مینگل نوشکی میں اعزازی صحافی تھے، پھر اس کو کنٹو نمنٹ میں درزی کا کام مل گیا، اس کا بیٹا خالد مینگل اس کے ساتھ کام کرنے لگا، وہ فوجیوں کے یونیفارم سیتا تھا، بدقسمتی سے فوجی قلعے میں ایک نائب صوبیدار رمضان بغیر اجازت قلعے سے نکلا اور چلا گیا جہاں وہ فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہوا، بلال مینگل کے بیٹے خالد کو گرفتار کرلیا گیا، خالد 25 روز بعد گھر لوٹ آیا، بلال کو بہت سکو ن ملا مگر 16 مئی 2011 کو رات 2 بجے اس کے گھر پر دو دروازے والی گاڑیوں اور بغیر نمبر پلیٹ کے کار سوار مسلح افراد نے ان کے گھر چھا پہ مارا، مردوں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے، ان لوگوں نے خالد مینگل کو اپنے پاس بلایا، بلال نے اپنے گھر کی چھت سے دیکھا کہ یہ گاڑیاں قلعے میں جارہی تھیں، اس نے ایس ایچ او کو فون اور درخواست کی کہ گاڑیوں کا پیچھا کرے۔
ایس ایچ او نے قلعے کے گیٹ نمبر 1 تک ان گاڑیوں کا پیچھا کیا مگر اس کو قلعے میں جانے کی اجازت نہیں ملی یوں وہ اپنے بچے کی صورت دیکھنے سے محروم ہوا۔ اس کتاب میں بلوچستان یونیورسٹی کی بائیو کیمسٹری میں ایم فل کی طالبہ فرزانہ مجید کا بھی ذکر ہے، فرزانہ کا بھائی ذاکر مستونگ سے اغوا ہوا، اس طرح کوئٹہ کے سریاب روڈ سے حافظ سعید رحمن کی گمشدگی کو 6 سال ہوگئے۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے حافظ سعید کی لاش کی تلاش کے لیے قبر کھودنے کا حکم دیا تھا کیونکہ پولیس کا کہنا تھا کہ حافظ سعید ایک دھماکے میں مارا جاچکا ہے مگر حافظ سعید کا پتہ نہیں چل سکا۔ بلوچستان یونیورسٹی ایم ایس سی کی طالبہ سمن بلوچ کو اپنے والد ڈاکٹر دین محمد کی تلاش ہے۔ اس کتاب میں بہت سے لاپتہ افراد کی داستان تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔
عجیب ستم ظریفی ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کرلی۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئین میں بنیادی تبدیلیاں کیں، صوبائی خود مختاری کا 60 سالہ قدیم مسئلہ حل ہوا، خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین نافذ ہوئے مگر بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے میں یہ حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ۔ جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو اس حکومت نے لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے کچھ اقدامات کیے تھے جس کی بنا پر خفیہ ایجنسیوں کے سیف ہائوسز میں قید بہت سے سیاسی قیدی اپنے گھروں کو پہنچ گئے تھے۔ اس وقت نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو نے حکومت کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا، پھر آغاز بہبود بلوچستا ن کا پیکیج سامنے آیا، اس پیکیج میں بلوچ نوجوانوں کو ملازمتیں دینے اور ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی گئی تھی۔
پیکیج کے تحت چند ہزار بلوچ نوجوانوں کو گریڈ 16 تک کی ملازمتیں فراہم کی گئیں مگر پھر صوبے کے باہر سے آنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی۔ اس لہر میں اساتذہ، صحافی، ڈاکٹر، وکیل، سرکاری پولیس افسر، حجام اور خواتین قتل کی گئیں، لاپتہ ہونے والے افراد کی لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت صرف کوئٹہ تک محدود ہے جہاں صوبے پر فرنٹیئر کانسٹیبلری کی حکمرانی ہے۔ اس کے ساتھ شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ان کے محلوں، عبادت گاہوں پر خود کش اور ریموٹ کنٹرول حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، اس خون ریزی میں کئی افراد قتل ہوئے۔
سپریم کورٹ نے جب بلوچستان بد امنی کیس کی سماعت کی تو یہ حقائق ریکارڈ پر آئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے بعض ریمارکس میں واضح کیا کہ بلوچ قوم پرست سیاسی کارکنوں کے اغوا اور قتل کے واقعات میں فرنٹئیر کانسٹیبلری ملوث ہے۔ ہزارہ برادری کی نسل کشی کی بنا پر اس برادری کے عمائدین نے نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کی برطرفی، کوئٹہ اور اطراف کے علاقوں کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ بلوچستان میں گورنر راج تو لگا مگر فوج مکمل کنٹرول نہیں سنبھال سکی، یوں بلوچ قوم پرستوں کا فرنٹیئر کانسٹیبلری کو بلوچستان سے نکالنے کا معاملہ پس پشت چلا گیا اور بلوچستان میں ایک نیا تضاد رونما ہوا۔
اس دوران بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اختر مینگل نے بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے تقریباً 6 نکات پیش کیے۔ اختر مینگل نے اپنے 6 نکات میں بلوچستان سے خفیہ ایجنسیوں کے خاتمے اور بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات پر زور دیا۔ انھوں نے اپنے نکات کو بلوچستان کے مسئلے کے حل کی آخری کوشش قرار دیا ہے مگر وفاقی حکومت نے سردار اختر مینگل کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ اب صدر زرداری نے ایران سے گیس کی پائپ لائن کے منصوبے پر دستخط کیے ہیں اور گوادر کی بندرگاہ کو چین کے حوالے کیا ہے مگر بلوچ نوجوانوں میںبے حسی بڑھ رہی ہے۔
اسٹبلشمنٹ طاقت کے ذریعے نوجوانوں کی مزاحمت کو کچل رہی ہے۔ جب تک بلوچوں کی اکثریت مطمئن نہیں ہوگی یہ ترقیاتی منصوبے کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر بلوچوں کی اکثریت نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تو یہ انتخابات بے معنی ہوں گے۔ صدر زرداری اور بلوچ کارکنوں کے قتل کے ذمے دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے تو پھر وفاق کے ڈھانچے پر کیا اثرات ہوں گے، کیا اسلام آباد کے مقتدر ادارے اس پر غور کررہے ہیں۔