سربازار می رقصم

کسی بھی مہذب معاشرے میں جب کوئی ملزم گرفتار ہوجاتا ہے تو مدعی کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے


Zaheer Akhter Bedari March 15, 2013
[email protected]

ہمارا ملک مذہبی انتہا پسندی کی اس منزل پر پہنچ گیا ہے جہاں ملک اور معاشرے کو اس مقام پر پہنچانے والے بھی شرمسار نظر آتے ہیں، یعنی بے لگام انتہا پسندی اب تنگ نظری کی وہ حدیں بھی پھلانگ رہی ہے جہاں انسانوں اور حیوانوں میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لاہور کی مسیحی بستی جوزف کالونی پر انتہا پسندوں نے حملہ کرکے مسیحی برادری کے 170 سے زیادہ گھروں کو آگ لگادی، جوزف بستی گھنٹوں تک میدان کارزار بنی رہی۔

یہ منظر ساری دنیا ٹی وی اسکرین پر دیکھتی رہی۔ مذہبی جنونیت کا عالم یہ تھا کہ پولیس کی بھاری نفری بھی اس بربریت کو روکنے میں ناکام رہی، آخر بادشاہی مسجد کے امام سمیت کئی محترم علما کی خدمات حاصل کرنا پڑیں جو لائوڈ اسپیکروں پر بلوائیوں سے قرآن اور حدیث کے حوالوں سے اپیل کرتے رہے کہ وہ ملک و قوم کو عالمی برادری میں اس طرح رسوا کرنے سے باز آئیں۔ یوں یہ خونیں ڈرامہ گھنٹوں کے جنون کے بعد تھما۔

خبروں کے مطابق اس المیے کا آغاز یوں ہوا کہ دو روز قبل نور روڈ کے رہائشی شرابی شاہد عمران اور اس کے دوست شفیق نے مسیحی نوجوان ساون مسیح کو گستاخانہ الفاظ ادا کرتے سنا، شاہد عمران کا کہنا ہے کہ جب ساون کو اس گستاخی سے روکا گیا تو اس نے شاہد عمران اور اس کے دوست پر تشدد کیا، بادامی باغ پولیس نے ساون مسیح کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا، یوں ایک ملزم قانون کی گرفت میں آگیا۔

کسی بھی مہذب معاشرے میں جب کوئی ملزم گرفتار ہوجاتا ہے تو مدعی کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے، اب قانون اور انصاف کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ الزام کی تحقیق کرے، اگر ملزم پر جرم ثابت ہوجاتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دے، اگر ملزم پر الزام ثابت نہیں ہوتا تو اسے رہا کردے، لیکن جوزف بستی میں قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا ہوتا دیکھنے کے بجائے مشتعل مجرموں نے پولیس سے یہ مطالبہ کیا کہ ملزم کو ان کے حوالے کردیا جائے اور مظاہرین کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اس گستاخ کو خود سزا دیں۔ جب پولیس نے مشتعل عوام کا یہ مطالبہ نہیں مانا تو آگ اور خون کا وہ کھیل شروع ہوا جس نے ہمیں عالمی برادری میں مزید رسوا کردیا۔

اس المیے سے قبل ایسا ہی ایک سانحہ گوجرہ میں بھی پیش آیاتھا جس میں مسیحی برادری کے ساتھ اس طرح کا ظلم ہوا تھا، لیکن اس ظلم کے خلاف کوئی سخت اقدامات نہیں کیے گئے، لہٰذا انتہا پسندی کو ایک اور ظلم کرنے کا حوصلہ ملا۔ کچھ دن پہلے میں نے اندرون سندھ ہندو برادری کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ایک کالم لکھا تھا اور حکام بالا کی توجہ سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہندو برادری پر ہونے والی زیادتیوں کی طرف مبذول کرائی تھی لیکن ہمارے حکمران، ہمارے سیاستدان اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس ایسے سنگین مسائل پر غور کرنے کا وقت نہیں جو عالمی برادری میں ہمیں رسوا اور ذلیل کررہے ہیں اور آہستہ آہستہ ہم بین الاقوامی دنیا میں اچھوت بنتے جارہے ہیں۔

ہر مذہب کے مذہبی اکابرین قابل احترام ہوتے ہیں اور انسانوں کا یہ اخلاقی فرض ہوتاہے کہ مذہبی اکابرین کا ا حترام کریں۔ اگر کوئی فرد کسی بھی مذہب کے بانی کی شان میں گستاخی کرتاہے تو وہ ایک بین الاقوامی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کرتا بلکہ کروڑوں انسانوں کی دل آزاری بھی کرتا ہے اور ایسے مجرم کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، لیکن ایک فرد کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو دینا اور وہ بھی اس بھیانک طریقے سے دینا ملکی قانون کے مطابق جائز ہے نہ بین الاقوامی قانون اسے تسلیم کرے گا۔

جوزف کالونی کا یہ سانحہ قوم وملک کے ہر بہی خواہ کے لیے یقیناً باعث تشویش ہی نہیں بلکہ باعث شرم بھی ہے لیکن جوزف کالونی کے اس المیے کو ہم ملک میں دس سال سے ہونے والے ان المیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے جن میں خود مسلمان اب تک ہزاروں کی تعداد میں انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل ہوتے رہے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی پشاور کے محلے باقر شاہ کی مسجد میں ہونے والی وہ دہشت گردی ہے جس میں 6 نمازی جاں بحق اور 30 سے زیادہ نمازی شدید زخمی ہوئے، یہ کرسچن تھے نہ ہندو، نہ یہودی، یہ مسلمان تھے جو نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں آئے تھے، جہاں وہ مسلمانوں ہی کی دہشت گردی کے شکار ہوگئے۔

کراچی میں اصفہانی روڈ کا المیہ کل کی بات ہے جس میں 50 مسلمان شہید اور 200 کے لگ بھگ زخمی ہوئے اور سو کے لگ بھگ فلیٹ تباہ ہوگئے، عباس ٹائون کے ہزاروں بے گھر اپنے فلیٹوں کے ملبے پر بے یار ومددگار بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان بنانے میں ان کے آبائواجداد نے جو قربانیاںدیں کیا اس کا صلہ یہی ہوسکتاہے؟

عباس ٹائون کراچی اور جوزف کالونی لاہور کے ملبوں پر بیٹھے مظلوموں کے درمیان مذہب کا فرق ضرور ہے لیکن ان مظلوموں پر ظلم کرنے والوں کا مذہب ایک ہی ہے اور وہ ہے حیوانیت۔ جب یہ حیوانیت بے لگام ہوجاتی ہے تو وہ جوزف کالونی اور عباس ٹائون میں فرق سے بے نیاز ہوجاتی ہے، پھر علمدار روڈ اور کیرانی روڈ پر جنازوں کا بازار لگتا ہے۔ ہمارے حکمران ہمارے سیاستدان، ہمارے دانشور اور خود مذہبی اکابرین قائد اعظم کے اقلیتوں کے حوالے سے عطا کیے ہوئے فرمودات کے حوالے دے کر مذہبی انتہا پسندوں سے گزارش کررہے ہیں کہ خدا کے لیے اپنے ملک، اپنی قوم کو رسوا کرنے سے باز آجائو! لیکن انتہا پسندی کسی اپیل کسی حوالے کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔

خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جوزف بستی کے سانحے نے ہمارا قومی چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کا خیال بالکل درست ہے لیکن ہم اتنا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان، کراچی میں ہونے والے قتل عام سے پاکستان کا چہرہ جس طرح بگڑ کر رہ گیا ہے اس بگڑے ہوئے چہرے کو جوزف بستی کی حیوانیت نے اور کریہہ بناکر رکھ دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علمدار روڈ، کیرانی روڈ، عباس ٹائون کی حیوانیت کو جنم دینے والے مجرم کون ہیں؟ جو محترم سیاست کار اس حیوانیت پر آج آنسو بہاتے نظر آرہے ہیں، ان پر ہی یہ الزام ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور نظریاتی تحفظات کی وجہ سے نہ صرف اس بے لگام انتہا پسندی کی پرورش کرتے رہے ہیں بلکہ آج بھی ان انتہا پسند طاقتوں کو اپنا سیاسی اتحادی بنائے ہوئے ہیں!

اندرون سندھ ہندو برادری کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں ہوں، گوجرہ اور جوزف بستی میں مسیحی کمیونٹی پر ہونے والے مظالم ہوں یا علمدار روڈ، کیرانی روڈ اور اصفہانی روڈ پر ہونے والی دہشت گردی، یہ ساری وحشتیں اس انتہا پسندی کی پیداوار ہیں جو روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکا نے پیدا کی تھی اور ضیاء الحق نے جسے پروان چڑھایا تھا، یہ انتہا پسندی آہستہ آہستہ 9/11 تک گئی اور اس کے جواب میں امریکا نے جو مہم یا جنگ شروع کی وہ اس انتہا پسندی کو اس مقام تک لے آئی جہاں من و تو کے امتیازات ختم ہوگئے اور شمالی وزیرستان سے کراچی تک یہ بلا امتیاز مذہب وملت اس طرح شعلہ بن گئی کہ پورا ملک اس انتہا پسندی کے شعلوں میں جھلس رہا ہے، اسے اب نہ فوجی آپریشنوں کے ذریعے قابو میں لانا ممکن نظر آرہا ہے نہ کسی مذاکرات ہی کے ذریعے اس عفریت کو قابو کرنا ممکن نظر آرہا ہے۔

اگر ایک قومی پالیسی کے ذریعے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں متفق ہوکر اس پر قابو پانے کی کوشش نہ کریں تو شاید یہ عفریت ہمارے قومی وجود ہی کو نہ نگل لے۔ جوزف کالونی میں دو شرابیوں کے جھگڑے کو جس طرح مذہبی رنگ دے کر آگ اور خون کا کھیل کھیلاگیا، اس سے ایک بار اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ہمارے انتہا پسند اپنے گھنائونے مقاصد کے لیے مذہب کو کس طرح استعمال کررہے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ پورا میڈیا حتیٰ کہ مذہبی قیادت بھی اس مذہبی جنون کی مذمت پر مجبور ہوگئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں